درویش نے کہا تھا غلطی کو غلطی
مان اور بھانپ کر اس سے تائب نہ ہونے والہ ایک اور سنگین غلطی کا مرتکب
ہوتا ہے جسکی شدت سے وہ نقصانات الم نشرح ہوتے ہیں جنکا ازالہ ممکن نہیں
رہتا۔یہ حوادث زمانہ کی تکرار ہے یا اتفاق یہ کسی عالمی سازش کا طرہ امتیاز
ہے یا تحریک آزادی کشمیر کو کھوہ کھاتے لگانے کا نیا پلان عالمی عدالت
انصاف نے ایک طرف کرنل قذافی اور انکے سپوت سیف الاسلام قذافی کے وارنٹ
گرفتاری جاری کردئیے مگر دوسری طرف فراری فرزند قذافی کے حوالے سے کشمیر
میں کئے جانے والے سروے کو میڈیا میں اچھالا جارہا ہے۔ستم ظریفی تو یہ ہے
جو جنگجو جرنیل خود اشتہاری ہوچکا ہے وہ بھلا سروے کی آڑ لیکر کسی قوم کی
آزادی تقدیر اور مستقبل کا فیصلہ کس طرح کرسکتا ہے؟ سیف الاسلام قذافی اور
اسکے انگریز کارندوں کو عدالت انصاف کی فکر کرنی چاہیے۔سیف الاسلام اور
برطانیہ کے کنگز کالج کے پروفیسر تھنک ٹینک اورمعروف سکالرrobert w bread
talk کی زیرنگرانی ہونے والے سروے کوkashmir patho peace کا نام دیا
گیا۔سروے کے نتائج محبان کشمیر پر بجلی بن کر گرے کیونکہ نتائج حقیقت سے
لگا نہیں کھاتے۔ پاکستان سے الحاق کشمیرکے خواہش مند پاکستانی اور دنیابھر
میں پھیلے مسلمانوں کے لئے سروے نتائج حیرت انگیز ہیں۔ سروے کے مطابق
مقبوضہ کشمیر کی صرف 2 فیصد آبادی نے الحاق پاکستان کی خواہش کا اظہار کیا
دو فیصد کی گل فشانی کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا جو قوم آزادی
کشمیر کے لئے ایک لاکھ انسانوں کی قربانی دے چکی ہے جو پچھلی چھ دہائیوں سے
اقوام متحدہ کی پاس کردہ قرادادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتی
آرہی ہو بھلا ایسی سرفروش قوم کے لئے دو فیصد والہ نتیجہ کسی طعنے اور
کوسنے سے کم نہیں۔ انڈین جریدے آوٹ لک میں ڈاکٹر رابرٹ کا انٹرویو شائع ہوا
ہے جو معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے سود مند ہوگا۔انٹرویو کے مطابق چھوٹے
قذافی نے2001 میں مقبوظہ کشمیر کا اس وقت دورہ کیا جب کشمیری جنگجوؤں کی
مسلح جدوجہد کو قابض فورسز پر غلبہ حاصل تھا۔سیف الاسلام قذافی نے اسی دور
میں دربدر ہونے والے کشمیری خاندانوں کی امداد و استعانت کے لئے خیراتی
ادارہ قائم کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر رابرٹ کے مطابق سیف قذافی کے دورہ کشمیر کا
مقصد پی ایچ ڈی کے لئے ۔سول سوسائٹی اقوام عالم کے بڑے قضیوں کو کس طرح حل
کرسکتی ہے ۔ کے عنوان سے لکھے جانیوالے مقالے پر ریسرچ کررہے تھے۔ سیف
السلام قذافی لندن کے سکول آف اکنامس فارغ التحصیل ہیں۔ آوٹ لک کے مطابق
سیف قذافی مسئلہ کشمیر میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اور اسے مسئلہ کشمیر کے
تمام پہلووں پر خاصا عبور حاصل تھا۔ اسی تناظر میں سیف قذافی نے کشمیر کے
دونوں حصوں میں بسنے والے کشمیریوں سے براہ راست ملنے کا پروگرام بنایا۔وہ
جستجو میں مبتلا تھے کہ کشمیری الحاق یواین او کی قراردادوں اور حق خود
ارادیت کے متعلق کیا وژن رکھتے ہیں یوں کشمیر کے دونوں حصوں میں سروے کا
منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ ڈاکٹر رابرٹ نے انٹرویو میں سیف اسلام قذافی کی
وکالت کی کہ سروے کا ائیڈیا سیف السلام نے تخلیق کیا۔ ڈاکٹر رابرٹ نے اپنے
متعلق بتایا کہ وہ2003 میں بھارتی کشمیر جبکہ1998 میں ازاد کشمیر کا دورہ
کرچکے ہیں۔رابرٹ نے دونوں حصوں کا موازنہ کیا کہ سری نگر جموں اور وادی میں
جگہ جگہ بھارتی فورسز نے جدید ترین ہتھیاروں کے ہمراہ جگہ جگہ ڈیرے ڈال
رکھے تھے۔آزاد کشمیر میں پاکستانی فوجیوں کی خاطر خواہ تعداد نظر نہیں
آئی۔جموں و کشمیر میں ایک جانب بھارتی فورسز کا پلڑا بھاری تھا تو دوسری
جانب مظفر آباد کے مقابلے میں جموں سری نگر میں تنازعاتی سائے زیادہ گہرے
تھے۔اہل پاکستان بھارتی افواج کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے عسکریت پسندوں
کو مجاہدین آزادی کا نام دیتے ہیں۔ڈاکٹر رابرٹ نے پشین گوئی کی کہ یہ مسئلہ
اب سنگینی اور غیر یقینی کی طرف بڑھ رہا ہے۔آزاد کشمیر کے باسیوں کے لئے یہ
بات ناقابل یقین ہوگی کہ جموں و کشمیر کے دو فیصد کشمیری پاکستان کے حق میں
غلطاں ہیں۔ڈاکٹر رابرٹ اپنے مشاہدات کو بیان کرتے ہیں کہ لاہور کراچی اور
پنجاب کے دیگر علاقوں میں رہنے والے کشمیری کچھ زیادہ ہی مضطرب تھے۔اوٹ لک
جریدے کے محولہ بالہ انٹرویو کا بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو ڈاکٹر رابرٹ کا
کردار غیر متعصبانہ دکھائی دیتا ہے مگر انکا جھکاؤ پڑوسی کی جانب ہے۔یار
لوگوںنے اسکی توجیہ پیش کی کہ آزاد کشمیر کے مقابلے میں جموں اور مقبوضہ
کشمیر کے تعلیمی صنعتی اور تجارتی اداروں کے انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کی
خاطر اربوں کے نڈز پھونک ڈالے۔بھارتی حکومت نے کشمیر میں گہری دلچسپی کا
مظاہرہ کیا۔اسکی دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی کشمیر پالیسی میں درجنوں
مرتبہ یو ٹرن لیا۔نو دو گیارہ کے بعد امریکہ اور مغرب نے ماضی کے مجاہدین
کو دہشت گردی کا سرٹیفیکیٹ دے دیا۔پاکستان پر مغرب نے دباؤ ڈالا کہ وہ سرحد
پار دراندازی ختم کرے۔پاکستان کی امریکن نواز کشمیر پالیسی میں تھوک کے
بھاو ہونے والی لچک نے مغرب میں بھارت کی کشمیر پالیسی کو شرف قبولیت ملنے
اور پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کردیا۔امریکہ سمیت مغرب میں بھارتی اٹوٹ
انگ کشمیر پالیسی زیادہ قابل اعتماد مانی جاتی ہے۔جنرل مشرف نے کارگل کا
محاز کھولا تو مغرب میں میڈیا میں افواج پاکستان پر غیرسروپا الزامات طرازی
کے اتوار بازار سج گئے۔اس پر مستزاد یہ کہ ہماری فوجوں کو ننگی گالیاں دی
گئیں۔پرنٹ میڈیا میں روگ آرمی کے اشتہارات شائع ہوتے رہے۔نواز شریف اور
جنرل مشرف کی باہمی چپقلش نے کشمیرکاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔نواز
شاہی کے قصیدہ خواہ وزرا اور پالیسی میکرز نے صہیونی اور مغربی میڈیا کی
کذب بیانیوں کا منہ توڑ جواب نہ دیا۔واشنگٹن میں کشمیر سنٹر کے سربراہ غلام
نبی فائی کی امریکہ میں گرفتاری اور مشروط رہائی نے پاک کشمیر پالیسی کا
دھڑن تختہ کردیا۔پاکستان کے متعلق شکوک و شبہات کا یہ عالم ہے کہ برطانیہ
اور امریکہ میں تفتیش کی جارہی ہے کہ2005 میں یورپی یونین برطانیہ اور
امریکن سنٹرز برائے کشمیر کے تینوں سربراہوں نے شوکت عزیز کے ساتھ بیک وقت
ملاقات کا کیا مقصد تھا۔یہ سچ ہے کہ قضیہ کشمیر ہمارے لئے بہت نازک ہے تاہم
ماضی میں کی جانیوالی غلطیوں کو دوبارہ دہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔ارباب
اختیار کا فرض ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اپنے روائتی موقف کو دوبارہ حرز جان
مان لئے کہ کشمیری سانحے کو یو این او کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا
جائے ۔پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی لیپاپوتی کرنے اور اربوں کے فنڈز ڈکارنے کی
بجائے امریکہ یورپ سمیت روئے ارض کے ہر کونے میں کشمیریوں کا مقدمہ
لڑے۔پاکستان امت مسلمہ کو اعتماد میں لیکر یو این او کی قراردادوں کو قابل
عمل بنانے کی جدوجہد کرے۔یواین او کی طفیلی عالمی عدالت انصاف اگر قذافی کے
ریڈ وارنٹ جاری کرسکتی ہے تو پھر یہی عالمی عدالت یواین او کی قرادادوں پر
عمل درامد کرنے کا حکم جاری کیوں نہیں کرسکتی؟ |