شعر ہوتا ترا شعار اے کاش

محترم محمد عمر فیاض کے مجموعۂ غزلیات ”اوراقِ زیست“ پر تنہاؔ لائلپوری کا اظہارِ خیال

ہماری پیاری زبان اردو:
اردو زبان میں وسعت قابلِ رشک ہے۔ اس کی عمر و بساط پر نظر ڈالی جائے تو چند برس سے زیادہ نہیں مگر عجب دلکشی اور جاذبیت ہے کہ اس نے اپنی ہر دل عزیزی سے بڑی بڑی قدیم زبانوں کو بھی مات دے دی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک زبان جو ہندو مسلم ملاپ اور تجارت و لین دین کے معمولی و ادنیٰ کاروبار کے سبب بے ارادۂ سباق پیدا ہوئی ہو اور جو عہدِ سلطنتِ شاہجہان میں فقط شاہی قلعہ کی چاردیواری میں محدود رہ کر بیگماتِ سلاطین کے اظہارِ خیالات کا باعث ہو، وہ کس طرح دہلی و لکھنؤ سے نکل کر پورے پاک و ہند پر اپنا سکہ بٹھاتی ہے اور نہ صرف بول چال کے کام آتی ہے بلکہ رشتۂ محبت میں شعر و سخن کے وہ وہ جواہرِ آبدار اور گہر ہائے شاہوار پروتی ہے جو دیگر زبانوں میں الشاذ کالمعدوم کا مصداق ہیں۔

ایک طرف دیکھئے تو جب کوہِ ہندوکش کو الٹتے ہوئے اپنے خدم و حشم کے ساتھ سلطان محمود غزنوی نے متواتر حملوں سے ہندوستان میں اہلِ اسلام کی آمد کا راستہ کھولا تو ملکی و غیر ملکی اصحاب کے ضروری میل ملاپ اور یکجائی ماند و بود میں اردو زبان کی بنیاد پڑی۔ ترکی زبان میں اردو کے معنی لشکر کے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ فاتحین کا لشکر اس زبان کی پیدائش کا باعث بنا۔ یکے بعد دیگرے اسلامی سلاطین کے عہدِ سلطنت اور اہلِ اسلام کی مستقل سکونت اسے ترقی دیتی گئی۔ یہ بات بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں کہ نثر نگاری سے قبل نظم نویسی نے اس زبان میں شرفِ تقدیم حاصل کیا۔ کچھ شک نہیں کہ سب سے پہلے شعر کہنے کی فضیلت اہلِ دکن کو حاصل ہوئی جہاں سے شاعری کا آدم ولی محمد ولیؔ دکنی اٹھا اور اپنے تغزل و نعت گوئی سے پورے ہندوستان میں اپنی شاعری کا ڈنکا بجا گیا۔

دوسری طرف پاکستان کے صوبہ سندھ کو دیکھئے جو ایک عظیم مسلم فاتح محمد بن قاسم کے ہاتھوں فتح ہوا تو عربی تجار و شعرا و ادبا و فصحا و رؤسا و افواج وہاں توطن گزیں ہوئے اور اس کے ایک عرصے بعد وہ اپنی زبان و روایات و خصوصیات کو خیرباد کہتے ہوئے یہیں کی مروجہ زبان میں کمالاتِ سخن دکھانے لگے، یہی زبان آگے چل کر اردو زبان کہلائی جو اب تک پاک و ہند میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اب اردو زبان کسی کی خاص زبان نہیں رہی۔ ہر صوبۂ پاک و ہند کا دعویٰ ہے کہ اردو ہماری پیاری زبان ہے۔

خصوصیاتِ کلامِ عمرؔ فیاض:
صاحبِ مجموعۂ غزلیاتِ ہٰذا عالی جناب و عزت مآب حضرت عمر فیاض صاحب کے کلام میں زمانہ قدیم کے حقائق و واقعات و خیالات و حوادث کا حد سے زیادہ جلوہ نظر آتا ہے۔ آپ کے تخیلات کو شاعری کا ایک نمونہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ آپ کا کلام قدیم روایات کا ایسا عکس ہے جسے غور سے دیکھیں تو گزرا ہوا ایک پورا عالم نظر آتا ہے۔ آپ چرخِ تخیل سے مضامین کے ستارے اتار لاتے ہیں۔ جیسے دربارِ قادر الکلامی سے سلطنتِ سخن پر حکومت مل گئی ہو کہ طرح طرح کے خیال کو جس رنگ سے چاہتے ہیں کہہ ڈالتے ہیں۔ آپ کے کلام میں کہیں تشبیہات و استعارات کا برجستہ استعمال ہے تو کہیں محاورات جلوہ دکھاتے ہیں۔ بعض جگہ انتہائی سادہ انداز سے ایسا کہہ جاتے ہیں کہ قلب میں نشتر کھٹک جاتا ہے اور لبِ گویا سے کبھی آہ نکلتی ہے اور کبھی واہ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے خامہ میں شستہ و شائستہ الفاظ کے خزانے بھرے ہیں۔ آپ کے ہاں الفاظ کی ترکیب کے سینکڑوں رنگ ہیں لیکن جہاں سجاتے ہیں وہ جیسے وہیں کے لیے ہوتا ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ کون سا رنگ سادگی میں دیا جائے اور کون سا شوخی میں۔ آپ کے الفاظ کی لطافت ہی ہے جو مضمون کی باریکیوں کو روشن کرتی ہے۔ آپ خیال کو یوں باندھتے ہیں گویا اپنے دل پر اس کا اثر محسوس کر رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے اشعار قاری کے قلب و ذہن کو مقناطیسی قوت سے اپنے طرف کھینچتے ہیں۔ مضمون کی پیچیدگیوں کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں گویا گڑ کا شربت ہو جو کانوں کے راستے دل میں اتارا جا رہا ہو۔ آپ کے قلم سے ترکیب پا کر نکلنے والے الفاظ جیسے دُرِ ناسُفتہ ہوں جو حریر پر خود بخود لڑھکتے چلے جا رہے ہوں۔ آپ کا کلام دل کو بھلا لگتا ہے اور زبان کو مزہ آتا ہے۔ آپ کی سخن دانی میں جوشِ خونِ جگر کے باعث ایسی چستی پیدا ہوتی ہے جو قاری کے دل میں ولولہ و خروش ابھارنے کا سبب بنتی ہے۔ آپ سخن کے وہ طبیب ہیں جو ایک ایک لفظ کی نبض پہچانتے ہیں۔ ایسی زمینیں جن میں رینگنا مشکل ہوتا ہے آپ نے ان میں ہل چلا کر سخن کے شگوفے کھلا دیے ہیں۔ آپ کا کلام قاری کے دل میں درد، جگر میں سوز، آہ میں اثر اور آنکھوں میں تری پیدا کرتا ہے۔ آپ کا شکستہ دل ٹوٹے ہوئے دلوں کے پیوند لگاتا ہے۔ آپ کے دردِ دل کی چمک سرگشتگانِ وادیِ عشق و جنون کے راستے میں مشعل دکھاتی ہے جس کے روبرو برق بھی چراغِ کشتہ نظر آتی ہے۔ عشاق کی نظروں میں دلربا پیکرِ دوست کا جلوہ نظر آتا ہے۔ آپ کے خیال کی شوخی نشتر کا کام کرتی ہے اور آپ کی بیاض کا ایک ایک شعر روح کو تڑپا دینے والا ہے۔ آپ کا ہر ہر مصرع روانی میں چلتی ہوئی تلوار، ہر ہر لفظ چبھتا ہوا نشتر، ہر ہر حرف افروختہ اخگر اور ہر ہر کلمہ بھڑکتا ہوا شعلہ ہے۔ اس بیاضِ عاشقاں کو حرزِ جاں بنانے اور دلِ شیدا کو زندگی بھر کیلئے شاہدانِ معانی کا تصور خانہ ٹھہرانے کو جی چاہتا ہے۔ آپ ایسے خیالات کو منظرِ عام پر لاتے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جاتا اور لوگوں کی نظروں سے مخفی رہ جاتے ہیں۔ روزمرہ کے حالات و واقعات جن سے دل پر چوٹ لگتی ہے، آپ انہیں اپنے سلیقے سے شعر کا لباس پہنا دیتے ہیں۔ آپ کا شمار ان عظیم شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے مقبول خیال کی جانے والی خصوصیات جیسے زہد و تقویٰ، علم و معرفت، عقل و ہوش، فہم و فراست، پند و وعظ، عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ مذموم و مردود سمجھی جانے والی خصوصیات جیسے خبط و جنون، نادانی و دیوانگی، رندی و مستی، رقص و سرود، رعنائی و شباب، شراب و کباب، مینا و ساقی، ذلت و رسوائی کو بھی اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے۔ آپ کے کلام میں معرفت کی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ پڑھتے اور سنتے وقت قاری و سامع پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو آپ کے عشقِ صادق اور عقیدتِ واثق کی واضح دلیل ہے۔ آپ کا دیوان وہی رنگ، وہی لوح، وہی پختگی، وہی بے ساختگی، وہی شستگی، وہی شگفتگی، وہی سلاست و صفائی، وہی پاکیزگیِ محاورات اور عجیب و غریب تشبیہات و استعارات و اشارات و کنایات رکھتا ہے جو کسی بڑے لائق فائق اور ماہرِ فن کے کلام میں ہونے چاہئیں۔

معاصرین میں مقام:
جناب عمر فیاض اپنے اکثر معاصرین میں پُر فائق ہیں۔ مگر یہ تقابل ان شعراء سے نہیں ہے جو شاعر بالطبع ہیں اور انہیں ادبیات سے اس قدر بے خبری ہے کہ اغلاطِ لفظیہ سے ہی ان کا کلام پاک نہیں ہے اور بخت و اتفاق کے زورِ بازو نے انہیں قبولیت کے رتبے کو پہنچا دیا ہے بلکہ اس تقابل میں وہ شعراء ہیں جنہوں نے کم از کم عروض و ادب کو مقدمات کی حد تک حاصل کیا ہے اور پھر میدانِ شعر و سخن میں قدم رکھا ہے۔ انصاف یہ ہے کہ جو شیرینیِ زبان و صفائیِ بندش کلامِ عمرؔ میں ہے، معاصرینِ عمرؔ اس سے کوسوں دور ہیں۔

اعتراض:
کلامِ عمرؔ پر قابلِ غور سمجھا جانے والا اعتراض یہ ہے کہ یہ عوام پسند نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کی زبان فاضلانہ ہے۔ زبان دو طرح حاصل ہوتی ہے، یا خود تحصیلِ علوم و صحبت و خدمتِ علماء سے یا خاندانِ اعلامِ روزگار و اہلِ کمال میں پرورش سے۔ العلم فی الصغر کالنقش علی الحجر۔ عمرؔ صاحب کی زبان وہ ہے جسے مزاقِ عامیانہ سے ممانعت ہے لہٰذا عوام کا اس جانب جھکاؤ محال ہے۔ اگر عمرؔ صاحب اپنی زبانِ شعری میں زبانِ عوام الناس کا رنگ بھریں تو اس پر کبھی قادر نہیں ہو سکتے۔ عوام کو وہی اشعار زیادہ مرغوب ہوتے ہیں جو ان کی زبان اور دلچسپی کے عین مطابق ہوں۔ اختلافِ لسان موجبِ وحشت ہے۔ قریب القیاس ہے کہ عمرؔ صاحب کی غزلیات مثلِ برق محافلِ رقص و سرود میں پہنچ کر شمعِ انجمن بن جائیں گی لہٰذا اگر آپ کا کلام عوام میں فخرِ شہرت حاصل نہ کرے تو کچھ محلِ استعجاب نہیں ہے۔ کلامِ عمرؔ کا مطبوع ہو جانا زبانِ اردو کیلئے ایک نعمتِ مترقب ہے جس کی مثال ملنا نا ممکن ہے، اس لیے کہ اب اردو شاعری کی دیوارِ شکستہ پر صرف چند ہی نقش و نگار باقی رہ گئے ہیں جو عظیم اساتذۂ سلف کی یادگار ہیں۔ بجا فرمایا خدائے سخن استاد میر تقی میرؔ نے:

ع ناموزوں ہی نکلے گا سنجیدہ کوئی جو بولے ٹک

تنہاؔ لائلپوری
(ایم فل فزکس نینوٹیکنالوجی)
 

Tanha Lyallpuri
About the Author: Tanha LyallpuriCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.