”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی“ کے الفاظ سوات
اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں پوری طرح صادق آتے ہیں ،مشرق کے سوئٹزر لینڈ
سوات کی خوبصورتی یوں تو پوری دنیا میں مشہور ہے لیکن یہاں کے رہنے والے
لوگوں میں کچھ ایسے باہمت نوجوان بھی ہیں جن میں موجود صلاحیتیں شائد دنیا
کے کسی اور علاقے کی لوگوں میں پائی جاتی ہوں ، زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو
اس میں سوات کے لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کا ایسا لوہا منوایا ہے جسے سن کر
لوگ حیران رہ جاتے ہیں ، جب پوری دنیا میں بلند ترین پہاڑی چوٹی ”K2“ سر
کرنے کی باتیں ہورہی تھیں جس میں محمد علی سدپارہ کے گم ہونے اور اس کے
بیٹے ساجد سدپارہ کی کوششیں یاد کی جارہی تھی ٹھیک اسی وقت سوات کے کچھ
نوجوان جن کی قیادت ٹیم لیڈر فرمان خان کررہے تھے ضلع سوات جہاں بلند ترین
پہاڑوں کے کئی سلسلے موجود ہیں انہیں سر کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے تھے
اور بالآخر سوات کی بلند اور مشکل ترین پہاڑی چوٹی مانکیال جس کی بلندی 18
ہزار 750 فٹ ہے کو سر کرکے سوات کے ان نوجوانوں نے ثابت کردیا کہ وہ بھی
پہاڑوں کو سر کرنے کے اس فن میں کسی سے کم نہیں ۔
مانکیا ل پہاڑ کی چوٹی سرکرنے والے نوجوانوں فرمان خان، محمد رحیم اور سید
علی شاہ میاں نے راقم سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مانکیال کی چوٹی
سوات کی بلند ترین پہاڑی چوٹیوں میں سے ہے جس کی اونچائی 18 ہزار سات سو
پچاس فٹ ہے ، اس چوٹی کو مقامی طورپر ”کوہ شوجن“ چوٹی کے نام سے یاد کیا
جاتا ہے اور اس چوٹی سے کئی افسانوی کہانیاں بھی موسوم ہیں ، سخت موسمی
حالات کی وجہ سے اسے سرکرنا کوئی آسان کام نہیں اور اسی وجہ سے اب تک کوئی
بھی اس چوٹی کو سر نہیں کرسکا ہے ، موسمی سختی کے علاوہ اس چوٹی کے ساتھ
کئی قدیم افسانوی کہانیاں منسوب ہیں کہ جنات اور پریاں اس پہاڑ پر رہتی ہیں
اور کسی کو بھی اس طرف آنے نہیں دیتی اور یہ کہ مانکیال پہاڑی چوٹی مافوق
الفطرت مخلوق کا مسکن ہے جو یہاں آنے والے انسانوں کو شدید نقصان پہنچاتے
ہیں اور جو بھی اس جانب گیا اسے کسی نہ کسی طرح کا نقصان ضرور پہنچا لیکن
یہ سب ڈراﺅنی کہانیاں ہماری ہمت کے آگے دیوار نہ بن سکیں۔
باہمت نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہم نے اس چوٹی کو سرکرنے کا عزم کررکھاتھا جس
کے لئے ہم طویل عرصہ سے منصوبہ بندی کررہے تھے، ہم تینوں دوستوں نے 20 اگست
2021 کو مانکیال چوٹی سرکرنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن موسم کی خرابی کے
باعث ہمیں اپنا مشن اس وقت ادھورا چھوڑنا پڑا اور مناسب وقت کا انتظار کرتے
رہے ، بالآخر یکم ستمبر کو ہمیں اس چوٹی کو سر کرنے کیلئے موسم کے تیور
مناسب لگے اور ہم نے صبح سویرے سوات کے سیاحتی علاقے مدین سے اپنے سفر کا
آغاز کیا آدھا دن سفر کرنے کے بعد ہم گاڑی میں” کمر خواہ“ کے علاقے تک
پہنچے، اس کے بعد ہمیں پیدل سفر کرنا تھا ، پیدل ٹریک شروع کرنے کے بعد ہم
شام تک چوکیل بانڈہ پہنچے جہاں ہم نے رات گزاری اور دوسرے دن آگے کے سفر کا
آغاز کرتے ہوئے ہم نے اپنی منزل کی جانب سفر کو جاری رکھا ، دوسری رات ہم
پہاڑ کے ایسے مقام پر پہنچے جہاں پر کوئی ہموار جگہ نہیں تھی جس کی وجہ سے
ہم نے پوری رات بیٹھ کر اور یا ٹہلتے ٹہلتے جاگ کر گزاری، اسی طرح مانکیال
چوٹی سر کرنے کا عزم لئے اگلے دن ہم اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے بالآخر چوکیل
بانڈہ کے راستے سے ہوتے ہوئے مانکیال پیک بیس کیمپ کے مقام پر پہنچے اور
وہاں ایک اور رات گزاری ، اگلی صبح سورج کی کرنیں نمودار ہونے کے ساتھ ہم
نے پر خطر راستوں ، اونچے نیچے پہاڑوں پر چڑھتے آگے کا سفر جاری رکھا اس
دوران ہمیں کبھی پانی کی چھوٹی بڑی ندیوں کو عبور کرنا پڑا تو کہیں پر بڑی
بڑی گلیشئر پر خطروں سے بھرے راستوں پر بھی چلنا پڑا ، ایک اور پرخطر دن کا
سفر طے کرنے کے بعد ہم رات کے وقت ایک اور مشکل جگہ پر پہنچے یہ بھی
مانکیال پیک کا حصہ کہلاتا ہے جہاں پر ایک مناسب مقام پر ہم نے برف کے
گلیشئر پر اپنا ٹینٹ لگایا سخت سرد موسم میں ٹھٹھرتے ہوئے کبھی سوتے کھبی
جاگتے ہم تینوں دوستوں نے رات گزاری ،اس رات کی سختی کو الفاظ میں بیان
کرنا آسان نہیں لیکن مانکیال چوٹی سر کرنے کا عزم ہمیں یہ سب کچھ برداشت
کرنے پر مجبور کررہا تھا، صبح ہونے پر ہم نے تھوڑا بہت ناشتہ کیا اور آگے
کی جانب عازم سفر ہوئے ۔ منفی پانچ سے لے کر منفی 20 ڈگری سنٹی گریڈ تک
موسمی سختی کے ساتھ ہم تینوں ساتھی ایک دوسرے کے ساتھ جینے مرنے کا عزم لئے
آگے بڑھتے رہے ، اگر چہ ہمارے ساتھ کھانے پینے کا سامان ضرورت کے مطابق
موجود تھا لیکن پھر بھی ہم کم سے کم کھانا کھا کر گزارہ کرتے ہوئے اس سوچ
کے ساتھ آگے بڑھتے رہے کہ اگر کسی مشکل میں پڑے اور ہمیں زیادہ دن اس
پراسرار پہاڑپر رُکنا پڑا تو کھانے کو کچھ نہ کچھ موجود ہو ،یوں ہمارا سفر
پانچویں دن تک جاری رہا اور چھٹی رات کے وقت ہم اس مقام پر پہنچے جہاں سے
ہمیں اپنی منزل صاف دکھائی دے رہی تھی لیکن رات کا اندھیرا ہونے اور بڑی
بڑی گھاٹیوں کی وجہ سے آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہ تھا جس کی وجہ سے ہم نے
ایک محفوظ مقام پر رات گزارنے اور صبح ہونے کا فیصلہ کیا ، ایک ہموار جگہ
پر ٹینٹ لگایا اور سخت سردی سے بچنے کیلئے ایک دوسرے سے لگ کر کبھی قصے
کہانیاں سناتے اور کبھی اپنے منزل پر پہنچنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے
ہم رات اور سردی کی سختی برداشت کرتے ہوئے یہ سوچ سوچ کر دل ہی دل میں خوش
ہوتے رہے کہ بہت جلد ہم سوات کی اس بلند ترین پہاڑی چوٹی کو سر کرنے کا تاج
اپنے سر پرسجا نے والے ہیں،اس وقت 11 گھنٹے کی پرخطر اور دشوار گزار پہاڑی
راستوں پر سفر کے باعث تھکان سے ہمارا برا حال تھا ، تھکا ن اُتارنے اور
موسم کی سختی برداشت کرنے کیلئے ہم نے سخت ورزش شرو ع کی کیونکہ آگے ہم نے
منفی 20 سنٹی گریڈ کے سخت ترین موسم میں اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے منزل
مقصود تک پہنچنا تھا جس کے بارے میں سوچ کر انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے
ہیں لیکن بھر پورعزم کے ساتھ بالآخر ہم یہ پرخطر سفر طے کرکے یہاں تک پہنچے
تھے اور اب بس تھوڑا ہی سفر باقی تھا ،ٹھنڈے موسم میں رات گزارنا کافی مشکل
تھا لیکن آگے بڑھنے کے عزم نے ہمارے حوصلے جواں رکھے ، رات کے اندھیرے میں
ہر سایہ کسی خوفناک بلا سے کم نہ تھا رہ رہ کے لوگوں کی اس پہاڑ کے حوالے
سے پراسرار کہانیاں بھی یاد آتی رہیں، ہوا کی سرسراہٹ بھی ہوتی تو یوں گماں
ہوتا جیسے ابھی کسی اوٹ سے جن بھوت نکل کر ہمارے سامنے آکر ہمارا احوال
پوچیں گے ، تینوں ساتھی ان کہانیوں کے بارے میں بھی سوچتے سوچتے کچھ دیر
کیلئے ڈر جاتے لیکن پھر آگے بڑھنے ، چوٹی سرکرنے کا عزم ان تمام باتوں پر
حاوی ہوجاتا، یوں کبھی جاگتے کبھی سوتے اور کبھی اپنے سفر کی مشکلات کے
بارے میں سوچتے ہوئے صبح کی شفق نمودار ہوئی ،سورج نے بھی آنکھ دکھائی لیکن
برف پوش پہاڑ پر اس کی کرنیں بس صر ف روشی کی ضرورت پوری کرتے رہے اور
باﺅجود یہ کہ میدانی علاقوں میں آج کل گرمی کا موسم ہے لیکن مانکیال پہاڑ
پر منفی20 درجہ حرارت کی وجہ سے سورج اپنی تمام آب وتاب کے باﺅجود گرمی
دکھانے میں ناکام رہا ،ہم نے انسانی ضرورت کے مطابق جو کھانا اپنے ساتھ
رکھا تھا اس کو ناشتے کے نام پر تھوڑا بہت کھایا اور آگے اپنی منزل کے جانب
عازم سفر ہوئے اور ایک بار پھر ہم نے پر خطر سفر کا آغاز کرتے ہوئے پہاڑ پر
چڑھنا شروع کیا بالآخر ہم اس منزل پر پہنچے جس کیلئے ہم نے چھ دن قبل مدین
سے اپنے سفر کاآغاز کیاتھا وہ چوٹی جو سوات کے پہاڑی سلسلوں میں سب سے
اونچی چوٹی ہے جس کی سطح سمندر سے اونچائی 18 ہزار247 فٹ ہے پر پہنچ کر ہم
نے خوشی سے بے خود ہوکر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے وہاں پر سبز ہلالی
پرچم بلند کیا، تمام ساتھی اپنی کامیابی پر اتنے خوش تھے جسے الفاظ میں
بیان کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہم نے وہاں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی
لگائے اور سبز ہلالی جھنڈ لہرا لہرا کر اپنی بھر پور خوشی کا اظہار کیا کہ
اللہ تعالیٰ نے یہ بلند ترین چوٹی سرکرنے کی ہماری خواہش پوری کردی ، کچھ
وقت وہاں گزارتے ہوئے تاریخی لمحات کو اپنے موبائل کے کیمروں میں محفوظ
کرنے کے بعد ہم نے وہاں سے واپسی کا سفر شروع کیا اور اللہ کے فضل وکرم سے
تمام ساتھی اپنے پہلے بیس کیمپ پر بخیر وعافیت پہنچنے کے بعد جب آبائی
علاقے مدین پہنچے تووہاں کے لوگوں نے ہمارا شاندار استقبال کیااور ہمیں
کاندھوں پراُٹھا کر جشن مناتے رہے ۔
یوں ہمارا یہ تاریخی سفر مکمل ہوا ہم تینوں دوستوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ
ہم نے اپنی مدد آ پ کے تحت سوات کی اس بلند ترین چوٹی کو سرکرلیا ہے جس میں
مشکلات کے حوالے سے ہمیں اچھا خاصا تجربہ حاصل ہوچکا ہے اس حوالے سے اگر
کوئی اور مہم جو مانکیال چوٹی سر کرنے کے حوالے سے سفر کا ارادہ رکھتا ہو
تووہ ہمارے تجربات سے استفادہ کرسکتا ہے ، باہمت نوجوانوں نے مزید بتایا کہ
ہم نے یہ کام مکمل طورپر اپنی مدد آپ کے تحت مکمل کیا ہے جو آسان کام نہیں
تھا انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کی حوصلہ افزائی کیلئے انہیں مواقع
فراہم کئے جائیں ان کی باقاعدہ ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے اور ساتھ ساتھ
مالی سپورٹ بھی فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو منوانے کیلئے مزید
مہم جوئی کا یہ سلسلہ آگے بڑھا تے ہوئے ملک وقوم کا نام روشن کر سکیں۔
|