13 اپریل ، 2023کو جب میڈیا عتیق احمد کے بیٹے اسد کے
انکاونٹر کی رننگ کمنٹری دےرہا تھا بھٹنڈا کی سب سے بڑی فوجی چھاونی میں
فائرنگ سے ایک اور فوجی ہلاک ہوگیا ۔ اس طرح 2 دن میں ہلاک ہونے والے
فوجیوں کی تعداد 5 ہوگئی ہے۔آج کل خبر چھپانے کے لیے بھی خبروں کو بنایا
جاتا ہے۔ اسد کا ماورائے قانون قتل دراصل اسی کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔
یہ بات جگ ظاہر ہوچکی ہے کہ بیشتر انکاونٹر جعلی ہوتے ہیں۔ اس میں قتل ہونے
والے پہلے سے پولیس کے حراست میں موجود ہوتے ہیں۔ انہیں کسی خاص موقع پر
سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ وکاس دوبے سے لے
کر اسد تک کی یہی کہانی ہے۔ یوگی کا انکاونٹر کو دیکھنا اوبامہ کے ذریعہ
اوسامہ بن لادن کے معاملے میں کھیلے جانے والے امریکی ڈرامہ کی ایک بھونڈی
نقل تھا اور کنگنا رناوت کا ٹویٹ بھی ایک سستی شہرت جٹانے کی اوچھی حرکت
تھی ۔
اسد کا سرکاری قتل پنجاب کے آتش فشاں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی ایک کامیاب
سعی تھی جس نے ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے کر فوجیوں کے قتل کو ڈھانپ دیا
گیا ۔ میڈیا میں پہلے واقعہ کے بارے میں تو بہت کچھ چھپا مگر دوسرےواقعہ کی
تفصیلات فوری طور پر جاری نہیں کی گئی لیکن اتنا ضرور کہا گیا کہ ان دونوں
میں کوئی تعلق نہیں ہے۔اس سے ایک دن پہلے ایشیا کے سب بڑے بھٹنڈا میں ملٹری
اسٹیشن کی کینٹین میں فائرنگ سے جو 4 فوجی ہلاک ہوئے تھے اس کو بھی ابتداء
میں آپسی یا دوستانہ فائزنگ کا نام دے کر ورغلایا گیا تھا لیکن بعد میں وہ
موقف کو تبدیل کردیا گیااورآگے چل کرایف آئی آر میں ان ساری باتوں کی
تردید ہوگئی۔ بھٹنڈا فوجی چھاونی میں پہلی فائرنگ سے 4 فوجی ہلاک ہوگئے
تھے۔ فوج نے گولہ بارود کے ساتھ فرار ہونے والے حملہ آور کو پکڑنے کے لیے
علاقے کی ناکابندی کر کے سرچ آپریشن شروع کردیا تھا ۔ میڈیا کے مطابق
فائرنگ کرنے والےپولیس اہلکار نے کوارٹر گارڈ سے اسلحہ چھینا تھا۔ فوج اس
کیس میں تمام عوامل کو دیکھ رہی تھی جن میں دو دن قبل اسی یونٹ سے اٹھائیس
راوئنڈز سمیت ایک رائفل کی گمشدگی کو بھی جانچا جا رہا ہے۔اب تک رائفل تو
برآمد ہوگئی مگر اس کو استعمال کرنے والوں کا کہیں اتہ پتہ نہیں ہے۔
بھٹنڈا فائرنگ معاملے میں فوج نے میڈیا سے درخواست کی تھی کہ حساسیت کے
مدنظر افواہوں سے گریز کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اسد اور غلام کاانکاونٹر
بھی تو ایک حساس معاملہ تھا ۔ اس کی بابت یہ احتیاط کیوں نہیں برتی گئی؟
کیا یہ سب بھٹنڈا گولی باری میں ہلاک ہونے والے پانچ فوجی جوانوں کی پردہ
پوشی کے لیے کیا گیا؟ تفتیش سے قبل پنجاب پولیس کا دعویٰ کہ یہ دہشت گردی
کا واقعہ نہیں ہے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہےکیونکہ بھٹنڈا کے ایس ایس پی
جی ایس کھرانہ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا
کہ گولیاں کس نے اور کیوں چلائیں؟ پنجاب کی بھٹنڈا پولیس کے مطابق یہ واقعہ
ملٹری اسٹیشن کے اندر گارڈ روم میں پیش آیا۔ گولی کس نے چلائی یہ ہنوزتفتیش
کا معاملہ ہے۔ تادمِ تحریر صرف یہ پتہ چل سکاہے کہ گولی فوج کے سرکاری
ہتھیار سے چلائی گئی لیکن اس کو چلانے والا صیغۂ راز میں ہے۔ اس دعویٰ تک
تو وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو آرمی چیف جنرل منوج پانڈے کی رپورٹ بھی نہیں
ملی ہے۔ اس کے باوجود دہشت گردی کے عناصر کو خارج کردینے پر ملک کے باشندے
حیرت زدہ تھے ۔ ان حقائق کی جانب سےتوجہ بھٹکانے کے لیے اترپردیش میں فرضی
انکاونٹر کا کھیل کھیلا گیا تاکہ ذرائع ابلاغ میں صرف عتیق احمد کے بیٹے کا
انکاونٹر گونجنے لگا۔
امیش پال قتل کیس میں مطلوب عتیق کے بیٹے اسد اور شوٹر غلام محمد کے
انکاونٹر کی جس دن خبر آئی اسی دن بھٹنڈا میں ڈیوٹی پر تعینات ایک اور
جوان کو اچانک گولی لگ گئی۔ اس کی موقع واردات پر ہی موت ہوگئی۔ اس کو ہلکے
میں لیتے ہوئے پہلے خودکشی قرار دیا گیا ۔ تاہم بعد میں پولیس نے بتایا کہ
یہ ابھی جانچ کا موضوع ہےممکن ہے ڈیوٹی کے دوران ہتھیار صاف کرتے وقت حادثہ
ہوگیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ ڈیوٹی کے دوران ہتھیار صاف کرنے کی کیا تُک ہے اور
اس طرح گولی کسی اور کو بھی لگ سکتی تھی ۔ اس سے فوجیوں کی تربیت پر بھی
سوال کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ فوجی ترجمان بڑے وثوق سے پہلی اور دوسری فائرنگ کے
درمیان کسی تعلق سے انکار کرتے ہیں حالانکہ تفتیش سے قبل اس طرح کا دعویٰ
مناسب نہیں ہے لیکن یہ سوال کون پوچھے گا جبکہ ساری قوم کو اسد اور غلام کے
انکاونٹر میں الجھایا جاچکا ہو۔
عوام کو بتایا گیا کہ اسلحہ اور کیمرے سے لیس یوپی ایس ٹی ایف نے جھانسی
میں ان کا انکاؤنٹر کردیا کیونکہ ان کے پاس سے غیر ملکی اسلحہ تھا اوران کے
سر پر پانچ پانچ لاکھ روپے کا انعام بھی تھا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ الہ
باد ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران عتیق احمد ان کے بھائی اشرف کو اسد کے
انکاؤنٹر کی خبر ملی۔ بظاہر تو یہ ایک سازش معلوم ہوتی ہے۔پولیس کے مطابق
یہ انکاؤنٹر جھانسی کے بارگاوں اور چرگاؤں کے قریب ہواجہاں اسد اور محمد
غلام پریچہ ڈیم کے قریب چھپے ہوئے تھے۔ پولیس کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ انہیں
گھیرکر ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے فائرنگ کردی۔ جوابی
کارروائی میں دونوں مارے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی بات تھی تو کیمروں کی
ضرورت کیوں پیش آئی اور وہ کیسے مہیا ہوگئے؟
راجوپال نے عتیق احمد کے بھائی اشرف کے خلاف انتخاب لڑا اور جیت گیا۔ اس کا
2005 میں قتل ہوگیا تھا جس کا الزام عتیق اور اس کے بھائی اشرف پر لگا اور
نچلی عدالت نے دونوں کو عمر قید کی سزا دے دی ۔ 24 فروری کو راجوپال قتل
کیس میں گواہ امیش پال کو قتل کر دیا گیا ۔ اس حملے میں مقتول اور اس کے دو
بندوق بردار محافظ بھی مارے گئے۔ پولیس کو امیش پال معاملے میں عتیق کے
بیٹے اسد سمیت 5 شوٹروں کی تلاش تھی کیونکہ امیش کے قتل کی سی سی ٹی وی
فوٹیج میں ان کو ہتھیار سمیت دیکھا گیا تھا۔ اس معاملے میں ابھی تک پولیس
اسد، غلام ، ارباز اور وجے چودھری کا انکاونٹر کرچکی ہے اور ارمان، گڈو
مسلم اور صابر کی تلاش میں ہے۔ یہ بات بھی ذرائع ابلاغ میں آچکی ہے کہ
عتیق احمد کی اہلیہ شائستہ پروین نے امیش پال کے قتل میں اسد کا آنے پر
ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ابھی بچہ ہے۔ اسے اسے ملوث نہیں
کرنا چاہیے تھا۔ یہ سن کر عتیق احمد برہم ہوگئے اور فون پر ڈانٹتے ہوئے
بیوی سے کہا تھا، 'اسد شیر کا بیٹا ہے۔ اس نے شیروں کا کام کیا ہے۔ آج اس
کی وجہ سے میں 18 سال بعد سکون کی نیند سویا ہوں۔ ویسے یہ جاننا مشکل ہے کہ
یہ خبر درست ہے یا پولیس کی گھڑی ہوئی کہانیوں میں سے ایک ہے۔
اسد اور غلام کے انکاونٹر کو سماجوادی پارٹی کے سربراہ اور یوپی کے سابق
وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے فرضی بتاتے ہوئے بی جے پی حکومت پرنشانہ سادھا
ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ انکاؤنٹر جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔ بی جے پی عوام کو
اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے۔ایس پی کے سربراہ نے کہا کہ حالیہ انکاؤنٹر کی
خاص تفتیش ہونی چاہئے اور مجرموں کو کسی بھی قیمت پر چھوڑا نہ جائے۔ ایس پی
صدر اکھلیش یادو نے ٹویٹ کہا کہ، ’’بی جے پی والے عدالت پر یقین نہیں
رکھتے۔ صحیح-غلط کے فیصلے کا حق اقتدار والی پارٹی کو بھی نہیں ہوتا ہے۔ بی
جے پی بھائی چارے کے خلاف ہے۔‘‘ اکھلیش نے اسد کے جنازے میں شرکت کا عندیہ
بھی دیا تھا۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے
بھی یوپی کی یوگی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اس انکاونٹر پر سوال اٹھائے کہ
کیا بی جے پی والے جنید اور ناصر کے قاتلوں کو بھی گولی ماریں گے۔ ۔انہوں
نے کہا کہ ، ” ان کا انکاونٹر نہیں کروگے کیونکہ تم (بی جے پی) مذہب کے نام
پر انکاونٹر کرتے ہو۔ یہ انکاونٹر نہیں ہے، قانون کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔“
اسدالدین اویسی نے یہ الزام بھی لگایا، ”تم لوگ انکاونٹر نہیں، آئین کا
انکاونٹر کرنا چاہتے ہو۔ عدالت کس لئے ہے، اورآئی پی سی اور سی آرپی سی
کس لئے ہے؟ اگرتم لوگ فیصلہ کروگے کہ گولی سے انصاف کریں گے تو بند کردو
عدالتوں کو۔ جج پھر کیا کام کریں گے؟“
ایک طویل عرصہ سے خاموش مایاوتی بھی اسد کے انکاونٹر پر خاموش نہیں رہ سکیں
۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے ٹوئٹ کرکے کہا، ” عتیق احمد کے بیٹے اور ایک
دیگر کا آج پولیس انکاونٹر میں ہوئے قتل پر مختلف طرح کی بحث ہورہی ہے۔
لوگوں کو لگتا ہے کہ وکاس دوبے سانحہ کے دوہرائے جانے کا ان کا خدشہ سچ
ثابت ہوا ہے۔ حادثہ کے پورے حقائق اور سچائی عوام کے سامنے آسکے اور اس کے
لئے اعلیٰ سطحی جانچ ضروری ہے‘‘۔ اتر پردیش کی یوگی سرکار ماورائے قانون
قتل و غارتگری پر فخر کرتی ہے۔ وہ اب تک دس ہزار سے زیادہ مڈبھیڑ میں 63
لوگوں کو اس طرح کاجعلی انکاونٹر کرکے ہلاک کرچکی ہے مگر اس سے جرائم میں
کمی نہیں آئی اور آج بھی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کئی قسم کے جرائم
میں اترپردیش سرِ فہرست ہے کیونکہ مختلف طبقات خاص طور پر راجپوت مجرم خود
کو بے خوف محسوس کرنے لگے ہیں ۔ وہ شتر بے مہار کی مانند بے دھڑک مجرمانہ
سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔ حکومت نے ان کو کھلی چھوٹ دینے کی خاطر جعلی
انکاونٹرس کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
|