اُبھرتے ہوئے نوجوان ادیب اور نثر نگارسجاد حسین سرمد کی
شخصی خاکوں پر مشتمل دُوسری کاوشـ"میرے ہم نوا" گذشتہ دنوں شائع ہو ئی، جس
میں بارہ ((12 شخصیات پر خاکے تحریر کیئے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان
شخصیات میں چار زندہ شخصیات پر بھی قلم فرسائی فرمائی گئی ہے جو کہ ایک
آسان کام نہیں ہے کیونکہ زندہ شخصیات کی زیست میں تغیر و تبدل کا ہونا قرینِ
قیاس ہے۔اس سے قبل سجاد حسین سرمد کی کتاب "نشاط سرمدی (خاکے )2018" میں
منصہ شہود پر آئی، جسے ادبی حلقوں میں زبردست پذیرائی مل چکی ہے۔انہوں نے
ضلع اٹک میں خاکہ نگاری کی صنف میں اچھے خاکے تحریر کر کے انفرادیت پیدا کی
ہے۔اِن کی پہلی کتاب "نشاط سرمدی (خاکے )2018" پر ڈاکٹر سمیرا گل کی زیر
نگرانی بی ایس لیول کا تحقیقی مقالہ بعنوان"نشاطِ سرمدی کا تحقیقی و تنقیدی
جائزہ2018-2022" مقالہ نگار: شہلا، سویرا قربان،آسماء زمیر شعبہ اُردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالمج برائے خواتین مردان لکھا جا چکا ہے۔ یہی نہیں
بلکہ" اکیسویں صدی کے منتخب خاکہ نگاروں کا تنقیدی مطالعہ " کے عنوان سے
ایم فل اُردو کا مقالہ طالبہ یسریٰ محمود نے ڈاکٹر ثوبیہ عابد اور ڈاکٹر
سمیرا اعجاز کی زیر نگرانی یورنیورسٹی آف اوکاڑہ2019-2021سیشن کے باب چہارم
میں سجاد حسین سرمد کی خاکہ نگاری کے عنوان سے شامل مقالہ کیا ہے۔سجاد حسین
سرمد سے میرا تعارف2017ٰٗء میں اٹک کے ادیبوں سے ملاقاتوں کے دوران ہوا۔
اٹک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن قریہء اجداد بسال تحصیل جنڈ ہے۔ سجاد سرمد کی
تعلیم ایم فل اُردو ہے اور یہ اِس وقت کیڈٹ کالج مہمند میں اُردو کے
لیکچرار ہیں۔سجاد سرمد اٹک سے شائع ہونے والے ادبی مجلے "دھنک رنگ" کے مدیر
بھی ہیں۔
کتاب ـ"میرے ہم نوا" چھیانوے (96) صفحات پر مشتمل خوبصورت کتاب ہے۔کتاب کے
سر ورق پر دوانسانی تصویری خاکے شائع کیے گئے ہیں ۔ کتاب کا بیرونی رنگ
کالا ہے جس پر خوبصورت گرد پوش بھی ہے جو جازب دیکھائی دیتاہے اندرونی فلیپ
پر مصنف کا تعارف نامہ شامل ہے اور بیک فلیپ پر معروف ادیب اور نقاد ارشاد
علی (اٹک)کی آراء شامل ہے۔جس میں وہ لکھتے ہیں کہـ" مجموعہ ہذا خاک سے خاکے
تک ایک طویل اور تھکا دینے والی مسافت کی گواہی ہے ۔ سرمد نے وجدان اور فنی
شعور کا سہارا لے کر کہی اور ان کہی کا پاس رکھا ہے۔ سرمد کا مسلک دل آزاری
نہیں دلداری ہے۔ اسی لیے کسی شخصیت کی جراحت کے بجائے اُس نے شگفتہ انداز
میں درونِ ذات کے پرت کھولنے کی سعی کی ہیـ۔کتاب کا پسِ ورق ڈاکٹر محمد
وسیم انجم نے لکھا ہے۔آراء دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہـ"سجاد سرمد کے خاکوں
کی روانی ، بے ساختہ پن اور تجرِعلمی قاری کے دل و دماغ کو متاثر کرنے کے
ساتھ شخصیات کے بارے میں مفید معلومات اور ان کے غیر معمولی اوصاف کو
اُجاگر کرتی ہے۔ یہ خاکوں کا مجموعہ ہی نہیں ، شخصیت نگاری کے لحاظ سے بھی
بے مثال ہے"۔
اس کتاب کو العلم پبلشرز، قصّہ خوانی ، پشاور نے شائع کیا ہے۔کتاب کی اشاعت
میں عمدہ سفید کاغذکا استعمال کیا گیا ہے اور پرنٹنگ جلی حروف میں ہے۔جملہ
حقوق بحق مصنف ہیں ، سال اشاعت مارچ 2023ء تحریر ہے جبکہ قیمت پانچ سو روپے
رکھی گئی ہے۔ اس کتاب کا انتساب مصنف نے ایک خوبصورت شعرلکھ کر اپنے والد
مرحوم کے نام کیا ہے۔
دیکھتا ہوں تو سبھی کچھ ہے سلامت گھر میں
سوچتا ہوں تو ترے بعد رہا کچھ بھی نہیں
سپاس گُزاری میں چار نام بریگیڈئیر محمد ظفر اقبال ، ڈاکٹر وسیم انجم،
ڈاکٹر سمیرا گل اور ارشاد علی کے شامل کئے گئے ہیں۔ جبکہ محبتوں کے عنوان
سے ادیبوں اور شعراء کی ایک خاصی تعداد کا ذکر کیا گیاہے۔کتاب میرے ہم نواء
کا مقدمہ ڈاکٹر سمیرا گل نے "میرے ہم نواء پر ایک نظر" کے عنوان سے لکھا
ہے۔وہ لکھتی ہیں"اسالیب ِ نثّرمیں کسی ایک اسلوب پر فنی گرفت حاصل کرنے کا
کمال نُوآموز لکھاریوں کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔ ایسے لکھاری پل دو پل کو
ادبی دُنیا میں چمکنے والے ستاروں جیسے ہوتے ہیں جو اپنی انفرادی پہچان
بنانے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔سجاد حسین سرمد ایسے لکھاریوں میں شامل نہیں
کیوں کہ وہ اپنی پہچان بنانے اور خاکہ نگاری میں اپنی راہ متعین کرنے میں
ناکامی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ کامیابی کے سفر پر چل نکلے ہیں جس کی منز ل
یقینی ہوتی ہے"۔ کتاب میں مصنف نے خاکے کی تعریف کے حوالے سے ڈاکٹر اشفاق
احمد ورک کی ایک مختصر رائے بھی شامل اشاعت کی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں
کہ"خاکہ نگار جب بھی اپنا نیا شکار چُنتا ہے ، اس کی حتی الوسع کوشش ہوتی
ہے کہ مطلوبہ شخصیت کی زیست کے چند نرم گوشے جلد از جلد تلاش کر لیے جائیں،
اس کی زندگی میں گمراہی کاکوئی نہ کوئی روشن دان ڈھونڈ لیا جائے یا کھول
لیا جائے ، کیونکہ ایسی کوئی کھڑکی کھلی مل جائے اور اس میں تھوڑا بہت خاکہ
نگار کا خُبثِ باطن شامل ہو جائے تو سجان اﷲ، خاکہ لکھنے کا مزا آجاتا ہے"۔
خاکہ نگاری کسی کہانی ، افسانہ ، ناول یا داستان کے کسی کردار سے کم نہیں
ہے۔جس طرح پڑھتے ہوئے کہانی ، افسانہ ، ناول یا داستان ہمیں ایک مخصوص
ماحول کے کینوس پر لے جاتی ہے ایسے ہی شخصی خاکہ نگاری کو بھی شخصیت کے اُن
تمام پہلوؤں کا مکمل احاطہ کرنا چاہیے تاکہ ایک قاری اُس شخصیت کے ساحر میں
مبتلا ہو کر اس کی تمام زندگی کو خاکے کی بدولت جان سکے۔اس کتاب میں مختلف
خاکوں کو پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ خاکہ نگار کا اسلوب تمام خاکوں میں
یکساں نہیں ہے۔ کہیں تحریر میں روانی ہے اور کہیں رکاوٹ ہے۔مصنف نے زیادہ
تر خاکوں میں اپنی کمزوریوں، کمیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کا برملا اظہار
کیا ہے جو مثبت اور منفی دونوں تاثُر دیتا ہے۔مصنف نے چند خاکوں میں ایسے
معاملات بھی بیان کیے ہیں جو نجی محفلوں کی حد تک تو ٹھیک لگتے ہیں لیکن
انہیں تحریری شکل میں امر کرنا چنداں مناسب نہیں لگتا۔مغل صاحب کے خاکے میں
صفحہ نمبر 25 پر آخری پہرا گراف میں "کوئی جگہ نہ پا کر وہیں کھانے لگ پڑے"
مناسب نہیں ہے۔ خاکہ نگار یہاں اچھا فقرہ استعمال کر سکتا تھا۔اسی طرح صفحہ
نمبر 30 پر آخری سطریں "جس پر مسکرا کر کہنے لگے: اس بار تنگ نہیں کروں گا
لیکن میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ اب ان کی کتاب کمپوز نہیں کروں گا" یہ
الفاظ میری نظر میں منفیت کو ظاہر کرتے ہیں اور ایک ادیب کو کبھی بھی منفیت
کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ خاکے "راشد صاحب"،"کیپٹن صاحب"،"مغل صاحب"،"حافظ
صاحب"،"فروغ صاحب" اچھے خاکے ہیں لیکن ہر ایک خاکے میں کمی ، کوتاہی ، غلطی
کا اعتراف اور منفیت کی چند سطریں ضرور موجود ہیں جو قاری پر اچھا اثر نہیں
قائم کرتیں۔"انور جلال صاحب" کا خاکہ اُن کی شخصیت کا احاطہ کرنے میں مکمل
ناکام رہا۔ اُن کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جنہیں اُجاگر کرنے کی ضرورت تھی
لیکن اس خاکے نے مکمل مایوس کیا۔"ڈاکٹر صاحب" ڈاکٹر ایوب شاہد صاحب کا
خاکہ،ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرتا دیکھائی دیتا ہے۔"ہاشمی
صاحب"کا خاکہ بھی نامکمل دیکھائی دیتا ہے۔ "ناشاد صاحب"،"طاہر صاحب"،ـ"حاجی
صاحب"،"ماما" مقدور بھر خاکہ کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔چند مختصر خاکے
مصنف کی شناسائی کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ ہمارا گھر نامی خاکہ بھی قدرے بہتر
ہے ۔ المختصر مصنف نے خاکہ نگاری کے حوالے سے اچھی کاوش کی ہے ۔مصنف کی
پہلی کتاب کے خاکے کافی اچھے تھے لیکن کتاب ھذا کے خاکے راقم کو متاثر کرنے
میں ناکام دیکھائی دیتے ہیں۔ مصنف کو چاہیے کہ وہ کسی بھی شخصیت کا احاطہ
کرتے وقت اُس شخصیت کے ظاہری حُلیے، عادات،اطوار، زبان، اظہار اور گفتار
سمیت دیگر خوبیوں کو اُجاگر کرے لیکن اگر منفیت دیکھے تو اُسے درگزر کرے
کیونکہ گولی کا زخم بھر سکتا ہے لیکن قلم کا لکھا ساری زندگی مٹائے نہیں
مٹتا۔
|