نام کے مسلمان ہے

کیا ہم مسلمان ہیں ؟
میں نے اس سے پوچھا ،،علی ! تم نے کیا دعا مانگی ہے،،اس کے جواب نے جھٹکا لگا دیا گویا دوسو بیس وولٹ کا کرنٹ میرے جسم سے گذرا ہو

میں اور علی !نےاس سال ملکر حج کا پروگرام بنایا تھا،اور آج ہم نے طواف کے بعد دو رکعات نوافل ادا کیئے دعا مانگی اور واپس ہوٹل آرہے تھے۔ویسے ہی میں نے سوال پوچھ لیا تھا کہ رابعہ! تم نے کیا دعا مانگی،

اس کے جواب تھا،،یا اللہ مجھے حقیقی مسلمان بنا دے وہ مسلمان جس میں یورپ کے غیر مسلموں والی انسانیت پیدا ہو جائے ۔

اس کے جواب کی تفصیل اس وڈیو میں تھی جو ہوٹل پہنچ کر اس نے مجھے دکھائی،اس نے یہ وڈیو یورپ کے ملک اٹلی میں شوٹ کی اور دوسرا حصہ پاکستان میں،

مختصر اور لب لباب یہ تھا کہ یورپ اور پاکستان میں اس نے ایک سٹنٹ کیا،

یورپ میں اس نے ایک دکان کے سامنے چھوٹا سا ٹیبل اور اس پر دودھ کے چند ڈبے رکھ کر دودھ فروخت کرنے لگا،دکاندار یہ دیکھ کر کہ اس کی دکان کے سامنے کوئ دودھ فروخت کر رہا ہے باہر آیا،اس سے پوچھا تم یہ کیوں کر رہے ہو جس کے جواب میں عابد نے اسے بتایا،،دو دن سے میرے گھر میں کچھ نہیں یہ ڈبے فروخت کرونگا،بچوں کے لیئے کھانے پینے کا انتظام ہو جائے گا۔کیونکہ جہاں میں نوکری کرتا تھا مالی مشکلات کی وجہ سے انہوں نے مجھے نکال دیا ہے،اور اب میرے پاس اس کے سوا کوئ چارہ نہیں،،
اس دوکاندار نے نہ صرف مجھے کھانے کی تمام چیزیں دیں بلکہ عارضی طور پر مجھے اپنے سٹور پر ملازم بھی رکھ لیا،

یہ سٹنٹ کم و بیش میں نے آٹھ مختلف علاقوں اور سٹوروں کے سامنے کیا اور ہرجگہ مجھے تقریبا" ایسا ہی ریسپانس ملا۔

اب یہاں گوجرانوالہ میں ایک دودھ دہی کی دکان کے سامنے چھوٹا سا ٹیبل اور اس پر بالٹی دودھ کی رکھ کر دودھ فروخت کرنے لگا، چند لمحوں بعد دکاندار کھولتا ہوا باہر نکلا،میری وضاحت سنے بغیر لات مار کے میز ،بالٹی دودھ کی، ڈونگا اور شاپر سب کچھ الٹ پلٹ کردیا،

یہی تجربہ لاہور میں شاہ جمال کے علاقے میں ایک بظاہر باریش اور صوم وصلاۃ کے پابند دکاندار کی دکان کے سامنے بھی کیا مگر منہ کی کھائی ان حضرت نے نہ صرف میرا سامان ادھر ادھر پھینکا، بلکہ مغلظات سے بھی نوازا،

یہ سٹنٹ لاہور ،گوجرانوالہ، جھنگ اور چند دوسرے شہروں میں کیا مگر بڑا تلخ تجربہ ہوا،کئ جگہوں پہ مار بھی پڑی۔اور جب انہیں مجبورآ بتانا پڑا کہ یہ سٹنٹ شوٹ کر رہے ہیں تو کمال ریا کاری کرتے ہوئے دوبارہ سے شفیق ہونے کا ڈرامہ کرنے لگے۔

اس تلخ تجربہ کے بعد میں تو اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ
ہم مسلمان اللہ کے ساتھ چیٹنگ کرتے ہیں، ماتھے پہ محراب،ہاتھ میں تسبیح، مسجد میں اگلی صف،افطار ی میں ڈھیروں کھانے کا سامان سامنے سجائے بخشش اور خوشحال زندگی کی دعائیں مانگی جا رہی ہیں مگر پڑوس میں کسی کا بچہ دوا اور ڈاکٹر کی فیس نہ ہونے پہ بغیر علاج کے کراہ رہا ہے،کسی کے گھر فاقہ ہے اور کوئی بے روزگار ہے۔اس کی ذرا پرواہ نہیں۔ اور چلے ہیں رب کو راضی کرنے۔

منظور بھائی یہ مسلمانیت تو دور کی بات انسانیت تک نہیں۔

یہ کہتے ہوئے علی کا چہرا آنسوؤں سے تر تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اس سارے منظر میں خود میں کہاں کھڑا ہوں__!!
 

 وشمہ خان وشمہ
About the Author: وشمہ خان وشمہ Read More Articles by وشمہ خان وشمہ: 317 Articles with 431710 views I am honest loyal.. View More