ٹریفک کی گہما گہمی تھی سورج سر کے عین اوپر گرمی کی شدت
بڑھا رہا تھا ۔۔۔وہ پسینے میں شرابور کدال کندھے سے لگاۓ لال سرخ آنکھوں سے
آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔وہ دیہاڑی کا مزدور تھا جس دن مزدوری
مل جاتی گھر کا چولھا جلتا ۔۔۔۔پیٹ کا ایندھن کچھ سکون پاتا۔۔۔اس مہنگائی
کے دور میں سات افراد پر مشتمل کنبہ پالنا واقعی جوۓ شیر لانے کے مترداف
تھا ۔۔۔اس کی بیوی سکینہ دو چار گھروں میں کام کرتی تھی سو زندگی کی گاڑی
رینگ رہی تھی ۔۔۔کیونکہ صرف پیٹ پوجا تو لوازمات زندگی نہ تھے بجلی،گیس کے
بل ،مکان کا کرایہ ،تن ڈھانپنے کو کپڑے ارزاں ترین ہی سہی مگر غریب کے لیے
وہ بھی بہت بڑا خرچہ تھا۔۔۔اس کے علاؤہ بوڑھا بیمار باپ جس کی زندگی کی
سانسیں دوا سے جڑی تھیں،بچے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے مگر پھر بھی کچھ
نہ کچھ تو انھیں بھی ضرورت ہوتی۔۔۔۔وہ سوچوں کا انبار لیے سڑک کنارے سر
جھکائے بیٹھاتھا۔۔۔آج صبح سے کوئ مزدوری نہ ملی تھی کیا ہو گا کھانے کو کچھ
تھا نہیں اور ابا کی دوائ بھی ختم تھی ساری رات کھانستا رہا ۔۔۔منے کی چپل
ٹوٹ گئ تھی اور کھیل کے دوران کیل پاؤں میں چبھ گئ تھی ۔۔۔اس نے ایک نظر
آسمان کی طرف اٹھائ ۔۔ دو آنسو اس کے پچکے گالوں پہ لڑھک گۓ جنھیں اس نے بے
دردی سے رگڑ ڈالا۔۔۔آج اسے کوئی مزدوری نہ ملی ۔۔۔۔
سکینہ کام پہ گئ تو اسے چھٹی دے دی گئ وہ تو سوچ کر گئ تھی آج بیگم صاحبہ
سے تھوڑے پیسے ادھار لے کر چاچے کی دوا اور منے کی پلاسٹک کی سو روپے والی
چپل لے لے گی۔۔اور کچھ بچا کھچا کھانا پیٹ پوجا کو مل جاۓ گا۔۔۔مگر بیگم
صاحبہ نے دروازے سے ہی کہہ دیا ارے پاگل آج تو تمہارا دن ہے مزے کرو چھٹی
مناؤ۔۔۔اس نے بے بسی سے ایک نظر آسمان کی طرف اٹھائ ۔۔۔دو آنسو اس کی سلگتی
آنکھوں سے لڑھک کر اس کے زرد گالوں پر پھیل گۓ جنھیں اس نے بے دردی سے رگڑ
ڈالا۔۔۔اس کے کانوں میں بیگم صاحبہ کی کھنکتی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔آج
تمہارا دن ہے مزے کرو۔۔۔وہ تھکے قدموں سے واپسی کے سفر پر گامزن ہوئ ۔۔۔آج
تمھارا دن ہے مزے کرو۔۔۔آج تمھارا دن ہے مزے کرو۔۔؟؟ایک ہی بازگشت اس کے
کانوں میں گونج رہی تھی۔۔۔۔
سڑک کنارے نزیرا اب تھک کر لیٹ گیا تھا کدال اس کے اوپر دھری تھی۔۔۔جونہی
کوئ گاڑی اس طرف آتی وہ تیزی سے لپکتا کہ شاید کوئی مزدوری مل جاۓ۔۔سامنے
سے آتی سفید مزدہ سے اسے کچھ امید بندھی۔۔۔صاحب کام دو گے؟؟اس نے امید بھری
نظروں سے پوچھا۔۔۔ارے آج تمھارے کام کا نہیں آرام کا دن ہے بھائ۔۔۔جانتے
نہیں آج لیبر ڈے ہے۔۔۔مزدوروں کا عالمی دن۔۔۔اور گاڑی فراٹے بھرتی آگے بڑھ
گئ ۔۔۔اور وہ حیران سا کھڑا رہ گیا۔۔۔مزدوروں کا عالمی دن۔۔۔مزدوروں کا
عالمی دن۔۔۔ایک ہی بازگشت اس کے کانوں میں گونجنے لگی ایک پھیکی سی مسکراہٹ
اس کے ہونٹوں پہ آ کر رک گئ۔۔۔مزوروں کے عالمی دن پر بھی مزدور فاقوں سے ہی
رہ گیا؟؟ ۔۔۔یہ سوال ہے ہمارے لیے اور عالمی دن منانے والوں کے لیے بھی۔۔۔
۔
حریم شفیق۔
اسلام آباد ۔
|