پچھلے تقریباًدو ماہ سے اترپردیش میں ’یوگی عتیق‘ کا کھیل
چل رہا تھا۔ اس کے ذریعہ تین اہم پیغامات دئیے جارہے تھے۔ پہلا یہ کہ
اترپردیش پولیس بہت دبنگ ہے ۔ دوسرا یوگی راج میں جرائم پیشہ لوگ خوفزدہ
ہیں اورتیسرے سارے مجرم مسلمان ہوتے ہیں ۔ عتیق احمد اور اشرف کے قتل نے ان
تینوں مفروضات کو زمین بوس کردیا۔ ان بھائیوں پر جس وقت گولی چلی تو اس کی
آواز سن کر اترپردیش کی نام نہاد بہادرپولیس لنڈورے چوہوں کی مانند اِدھر
اُدھر بھاگنے لگی اور یہ مناظر کیمروں کے اندر قید ہوگئے۔ عتیق احمد اور
اشرف کے علاوہ جائے واردات پر موجود نامہ نگاروں اور دیگر لوگوں کا تحفظ
بھی یوپی پولیس کی ذمہ داری تھی اور وہ سب مسلمان بھی نہیں تھے ۔ اپنے اس
فرض منصبی کی ادائیگی میں چونکہ پولیس بری طرح ناکام ہوگئی اس لیے یوگی
ادیتیہ ناتھ کو شرمسار ہو کر استعفیٰ دے دینا چاہیے لیکن ایوانِ پارلیمان
میں اپنے جان کے خطرے کی دہائی دے کر پھوٹ پھوٹ کررونے والے بزدل سیاسی
رہنما سے ایسی توقع کرنا بیکار ہے۔دوسرا مفروضہ جرائم پیشہ لوگوں کے دل میں
پولیس کی دہشت کا ہے۔ لولیش تیواری، سنی سنگھ اور ارون موریہ نامی تین دہشت
گردوں کا کھلے عام کیمروں کے سامنے گولی چلانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مجرمین
کے دل میں یوگی کا ذرہ برابر خوف نہیں ہے ورنہ وہ اس طرح کا خطرہ مول نہیں
لیتے۔
یوگی سرکار کا تیسرا سب سے خطرناک بیانیہ یہ تھا کہ قتل و غارتگری کا کام
صرف مسلمان کرتے ہیں۔ یہ بات جگ ظاہر ہوچکی ہے کہ وہ تینوں قاتل نہ صرف
ہندو بلکہ رام بھگت تھے کیونکہ قتل کے بعد نعرے لگا کر انہوں نےاپنے دیوتا
کا نام روشن کیا تھا اور آگے چل خودکش حملے کا اعتراف بھی کرلیا ۔ یہی وجہ
ہے کہ نصف شب میں یوگی ادیتیہ ناتھ کو اپنے افسران کے ساتھ حالات پرغور
کرنا پڑا کیونکہ اس سے ایک جعلی غبارے کی ہوا نکل چکی تھی۔ عتیق اور اشرف
کے قاتلوں نے اگر کسی ویران مقام پر یہ حملہ کیا ہوتا اور اس کے بعد فرار
ہوجاتے تو یوگی سرکار کے لیے بڑی آسانی ہوجاتی۔ اترپردیش کی پولیس تین بے
قصور مسلمان نوجوانوں پر اس کا الزام منڈھ دیتی۔ ان کا انکاونٹر کر کے فائل
کو بند کردیتی نیز ایک بے بنیاد خبر کو پھیلا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی
نئی مہم چھیڑ دی جاتی لیکن ان احمقوں نے یہ حرکت کیمروں کے سامنے کردی ۔ ان
ساری ویڈیوز کی موجودگی میں اب ان کو بے قصور ثابت کرنا بے حد مشکل
ہوگیاہے۔ ان کو اگر یہ خوش فہمی ہے کہ یوگی انہیں بچالیں گے تو وہ کلدیپ
سنگھ سینگر کا انجام دیکھ لیں۔ وہ بی جے پی کا رکن اسمبلی ہونے کے باوجود
جیل کی چکی پیس رہا ہے۔
اترپردیش میں وزارت داخلہ کا قلمدان چونکہ خود یوگی کے پاس ہے اس لیےپولیس
ان کے تحت کام کرتی ہے۔ عدالتی حراست کے اندر ملزم کی حفاظت انتظامیہ کی
ذمہ داری ہے۔ اس ملک میں گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو بھی پھانسی
کے پھندے پر لٹکانے سے پہلے تک تحفظ دیاگیا ہے۔ امیش پال نہ تو گاندھی سے
زیادہ اہم شخصیت ہے اورنہ عتیق احمد کا قصور ناتھو رام گوڈسے سے زیادہ
سنگین ہے ۔ اس کے باوجودگوڈسے کو قاتلوں کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ عدالت
میں حاضر کرکے مقدمہ چلایا گیا اور قرار واقعی سزا دی گئی۔ وہ قانون کی
حکمرانی تھی اور یہ جنگل راج ہے۔ ممبئی بلاسٹ کے ملزم اجمل قصاب کو پولیس
کی حفاظت میں عدالت کے سامنے پیش کرکے مقدمہ چلایا گیا۔ شواہد پیش کیے گئے
اور جرم ثابت ہونے کے بعد سزا نافذ کی گئی۔ مہذب سماج میں ماورائے قانون
پولیس کے ہاتھوں قتل یا غنڈوں کے ذریعہ عدالتی حراست میں گولیوں کا نشانہ
نہیں بنایا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یوگی اور ان کی پولیس اپنی ذمہ
داری نبھانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ وہاں موجود سارے پولیس اہلکاروں
کو معطل تو کیا جاچکا ہے مگر اس کوتاہی کی سزا بھی ہونی چاہیے۔
یوگی سرکار کی یہ پہلی بڑی ناکامی نہیں ہے ۔ جولائی 2018کے اندرباغپت کی
جیل میں مافیا ڈان منا بجرنگی کوقتل کردیا گیا تھا۔ اس ہائی پروفائل قتل کو
منابجرنگی کی بیوی سیما سنگھ نے سیاسی سازش قرار دے دیا تھا ۔ سیما نے مودی
حکومت کے ایک مرکزی وزیر منوج سنہا پر قتل کی سازش رچنے کا الزام لگاکر
سنسنی پھیلا دی تھی ۔ اپنے شوہر کے قتل کی خبر ملنے پر بیٹی اور بہن کے
ساتھ باغپت پہنچنے والی سیما سنگھ نے سابق رکن پارلیمنٹ دھننجے سنگھ اور
سابق رکن اسمبلی کرشنانند رائے کی بیوی الکا سنگھ پر بھی سنگین الزامات
عائد کیے تھے۔ اس قتل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اترپردیش کی سیاست میں صرف
سماجوادی پارٹی کے مسلمان نہیں بلکہ بی جے پی کے مافیا ڈان کرشنانند اور
دھننجئے سنگھ بھی مصروفِ عمل ہیں۔ خود سیما سنگھ بھی اپنے شوہر کے مجرمانہ
پس منظر کے باوجود مڑیہاؤ حلقہ اسمبلی سے چناؤ لڑ چکی تھی ۔
سیما سنگھ نے ریاستی حکومت، مرکزی حکومت اور انسانی حقوق کمیشن کو قتل
سےدوہفتہ قبل لکھنو میں پریس کانفرنس کرکےاس خدشے سے آگاہ کردیا تھا ۔ اس
کے باوجود یوگی سرکار اپنی جیل میں بند ایک ہندو قیدی کی حفاظت نہیں
کرپائی۔ عتیق احمد اور اشرف کی مانند منا بجرنگی کو قتل کرنے کے لیے ایک
بدنام زمانہ مجرم سنیل راٹھی کا استعمال کیا گیا۔ سوال یہ تھا کہ آخر جیل
میں پستول اور گولیاں کیسے پہنچیں؟ اس واردات کے بعد صوبہ کی یوگی حکومت نے
جیلر سمیت 4 اہلکاروں کو معطل کر کے تفتیش کاحکم دے دیا مگر آگے چل کر کیا
ہوا کوئی نہیں جانتا؟ اس واقعہ میں چونکہ مرنے اور مارنے والے دونوں ہندو
تھے اس لیے صرف مسلمانوں کے جرائم میں ملوث ہونے کی ازخود نفی ہوجاتی ہے۔
اس کے ساتھ یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوگیا تھا کہ یوگی راج میں صرف مسلمان
مجرمین مارے جاتے ہیں اورہندو مجرموں کا بال بیکا نہیں ہوتا ۔
عتیق احمد کے بیٹے اسد کا انکاونٹر اور خود ان کے بہیمانہ قتل میں دو دن کا
وقفہ تھا ۔ اس درمیان دہلی کی ہائی پروفائل تہاڑ جیل میں امیت شاہ کی پولیس
ایک قیدی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی اور بدنام زمانہ لارنس گینگ سے
وابستہ بدمعاش پرنس تیواتیا کو جمعہ کے دن تہاڑ جیل میں قتل کر دیا گیا۔
عتیق احمد کی بیجا تشہیر کے بعد جو لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں کہ
صرف مسلمان جرائم پیشہ ہوتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پرنس تواتیا پر
2010 سے قتل، ڈکیتی، اسلحہ ایکٹ اور دیگر دفعات کے تحت 16 مقدمات درج تھے۔
تاس کو 14؍اپریل کی شام تقریباً 5.10 بجے تہاڑ کی جیل نمبر 3 میں چاقو سے
وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق تیواتیا نے پہلے
عطاءالرحمٰن نامی قیدی پر حملہ کیا ۔ اس کے جوا ب میں رحمان اور تیواتیا کے
ساتھیوں کے درمیان تصادم ہوگیا ۔ بالآخر تواتیا کوموت کے گھاٹ اتار
دیاگیا۔عتیق احمد کی کہانی تو خوب نمک مرچ لگا کر ذرائع ابلاغ کی زینت
بنائی جا رہی لیکن وہی میڈیا یہ نہیں بتاتا کہ پرنس تیواتیا جنوبی دہلی کا
بدنام زمانہ گینگسٹر تھا۔ اس کی روہت چودھری سمیت کئی غنڈوں سے دشمنی تھی۔
اس سے خوفزدہ ہوکر تیواتیا نے لارنس اور ہاشم بابا گینگ سے ہاتھ ملا لیا
تھا ۔
پرنس تیواتیا کے والدسرکاری ادارہ ڈی ڈی اے سے ریٹائرڈ ہیں۔اس نے دسویں
جماعت میں پڑھائی چھوڑ کر جرائم کی دنیا میں قدم رکھااور سال 2008 میں وہ
پہلاقتل کیا اور 2010 میں دوسرا قتل کردیا۔ پرنس نے خود کو نابالغ ثابت
کرنے کے لیے جعلی دستاویزات پیش کیے اس لیے اس پر جعلسازی کا مقدمہ بھی درج
کیا گیا ۔ پولیس نے ا سے جب ہتھیاروں کا ایک بڑے ذخیرے کے ساتھ گرفتار کیا
تووہ ایک گینگ وار کو انجام دینے کے چکر میں تھا۔2019 میں اپنی شادی کے لیے
تین دن کی پیرول پر باہر آکر فرار ہوگیالیکن پھر پولیس کے ہتھے چڑھا اور
قتل ہوگیا۔ امیت شاہ کو بدنامی سے بچانے کے لیے اس خبر دبا کر سب کو عتیق
کے پیچھے لگا دیا گیا۔ 2021میں تہاڑ جیل کے اندرنریندر مینا پر انکت گجر سے
رقم وصولنے کی خاطر پٰت کر قتل کرنے کا الزام لگا ۔اسی سال ایک مسلم مجرم
پر دہلی فساد کا انتقام لینے کی خاطر دو ہندو قیدیوں کی سازش کرنے کا الزام
لگا۔گینگسٹر جتیندر جوگی کو ٹلوّ گینگ نے روہنی عدالت کےاحاطے میں قتل
کردیا۔ اس کے چند ماہ بعد ٹلو تاجپوریہ گینگ کے شیکھر رانا کے قتل کی
کامیاب سازش تہاڑ جیل میں رچی گئی۔ ان خبروں سے سیاسی فائدہ اٹھانا مقصود
نہیں تھا اس لیے انہیں اچھالا نہیں گیا۔
عتیق احمد اور اشرف کے قتل پر اسدالدین اویسی، اکھلیش یادو ، مایا وتی ،
وارث پٹھان اور پرینکا گاندھی تک مختلف رہنماوں نے یوگی انتظامیہ پر سخٹ
تنقید کی لیکن اترپردیش حکومت میں پارلیمانی امور کے وزیر سریش کھنہ نے
صحافیوں سے کہا، ”دیکھئے، جب ظلم کی انتہا ہوتی ہے یا جب جرم کا عروج ہوتا
ہے تو کچھ فیصلے آسمان سے ہوتے ہیں…۔ جب ظلم بڑھتا ہے تو قدرت سرگرم
ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے طرح سے فیصلہ دیتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سبھی کو اس
آسمانی فیصلے کو قبول کرلینا چاہئے۔‘‘یہ اصولی بات درست ہے مگر سریش کھنہ
کو معلوم ہونا چاہیے کہ قدرت زعفرانی یا سبز مظالم میں فرق نہیں کرتی ۔ فی
الحال ملک میں بی جے پی کا ظلم و جور آسمان سے باتیں کررہا ہے اور قدرت کی
لاٹھی وقت مقرر پر اس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ جیسا کہ یوگی حکومت
کے وزیر برائے آبی توانائی اور سابق ریاستی صدر سوتنتردیو سنگھ نے ایک
ٹوئٹ میں کہا، ”گناہوں اورنیکیوں کا حساب اسی جنم میں ہوتا ہے۔‘‘ تو اس
حساب و کتاب سے موجودہ حکومت کو اس جنم میں اور اس کے بعد گزرنا ہوگا اور
وہاں کوئی حربہ کام نہیں آئے گا۔
قریب ہے یارو روز محشر، چھُپے گا کُشتوں کا قتل کیونکر؟
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا
|