سیاست کیا ہے ؟ یہ داؤ پیچ کا ایک ایسا کھیل ہے جس
میں کسی رولز ریگولیشن کو فالو نہیں کیا جاتا ،طریقہ جائز ہو یا ناجائز، بس
اپنے حریف کو گِرا کر اقتدار کو حاصل کرنا مقصود ہو تا ہے ۔یہی کچھ وطنِ
عزیز میں ہو رہا ہے اور ہم جیسے سیاست سے متنفر لوگ اس کا تماشہ دیکھ رہے
ہوتے ہیں اور پھر اس کا خمیازہ بھی ہمیں بھگتناا پڑتا ہے ۔ گزشتہ ایک سال
سے جوتماشہ لگا ہوا ہے اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، بازار جاکر
کوئی بھی چیز خریدتے وقت دل کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے بھی آنسو بہہ جاتے ہیں
۔ شاید بہت کم لوگ ان رازوں سے واقف ہو ں گے کہ مہنگائی اتنی منہ زور کیوں
ہے ؟ اور سیاست کا معیار اتنا کیوں گِر گیا ہے کہ اخلاقی زوال کے پست ترین
حد کو چھو چکا ہے ؟ آئیے ! آج اسی کی کھوج لگانے کی کو شش کرتے ہیں ۔
یہ خبرتو آپ نے سنی ہوگی کہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد ،سابق
وزیر اعظم نواز شریف عمرہ ادا کرنے کے لئے لندن سے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں
۔ان کی صاحبزادی مریم نواز پہلے ہی لا ہور سے سعودیہ پہنچ چکی ہیں ۔وزیر
اعظم شہباز شریف کا خاندان بھی سعودیہ میں موجود ہے ،جبکہ شہباز شریف
26رمضان کو سعودی عرب تشریف لے جائینگے ۔ ان سب کا سعودی عرب ایک جگہ اکھٹا
ہونا -
ایک اتفاق نہیں بلکہ سوچا سمجھا منصوبہ ہے ۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ نواز
شریف کے سعودی حکمرانوں اور یو اے ای کے حکمرانوں کے ساتھ اچھے مراسم اور
اچھے تعلقات ہیں ۔جنرل (ر) پرویز مشرف مرحوم کے دورِ حکومت میں بھی سعودی
شاہی خاندان نے نواز شریف کی مدد کی تھی اور ابھی ایک دفعہ پھر سعودی عرب
کا شاہی خاندان نواز شریف کو زیرو سے ہیرو بنانے کا منصوبہ ہے۔ موجودہ
وزیرِ خزانہ اسحق ڈار کو پاکستان بھیج کر وزیر خزانہ بنانا اور ڈالر کی
اونچی اڑان اور ناقابلِ برداشت مہنگائی بھی اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے ۔
پاکستان کو اس نہج پر لانا کہ اسے آئی ایم ایف کی کے شرائط قبول کرنے کے
علاوہ کو ئی چارہ ہی نہ رہے ، اسی منصوبے کی ایک کڑی ہے ۔ اس وقت آئی ایم
ایف نے پاکستان کو قرضہ دینے اور بیل آؤٹ کی جو شرط رکھی ہے ۔اس میں بیرونی
ممالک سے فنانسنگ شامل ہے یہ مدد اس وقت سعودی عرب اور یو اے ای سے ہی ممکن
ہے جبکہ سعودی عرب پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ دوست ممالک کی مالی مدد
شرائظ کے تحت ہی ممکن ہے پاکستان کو بھی اب ایک خاص شرط پر مطلوبہ رقم دی
جائے گی ،اورغالب امکان ہے کہ وہ شرط نواز شریف کو باعزت طریقے سے پاکستان
لے جانے اور تمام سہولتیں دینے کی کی ہوگی ۔ تاکہ نواز شریف کو با عزت
طریقہ سے پاکستان واپس آنے کا موقع فراہم ہو سکے اور پھر مہنگائی میں کمی
لانے اور عوام کو نواز شریف سے ہمدردیاں پیدا کرنے کی کوشش اور انتخابات
میں جیتنے کا موقع فراہم کیا جائے گا ۔مگر ایسا ہو گا یا نہیں ، یہ تو اﷲ
ہی بہتر جانتا ہے۔
اب دوسری طرف آئیے ۔ عمران خان جو امریکہ کو رجیم چینج کا ذمہ دار گردانتے
ہوئے مسلسل امریکہ پر تنقید کرتا رہا ، اب مکمل یوٹرن لے کر امریکہ کی
حمایت حاصل کرنے کی کو شش کر رہا ہے اور اس مقصد کے لئے امریکہ میں باقاعدہ
لابی ہائر کر رکھی ہے ۔ جبکہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ایک سال میں
امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے امریکہ کے پانچ دورے کر چکا ہے ۔ اس کی
وجہ یہ ہے اور یہ وجہ زرداری کو تو پہلے سے معلوم ہے مگر اب عمران خان کو
بھی یقین واثق ہو چکا ہے کہ اسلام آباد تک پہنچنے کا راستہ پنڈی سے ہو کر
جا تا ہے اور پنڈی تک پہنچنے کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر جاتا ہے اس لئے
امریکہ کی خوشنودی حاصل کئے بغیر اسلام آباد یا پنڈی پہنچنا ممکن نہیں ۔با
ایں وجہ انہوں نے امریکہ کو خوش رکھنے کی سعی شروع کر رکھی ہے ۔ مقامِ
افسوس ہے کہ پاکستان میں اقتدارحاصل کرنے کے لئے ہمارے سیاست دان کسی اور
ملک کی طرف دیکھنے اور سجدہ کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ اگر ہمارے قائدین
کا یہ حال ہو تو یہ قوم کس طرح غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہو گی؟ راقم
الحروف تو عمران خان کی موجودہ یو ٹرن سے نہایت حیراں و پریشاں ہے کہ عمران
خان جیسا لیڈر جو حقیقی آزادی کا دعوی کرتا ہے ،وہ بھی امریکہ کے سامنے
گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا ہے تو پھر تو حقیقی آزادی کا تصور ایک خواب ہی
رہے گا ۔ مہنگائی اور گندی سیاست کے پیچھے چھپے راز پڑھ کر مسلم لیگ(ن)اور
پی ٹی آئی کے حمایتی دونوں راقم الحروف کو برا بھلا کہیں گے کیونکہ ہمارے
ہاں جو شخص جس پارٹی سے بھی جڑا ہے وہ اس کی تعریف سننا چاہتا ہے، تنقید
برداشت نہیں کر سکتا ۔لیکن اہل قلم کا کام سچ اور حقیقت آپ کے سامنے رکھنا
ہے ۔تنقید کرنا آپ کا حق ہے۔ البتہ ایک گزارش ہے کہ صدقِ دل سے یہ دعا کریں
کہ ہمارے پیارے پاکستان میں کوئی ایسا لیڈر پیدا ہو جائے یا موجودہ لیڈروں
میں سے اﷲ تعالی کسی کو اتنی طاقت و ہمت عطا کرے کہ وہ پاکستان کو صحیح
معنوں میں ایک فلاحی و خو شحال ملک بنا سکے ۔اور جو ہمارے گردنوں سے غلامی
کا طوق باہر پھینک سکے ۔۔۔۔۔
|