کبھی کبھی ذہن پر اداسی سوارہوجائے تو کمال کی
باتیں ذہن میں آنے لگتی ہیں ہمیں تو یہی احساس ہوتاہے غالباًیہی لگتاہے آج
تو ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنوں کی غلامی میں آ گئے ہیں۔ اپنے آپ
سے پوچھیں کیاآپ آزاد شہری ہیں؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا کہنے کوتو
ہم ایک آزاد مملکت کے شہری ہیں لیکن ہم کسی طوربھی آزادنہیں ہیں کئی
دہائیوں سے ہم کروڑوں پاکستانی غلاموں کی غلامی کرتے چلے جارہے ہیں اس سے
چھٹکارا ممکن نہیں لگتا لیکن پوری قوم عزم ِ صمیم کرلے تو دل کو یقین آجائے
گا کہ وہ وقت دور نہیں جب یوم ِ حساب قہربن کر پاکستان دشمنوں پر ٹوٹ پڑے
گا تو یقینا ان لوگوں کو تمام چیزوں کا حساب دینا ہوگا ہماری محرومیوں کا
حساب اس وقت تک ممکن نہیں جب ہم دوٹوک فیصلہ نہ کرلیں کہ اب ہم پاکستانی
،عام آدمی ذلت کی زندگی ہم نہیں جی سکتے۔ اشرافیہ کی ظلم، زیادتیوں کے خلاف
کھڑے ہونے کا قوم نے فیصلہ کرلیا تو تبدیلی چند مہینوں اور ہفتوں میں آجائے
گی یہ حقیقی تبدیلی ثابت ہوگی کیونکہ کروڑوں پاکستانی جرأت سے حالات کا
مقابلہ کر رہے ہیں اس تبدیلی کے لئے اداروں کو بھی بے مثال جرات وبہادری
اور استقلال کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے عوام نے تو آج تلک مشکلات کے سامنے
سرنہیں جھکایا پاکستان کے ساتھ وفاداری و نظریاتی وابستگی کی شاندار مثالیں
قائم کیں، مشکلات کو برداشت کیا لیکن راہبران ِ قوم کو بھی اب قربانیاں
دیناہوں گے اسی طر ہمیں مصیبتوں سے نجات مل جائے گی۔ کچھ واقفان ِ حال کا
اس تناظرپر یہ تبصرہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور اشرافیہ نے ہمیشہ اعلانیہ
اور غیر اعلانیہ این آر او مانگاہے غیر ملکی قرضے کہاں جاتے ہیں پوری قوم
کو نہیں معلوم ۔۔یہ قرضے لینا چندلوگوں کاصوابدیدی اختیارہے لیکن قوم کے
بچے بچے غیرملکی مالیاتی اداروں کے مقروض ہوگئے مزے کی بات یہ ہے کہ جس
سیاستدان کے بیوروکریسی کے ساتھ معاملات سیٹ ہوجاتے ہیں ا س کا بیانیہ
ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتاہے ایک دو نہیں جس سیاستدان کا بھی بغور جائزہ لیکن
وہی اندرسے لال نکلے گا اگرمحسوس کیا جائے تو میاں نوازشریف کی آواز کے
ساتھ آواز ملاکرنعرے لگانے والوں کی حالت دیدنی ہوجائے گی یا عمران خان کے
حواری نظریں چرانے نہ لگ جائیں تو پھر کہنا یہی حالات مذہبی جماعتوں اور
ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی ہے جس نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے
زیادہ قربانیاں دی ہیں یہ الگ بات کہ فائدہ آصف زرداری نہیں دھوم دھام سے
اٹھایاہے ۔ہماری پون صدی کی سیاسی تاریخ اس پبات پر محیط ہے کہ جس سیاستدان
پا پارٹی کو ڈیل یا ڈھیل نہ ملنے کا یقین ہوجائے تو اس کے بعد طوطا چشمی کی
انتہایہ ہے کہ ان سیاستدانوں کا لب ولہجہ ہی بدل جاتاہے یہ ساری باتوں،
دعوؤں اوروعدوں کی طرف حکمران اس وقت مطلق توجہ نہیں دیتے جب وہ اقتدار کے
مزے لے رہے ہوتے ہیں اس وقت تو ہرطرف ایسے ہرا ہرا نظر آتاہے جیسے ان کی
آنکھوں میں سرسوں پھولی ہو اور مزے کی بات یہ ہے کہ جونہی وہ جوبھی
اقتدارسے محروم ہوجاتے ہیں اسے ووٹ کی عزت بھی یاد آجاتی ہے۔ انہیں یہ بھی
خیال ستانے لگتاہے کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں،لوڈشیڈنگ نے ملکی
معیشت کی مت مارکردکھ دی ہے،ٹیکسزنے لوگوں کا براحال کررکھاہے، ڈکٹیٹروں سے
نجات دلائے بغیرملکی ترقی ممکن ہی نہیں لیکن یہ مسائل اسی وقت حل ہوسکتے
ہیں جب وہ اقتدار میں ہوں پھر انہیں اپنے بیانئے کا شدت سے احساس ہوتاہے کہ
یہی ایک تیزبہدف نسخہ ہے جو ملک میں راتوں رات دودھ اور شہر کی نہریں قائم
کرسکتاہے سیاستدان اتنی بے شرمی ،ڈھٹائی اور چالاکی سے جھوٹ پر جھوٹ بولتے
ہیں کہ سادہ لوح ان پر یقین کرکے پھر انہی کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں تاریخ
سب کے سامنے ہے اب تویہ بات بانگ ِ دہل کہی جارہی ہے کہ پاکستان میں ہر
سیاستدان فوج کی آشیربادسے حکمران بنا ہے یہ وہ سچ ہے جسے کوئی جھٹلانابھی
چاہے تو نہیں جھٹلاسکتا پھراپنے آپ کو حاجی لق لق ظاہرکرنا کس بات پر دلالت
کرتاہے جس کے اپ سیٹ معاملات سیٹ ہوجائیں اس کا بیانیہ ہی نہیں چال ڈھال ہی
بدل جاتی ہے پھر وہ جنہیں گالیاں نکالتاہے اسی کی پاک دامنی کے قصے
سنارہاہوتاہے قوم کے ساتھ یہ ڈرامہ اور سنگین مذاق بندہونا چاہیے خفیہ
ملاقاتیں کرنے والوں کے منہ سے جمہوریت ،جمہوریت کی گردان اچھی لگتی قول و
فعل کا تضاد ختم کئے بغیر جمہوری رویہ اور جمہوری نظام کبھی نہیں پنپ
سکتااور سچی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت کے ساتھ یہ سنگین مذاق اس وقت تک
بندنہیں ہوجاتا جب تلک ان جماعتوں کا اپنا سیٹ اپ جمہوری نہیں ہوتا کیونکہ
جمہوریت موروثی سیات کا نام نہیں ہے۔
|