پاکستان میں عدلیہ کا وقار داؤ پر ۰۰۰ وفاقی حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف

انصاف کا تقاضہ ہے کہ منصف (جج یاقاضی) کو پوری ایمانداری، دیانتداری اور خوداعتمادی کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوتاہے۔ ہر مذہب میں جج کو اہمیت حاصل ہے لیکن اسلام نے جو مقام و مرتبہ جج یا قاضی کو دیا ہے شاہد دنیا کے کوئی مذہب میں نہیں ہوگا۔ خلفائے راشدین کے دورِحکومت میں خلیفۂ وقت بھی قاضی کے سامنے ملزم یا مجرم کی حیثیت سے پیش ہوئے تو انکے ساتھ اُس وقت کے قاضی نے عام ملزم یا مجرم کی حیثیت سے ہی برتاؤ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام عدل خصوصاً خلفائے راشدین کا دور ساری دنیا میں اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عدلیہ اور ججز کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا جارہا ہے وہ عالمی سطح پر انتہائی شرمسار کردینے والا ہے۔ حکمراں سیاسی جماعتوں کے قائدین نے جس طرح پاکستان میں ملک کی سب سے بڑی عدالت (سپریم کورٹ) اور اسکے چیف جسٹس اور دیگر قابل ترین ججزکے ساتھ جس طرح کے الفاظ استعمال کررہے ہیں وہ پاکستانی عوام کیلئے شاید کوئی حیثیت نہیں رکھتے یا پھرعوام کی آراء بھی ایسی ہی ہونگی یا پھر وہ بے حس ہوگئے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے آخر کار سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم کے خاتمے کیلئے متحرک ہوگئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پاکستان کے مطابق چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے ججز سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور آئندہ ہفتے کے بینچزاتفاق رائے کے فروغ کیلئے تشکیل دیئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اختلافی نوٹ دینے والے ججز کو اپنے بنچ میں شامل کیا، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اﷲ چیف جسٹس کے بنچ کا حصہ ہونگے۔

وفاقی حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے کیلئے عدالتی اصلاحات بل (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل)قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کرواکر صدر مملکت عارف علوی کو بھجوایا تھا تاہم صدر نے عدالتی اصلاحات بل 2023آئین کے آرٹیکل 75کے تحت نظر ثانی کیلئے پارلیمنٹ کو واپس بھیجوادیا تھا ۔ صدر مملکت نے موقف اپنایا تھا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے، بل قانونی طور پر مصنوعی، ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے ، بل کی درستگی کیلئے جانچ پڑتال پوری کرنے، دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرنا مناسب ہے۔وفاقی حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل منظور کرواکر دوبارہ صدر مملکت کو بھجوادیا ہے۔ اب اگر صدر عارف علوی اس بل پر 10دن میں اندر دستخط نہ بھی کئے تو یہ قانون بن جائے گا۔

سپریم کورٹ کے 8رکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے سے متعلق قانون(سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل2023) پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ آٹھ رکنی بینچ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’بل پر صدر دستخط کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا‘‘۔جمعرات کو سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی سماعت کے بعد آٹھ صفحات پر مبنی عبوری حکم نامہ جاری کیا ہے۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستانی عمر عطا بندیال نے چہارشنبہ کو سپریم کورٹ کے اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے پر سپریم کورٹ کا آٹھ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔اب دیکھنا ہے کہ حکومت آگے کیا کارروائی کرتی ہے۔

پنجاب اور خیبرپختوانخوا (کے پی) میں اسمبلی انتخابات کے مسئلہ پر حالات اتنے بگڑچکے ہیں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے پنجاب میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک قرار داد کے ذریعہ مستردکردیا ہے۔ قومی اسمبلی میں جمعرات کو منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’یہ ایوان سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کو پابند کرتا ہے کہ اس خلافِ آئین و قانون فیصلے پر عمل نہ کیا جائے‘۔ واضح رہے کہ گذشتہ ہفتہ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کے انتخابات کو ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے صوبہ پنجاب میں 14؍ مئی کو انتخابات کروانے کا حکم دیا ہے۔ اس طرح اتحادی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے سے نالاں ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان اسے آئین کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہیکہ ملک کے دو اہم ستون پارلیمنٹ اور عدلیہ میں تصادم کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے جو ملک کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے اندر بھی ججز کے درمیان کھل کر سامنے آئے ہیں ۔ چیف جسٹس کے بعد سب سے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو آئندہ چیف جسٹس آف پاکستان ہونگے وہ بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے مخالف نظر آرہے ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور الیکشن کے معاملے پر فل کورٹ بنائے، فل کورٹ کا فیصلہ ہمیں قبول ہوگا‘۔

شہباز شریف حکومت قائم ہوکر ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ 9؍ اپریل 2022کو عمران خان وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے مستعفی ہوگئے۔ انکے خلاف جس قسم کی بھی سازشیں اندرونی یا بیرونی کی گئیں وہ اپنی جگہ۰۰۰ لیکن عمران خان کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور موجودہ متحدہ شہباز شریف حکومت مہنگائی کے بے تحاشہ اضافہ کی بدولت بدنام ہوتی جارہی ہے۔ عمران خان کی اقتدار سے رخصت ہونے والی رات بھی تاریخ کا ایک حصہ رہے گی۔ شہباز شریف کی متحدہ جماعتوں والی حکومت اپنے مقصد کے حصول کیلئے ان دنوں آئین میں ترامیم خصوصی دلچسپی لے رہی ہے ۔ وفاقی حکومت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلی انتخابات کرانے سے گریز کررہی ہے کیونکہ سمجھا جارہا ہے کہ ان دونوں صوبائی انتخابات میں عمران خان کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوگی اور یہی ڈر شہباز شریف، آصف زرداری ، مولانافضل الرحمن و دیگر قائدین کو ہے۔ پاکستان میں پنجاب صوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہیں سے ملک کے حالات پر اثر پڑسکتا ہے اسی لئے نواز شریف ، شہباز شریف اور دیگر جماعتوں کے قائدین کسی نہ کسی طرح کابہانہ بناکر انتخابات کو ملتوی کرنا چاہ رہے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان یہاں پر فوراً انتخابات کی مانگ کررہے ہیں۔ چونکہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد90دن میں انتخابات کروایا جانا ہے لیکن الیکشن کمیشن او روفاقی حکومت انتخابات کے حق میں نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 14؍ مئی کو پنجاب صوبائی انتخابات کروانے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ حکومت چیف جسٹس کے اختیار ات کو سلب کرنا چاہ رہی ہے اسی لئے ازخود نوٹس کے معاملہ میں چیف جسٹس کو جو اختیارات حاصل ہے اسے ختم کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا گیا جسے صدر مملکت نے واپس بھیج دیا تھا جسے دوبارہ پارلیمنٹ نے صدر کی دستخط کیلئے بھیجا ہے ۔

پنجاب اور کے پی کے انتخابات میں جتنا ممکن ہوسکے تاخیر کرنے کا حکومت اور الیکشن کمیشن نے ٹھان رکھا ہے ۔ اسی لئے اب الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ اور اس میں تبدیلی کے اختیارات سے متعلق قانون سازی کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک خط لکھا ہے جس میں آئین کی سیکشن 57(1)اور 58میں ترمیم کے ذریعہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور انتخابی پروگرام میں تبدیلی کے لئے اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کیلئے مناسب ماحول کی موجودگی یا عدم موجودگی کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے اور یہ اختیار کسی بھی دوسری اتھارٹی کے ماتحت نہیں ہے، تاہم یکم؍ مارچ2023اور 5؍ اپریل 2023کے عدالتی فیصلوں نے الیکشن کمیشن کو اس آئینی اختیار سے محروم کردیا ہے۔ خط میں الیکشن کمیشن نے لکھا کہ صدر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ دیئے جانے کے اختیار کو کوئی آئینی تحفظ نہیں ہے۔ یہ آئین کی روح کے خلاف ہے اور اس نے الیکشن کمیشن کے آرٹیکل 218(3)اور 219کے تحت دیئے گئے اختیارات کو اس سے چھین لیا ہے۔ چیف الیکشن کمیشن کمشنر نے اسپیکر کو لکھا کہ ان وجوہات او رحقائق کی بنا پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہیکہ شق57(1)اور 58میں ترامیم پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پیش کی جائیں۔ اس طرح الیکشن کمیشن بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ سے اپنے اختیارات کیلئے ترامیم کا کہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال جو ستمبر میں سبکدوش ہونے والے ہیں اور انکی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان ہونگے ۔موجودہ حالات میں حکومت صدر مملکت عارف اور چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کے خلاف ہے ۔ چیف جسٹس اور دیگر ججز کے درمیان نا اتفافی اور عدم اعتمادی عدلیہ کیلئے ہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام کیلئے بھی نقصاندہ ہوگی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے ججز اور انکے درمیان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز کے تاثرات کیا ہونگے۔ پاکستان ان دنوں ہر طرح سے پستی کی طرف دکھائی دے رہا ہے ۔ معاشی اعتبار سے گذشتہ سال عمران خان کی حکومت سے تقابل کیا جائے تومہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے۔
وفاقی حکومت کی ایک اور کوشش ناکام ہوگئی ہے۔سپریم کورٹ نے گورنر اسٹیٹ بینک کو الیکشن کمیشن کو براہ راست فنڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق پنجاب میں عام انتخابات کے فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق کیس کی ان چیمبر سماعت ہوئی۔بتایا جاتا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان چیمبر کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل ، سیکریٹری الیکشن کمیشن ، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک حکام چیمبر میں پیش ہوئے، اٹارنی جنرل سمیت دیگر حکام نے فنڈز کی عدم فراہمی کے بارے میں مؤقف تین رکنی بنچ کے سانے رکھا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے 4؍ اپریل کے حکم پر عمل در آمد کیا ہے، حکومت نے پارلیمنٹ میں انتخابات کیلئے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقم جاری کرنے کا بل پیش کیا جسے مسترد کردیا گیا۔ پارلیمنٹ سے بل مسترد ہونے پر حکومت اسٹیٹ بینک کو فنڈز کے اجراء کیلئے نہیں کہہ سکتی۔ عدالت عظمی نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کو الیکشن کمیشن کو براہ راست فنڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا۔اس طرح وفاقی حکومت کی پنجاب انتخابات کو ٹالنے کی ایک اور کوشش ناکام ہوگئی ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ اسٹیٹ بینک فنڈز جاری کرتا ہے یا پھر کوئی بہانہ بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگر بینک کی جانب سے بہانہ بنایا گیا تو پھر عدالت عظمیٰ کیا کارروائی کرتی ہے ۰۰۰

بغیر حجاب خواتین کے خلاف سخت سزائیں۰۰۰عوامی مقامات پر کیمرے نصب
اریان میں پولیس نے عوامی مقامات پر کیمرے نصب کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ لازمی ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی شناخت کر کے انہیں سزا دی جائے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس کی جانب سیہفتہ کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی شناخت کے بعد ان کے موبائل نمبر پر انتباہی پیغام بھیجا جائے گا۔بیان کے مطابق اس اقدام کا مقصد حجاب کے قانون کے خلاف جاری مزاحمت کو روکنا ہے، اس قسم کی مزاحمت سے ملک کا روحانی تاثر داغدار ہونے کے علاوہ عدم تحفظ پھیلتا ہے۔گزشتہ سال ستمبر میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد ایران میں مزاحمتی تحریک نے جنم لیا جس میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں نے بھی ملک بھر میں حکومت کے جارحانہ اقدامات کے خلاف مظاہرے کیے۔اس دوران اکثر خواتین نے حجاب کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزاحمتاً حجاب جلائے اور پہننے سے انکار کیا۔گرفتاری کے خدشے کے باوجود ابھی بھی اکثر خواتین مالز، ریستوران، دکانوں اور سڑکوں پر حجاب کے بغیر نظر آتی ہیں۔پولیس نے بیان میں کاروبار چلانے والوں سے بھی ارد گرد کے ماحول پر کڑی نظر رکھنے کا کہا ہے تاکہ سماجی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے۔اس سے ایک ہفتہ قبل وزارت داخلہ نے جاری بیان میں کہا تھا کہ حجاب ایرانی تہذیب کی بنیادوں میں سے ایک ہے اور جمہوریہ اسلامی کا ایک عملی اصول ہے۔وزارت داخلہ نے عوام پر زور دیا کہ وہ بغیر حجاب والی خواتین کی مخالفت کرتے ہوئے ان کا سامنا کریں۔اس سے پہلے بھی حکومتی سطح پر اس قسم کے احکات جاری کیے گئے ہیں جن سے سخت گیر خیالات رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے بغیر کسی قانونی کارروائی کے خوف کے خواتین پر حملے کیے۔وزارت داخلہ کے بیان کے اگلے روز ایرانی چیف جسٹس نے عوامی مقامات پر حجاب نہ کرنے والی خواتین کے خلاف ’بے رحمانہ‘ قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی۔چیف جسٹس غلام حسین محسنی نے کہا تھا کہ ’حجاب نہ کرنا ہماری اقدار سے دشمنی کے مترادف ہے۔ اس قسم کے غیرمعمولی اقدامات کرنے والوں کو سزا دی جائے گی اور ان کے خلاف بغیر رحم قانونی کارروائی کریں گے۔‘

حرمین شریفین میں مختلف زبانوں میں خواتین کی رہنمائی
حرمین شریفین میں دنیا بھر سے آنے والے زائرین کی سہولت کیلئے شاہی حکومت ہرممکنہ کوششیں کرتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ زائرین کی رہنمائی کیلئے مختلف زبانوں میں راستوں کی نشاندہی، حج و عمرہ کیلئے معلوماتی لٹریچر ، قرآن مجید کے تراجم،حرمین شریفین میں واعظ و نصیحت اور معلومات کیلئے رہبری وغیرہ شامل ہے۔حرمین شریفین میں خواتین کیلئے بھی خصوصی طور پر سہولتیں فراہم کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب میں ادارہ امورحرمین کی جانب سے 14 زبانوں کی ماہرمترجم خواتین کی خدمات زائرخواتین کیلئے فراہم کی گئی ہیں۔ اردوسمیت متعدد زبانیں بولنے والی اہلکار حرمین میں تعینات ہیں۔عاجل نیوز کے مطابق مترجم خواتین کی ڈیوٹی چوبیس گھنٹے مختلف شفٹوں میں لگائی جاتی ہے تاکہ زائرین کوکسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ادارے امورحرمین کی جانب سے اردو، انگلش، ازبکی، فارسی، ترکی، فرانسی، بنگالی، تاملی، بمبارا، پشتو، ہندی، آئیوری کوسٹ کی زبان، گلا اورسیلون میں ترجمہ کی ماہرخواتین کی خدمات فراہم کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں مسجد الحرام اورمسجد نبوی الشریف میں خواتین کے لیے مخصوص مقامات پر خطبے کا ترجمہ سننے کیلئے زائرین کو ہیڈ فون کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ خطبے کا ترجمہ سننے کے لئے ’آپ کی زبان میں ‘ کے عنوان سے انیشیٹو ہے جس سے استفادہ کرتے ہوئے مسنون دعاؤں کا ترجمہ بھی اپنی زبان میں سیکھا جاسکتا ہے۔ مسجد الحرام میں خطبات اور وعظ کی مجلسوں، مقدس و تاریخی مقامات اور اداروں کے ساتھ رابطے کیلئے اب 50 زبانوں میں ترجمے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم کویت کی جانب سے نئی کابینہ کی تشکیل
امیر کویت شیخ نواف الاحمد الصباح نے وزیراعظم شیخ احمد نواف الاحمد الصباح کی قیادت میں نئی کابینہ کی تشکیل کا فرمان جاری کردیا۔اس سے قبل کویت کے نائب امیر مشعل الاحمد الجابر الصباح نے شیخ احمد نواف الاحمد الصباح کو کو دوبارہ وزیر اعظم مقررکیا تھا جنہوں نے نئی کابینہ تشکیل دی ہے۔کویت کی سرکاری خبررساں ایجنسی کونا کے مطابق طلال خالد الاحمد الصباح کو وزیراعظم کا نائب اول، وزیر داخلہ اور قائم مقام وزیر دفاع بنایا گیا ہے۔ خالد الفاضل کو نائب وزیراعظم اور وزیر مملکت برائے امور منسٹرز کونسل ہونگے۔بدر المال کو نائب وزیراعظم و وزیر پٹرولیم وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور، فہد الشعلہ کو وزیر مملکت برائے بلدیاتی امور و وزیر مملکت برائے امور مواصلات، عبدالرحمن المطیری کو وزیر اطلاعات و وزیر مملکت برائے امور نوجواناں اور احمد العوضی کو وزیر صحت مقررکیا گیا ہے۔ امانی بوقماز وزیر تعمیرات عامہ، حمد العددوانی وزیر تربیت و وزیر اعلی تعلیم، سالم الصباح وزیر خارجہ، می البغلی وزیر سماجی امور و خواتین و اطفال، عامر محمد وزیر انصاف و وزیر اوقاف و اسلامی امور، مطلق العتیبی وزیر بجلی و پانی، محمد العیبان وزیر تجارت و صنعت اور مناف عبدالعزیز الھاجری وزیر خزانہ وزیر مملکت برائے اقتصادی و سرمایہ کاری امور ہونگے۔واضح رہے کہ شیخ احمد نواف الصباح کی قیادت میں سابقہ حکومت نے تشکیل کے سو دن بعد کویتی ولیعہد شیخ مشعل الاحمد کو استعفی پیش کردیا تھا۔بتایا جاتا ہیکہ یہ کویت کی تاریخ میں بننے والی چالیسویں حکومت ہے استعفی مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان بحرانی صورتحال پیدا ہوجانے کے باعث دیا گیا تھا۔
ساڑھے پانچ کروڑ ہدیہ یا دکھاوے کیلئے گاڑی نمبر پلیٹ کا حصول
دبئی میں رمضان المبارک کے موقع پر ضرورت مندوں میں فوڈ پیکٹس تقسیم کئے جاتے ہیں اس کیلئے مختلف طریقوں سے تعاون حاصل کیا جاتا ہے ۔اسی طرح دبئی میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹ اور فون نمبرس کی نیلامی بھی عمل میں آتی ہے اور اس کے ذریعہ بھی حاصل ہونے والی بڑی رقم اسی مد میں لی جاتی ہے۔ گذشتہ دنوں ایک رجسٹریشن پلیٹ جس پر نمبر 7 درج تھا نیلامی میں ساڑھے پانچ کروڑ درھم (ڈیڑھ کروڑ ڈالر) میں فروخت ہوئی ہے۔عرب نیوز کے مطابق نایاب گاڑیوں کی نمبر پلیٹس اور فون نمبر دبئی میں ایک چیریٹی نیلامی میں فروخت کیے گئے ہیں جس کا مقصد رمضان میں ضرورت مندوں کیلئے ایک ارب فوڈ پیکٹ کی تقسیم ہے۔متحدہ عرب امارات کے ایک تاجر سعید خوری کے قائم کردہ سابقہ ریکارڈ کو توڑتے ہوئے رجسٹریشن پلیٹ 7 متحدہ عرب امارات میں سب سے مہنگی بن گئی ہے۔قبل ازیں 2008 میں ابوظہبی میں ہونے والی ایک چیریٹی نیلامی میں گاڑی کی رجسٹریشن نمبر پلیٹ جس پر نمبر 1 درج تھا ایک کروڑ 42 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئی تھی۔امارات کی نیوز ایجنسی نے ہفتے کے روز رپورٹ کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ایک وقف فنڈ میں چیریٹی کے طور پر ضروت مندوں کیلئے ایک ارب درھم (تقریباً 27 کروڑ ڈالر) اکٹھے کرنے کا ہدف ہے۔رمضان مہم کے طور پر عطیہ جمع کرنے کی مہم میں87 ہزار سے زائد حصہ داروں نے نصف رمضان تک تقریبا 14کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات محمد بن راشد المکتوم گلوبل انیشیٹوز فاؤنڈیسن نے رمضان المبارک میں مساکین کیلئے ایک مستحکم عطیہ مہم کے طور پر وقف فنڈ قائم کیا تھا۔محمد بن راشد المکتوم گلوبل انیشیٹوز فاؤنڈیسن کے سیکرٹری جنرل محمد بن عبداﷲ القرقاوی نے بتایا ہے کہ عطیہ دہندگان کی جانب سے 51 کروڑ 40 لاکھ درھم کی بڑی امداد متحدہ عرب امارات کی کمیونٹی میں یکجہتی کی اقدار کے عزم کا ثبوت ہے جو ہماری ثقافت کا لازم جزو ہے۔محمد القرقاوی نے مزید بتایا ہے کہ یہ کثیر رقم کاروباری اداروں، سرکاری و نجی شعبوں کے علاوہ انفرادی طور پر کمیونٹی کے مختلف طبقات کی جانب سے عطیہ کی گئی ہے جو متحدہ عرب امارات میں فراخدلی کے کلچر کی گواہی دیتی ہے۔گزشتہ تین برس سے جاری یہ مہم کورونا کے دنوں میں رمضان 2020 کے دوران دس کروڑ فوڈ پیکٹ کے ساتھ عالمی وبا کے متاثرین کی حمایت میں اپنی نوعیت کا پہلا اور سب سے بڑا یکجہتی کا مظاہرہ تھا۔رمضان 2021 میں دس کروڑ خوراک پیکٹ کی مہم چلائی گئی جو کہ عرب علاقوں، افریقہ اور ایشیا کے 20 ممالک میں دی جانے والی خوراک کی سب سے بڑی امدادی مہم تھی۔متحدہ عرب امارات میں جاری اس مہم میں اداروں اور افراد کی جانب سے وقف فنڈ میں دیئے جانے والے عطیات کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ ساڑھے پانچ کروڑ درہم میں لینے کا مقصد ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہے یا دکھاوا ۰۰۰ ویسے بہت سارے عرب حضرات ہیں جو اﷲ کی راہ میں اسکے مستحق غرباء و مساکین او رلاچار ، مظلوم بندوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور بے دریغ مال اﷲ کی راہ میں دیتے ہیں۔

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.