پاکستان ہمارا پاکستان ہمارا پاکستان کا خوبصورت نظریہ جو
دلوں کواطمیناں بخشے آنکھوں کو ڈھنڈک پہنچائے اور جو جسم کو گرمادے اور حب
الوطنی سے سرشار کردے اور جانشاروں کا لشکر پیدا کردے ہمارا پاکستان جس کے
لیے ماؤں کے جگر کے ٹکڑے بہنوں کے چہیتے بھائی۔ بیویوں کے جیون ساتھی یہ
سریلے نوجوان یہ سجیلے نوجوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں کیاہم
انھیں نظر انداز کر دیں، ان کی عظیم قربانیوں پر چشم پوشی اختیار کرلیں
ہرگز نہیں ہرگز نہیں خو ددار قوم اور غیرت مند قوم ایسا کبھی بھی نہیں
سوچتی ۔ ہمارا پاکستان کے لیے ہمارا تن ،من، دھن سب اس پر اپنی اور اپنے
بچوں کی جان قربان صرف ہمارا پاکستان ہم سب کی جان ہمارا پاکستان ہم سب کی
پہچان ہمارا پاکستان ہے، دوسری جانب یہ بے ضمیر لوگ ،احسان فراموش ،مفاد
پرست ،چند مٹھی بھر عناصر ہیں جن کا اب وقت آ چکا ہے اور یہ ضروری ہوگیا ہے
کہ ان کا قلعہ قمع ہو۔ تاکہ ہمارا پاکستان ان ظالموں امن کے دشمنوں سے
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاک ہوجائے جس کے لیے پوری مہذب قوم یک زباں ہوجائے اور
ہم فخر سے دنیا کو اپنے اسلاف سے بتائیں کہ ہاں یہ پاک دھرتی قدرت کے حسین
رنگین پھولوں کی خوشبو سے مہکتی ہوئی یہ پاک سرزمین کا یہ خوبصورت گھر جہاں
آب حیات آبشار کی بھر مار ہمارا گلشن پاکستان ہمارا پاکستان ہے اور اس کو
مزید خوبصورت بنانے کا پختہ عزم کریں ۔پاکستان کی داستان اس کے لیے کی گئی
جدو جہد اور اس کا حصول رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے رہنما رہے گی کہ کس
عظیم مشکلات سے نبرد آزما ہوا جاتا ہے، بانی پاکستان کے اقول زریں اور ان
کے فرمان کی روشنی میں سچی لگن و جستجو سے اس کارواں کو پروان چڑھائیں کہ
ہمارا پاکستان ہمارا پاکستان ہم سب کا پیارا اور ہمارا پاکستان کی پوری
دنیا میں آواز کی صدائیں گونجیں، بانی قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے چند
فرمان پیش خدمت ہیں ملاحظہ ہو بانی قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے آل انڈیا
مسلم اسٹوڈنٹ کانفرس جالندھر میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں آپ کو مصروف
عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں، کام کام بس کام۔ سکون کی خاطر صبر و برداشت
اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں ۔ قائد اعظم محمد علی
جناح ؒنے ۱۹۴۸ کو ڈھاکہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں آج
آپ پر یہ واضح کردوں کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور کوئی زبان نہیں
اگر آپ کو اس بارے میں کوئی گمراہ کرتا ہے، وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک
مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی
کام کرسکتی ہے، دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، پس جہاں تک
پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہوگی۔ قائد اعظم محمد علیؒ
دور اندیش رہنما تھے انہوں نے دو ٹوک انداز میں اردو زبان کی قومی اور
سرکاری اہمیت اور حیثیت کو سمجھا اور اس کا جائز مقام دینے اس کی افادیت کو
تسلیم کرنے کے احکامات جاری کیے انہوں نے اردو زبان کے شاندار ماضی کو بھی
خراج تحسین پیش کیا اور مستقبل میں اس زبان کے فکری اور معنوی پھیلاؤ کو
اپنی چشم تصور سے ملاحظہ کرتے ہوئے اسے پاکستان کی یگانگت ،اتحاد، اور
یکجہتی کی علامت قرار دیا۔ پاکستان ہمارا پاکستان کا خوبصورت حقیقت پر مبنی
نظریہ پاکستان کے تمام اخبارات نے ہمارا پاکستان کو نمایاں طور پر اجا گر
کیا اور اپنے اپنے قلم سے خصوصی خوبصورت اشاعت شائع کی اور اداریہ میں اپنے
اپنے خیالات سے وطن عزیز سے یکجہتی کا اظہار کیا اخبارات کے اس انداز عمل
نے پاکستان ہمارا پاکستان کی اہمیت کو دلکش بنادیا ہے جس سے محب وطن عوام
میں امید کی کرن جاگ اٹھی ہے کہ ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں ہمارا پاکستان صرف
ہمارا پاکستان ۔ معذرت کے ساتھ بے شمار اخبارات ہیں لیکن میں چند اخبارات
کا ذکر کروں گاپاکستان کے اخبارات لکھتے ہیں ملاحظہ ہو روز نامہ جنگ اپنے
اداریہ میں لکھتا ہے( عنوان) نیا پرانا نہیں ہمارا پاکستان اداریہ میں
لکھتا ہے، پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کا گزشتہ روز دہشت گردی کے
خلاف آپریشن کے حوالے سے قومی اسمبلی کے اِن کیمرہ اجلاس میں، جس میں دیگر
عسکری حکام بھی شریک تھے، یہ واضح اور دو ٹوک اعلان کہ ’’طاقت واختیار کا
محور عوام ہیں اور آئین کی رُو سے یہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے
ذریعے استعمال ہوگا‘‘عسکری قیادت کی جانب سے پارلیمنٹ کی بالادستی کی آئینی
پوزیشن کو پوری کشادہ دلی کے ساتھ قبول کیے جانے کا خوش آئند اقدام ہے جس
پر عمل ہوا تو اِن شاء اﷲ پاکستان جلد ہی مستحکم اور ترقی یافتہ جمہوری
ملکوں کی صف میں ممتاز مقام حاصل کرسکے گا۔ ہماری پون صدی پر محیط قومی
تاریخ میں اس حقیقت کو عملاً قبول نہ کیے جانے ہی کی وجہ سے آئین اور
جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کے سانحات بار بار پیش آتے رہے ہیں۔ قیام
پاکستان کے سات سال بعد ہی گورنر جنرل نے فوجی قیادت کے حمایت سے قومی
اسمبلی توڑ دی اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ نے نظریہ ضرورت کے
تحت اسے جائز قرار دے کر آئین و قانون کی پامالی کا دروازہ مستقل طور پر
کھول دیا۔ ملک کا پہلا دستور فوجی آمر کے ہاتھوں شہید ہوا۔ اسی رویے کے
باعث سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا۔ بدقسمتی سے اس کے بعد بھی ہمارے
اطوار تبدیل نہیں ہوئے اور منتخب آئینی حکومتیں پے در پے طاقتور حلقوں کی
اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھنے کی خواہش کا ہدف بنتی رہیں۔ نتیجہ یہ کہ 75
برسوں میں بھی ملک میں آئین کی بالادستی قائم ہوئی نہ جمہوریت مستحکم
ہوسکی۔ انتخابی عمل سے لے کر حکومتوں کی تشکیل اور پارلیمنٹ میں پالیسی
سازی تک سب کچھ غیرجمہوری عناصر کی جارحانہ مداخلت کا شکار رہا۔پچھلے دو
عشروں میں ان حلقوں نے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو میدانِ سیاست سے نکال
باہر کرنے اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سوچے سمجھے
منصوبے پر عمل کیا جس کی تفصیلات اب ایک کھلا راز ہیں۔جب ملک کے اندر اور
باہرخصوصاً معیشت اور امور خارجہ کے محاذوں پر اس تجربے کے انتہائی تباہ کن
نتائج سامنے آئے تو اس وقت کی عسکری قیادت کو مجبوراً سیاسی معاملات میں
غیرجانبدار ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔ تاہم اس کے بعد آئینی عمل کے ذریعے
وجود میں آنے والی موجودہ کثیر الجماعتی حکومت کو ملک جس برے حال میں ملا،
اس سے نکلنا اسی صورت میں ممکن ہے کہ تمام ریاستی ادارے عوام کی نمائندہ
پارلیمنٹ کا اختیار قانون سازی و حکمرانی پورے شرح صدر کے ساتھ قبول کریں
اور آرمی چیف نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں مذکورہ بالا اعلان کرکے اپنے
ادارے کی جانب سے اسی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ جنرل عاصم منیر نے اس امر کو
واضح کرنے کے ساتھ ساتھ کہ دہشت گردوں کے لیے ریاست کی رٹ کو تسلیم کرنے کے
علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، 1973کاآئین بنانے والوں کو خراج تحسین پیش کیا
اور پارلیمنٹ کا حق حکمرانی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ منتخب نمائندے منزل کا
تعین کریں‘پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور
ساتھ دے گی۔ انہوں نے قوم کو بالکل درست طور پر مشورہ دیا کہ ہمیں نئے اور
پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر اب ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہیے۔فی
الحقیقت یہی سوچ اور یہی جذبہ آج ہماری اولین ضرورت ہے۔ ملک کی سلامتی اور
ترقی واستحکام کا راستہ اس کے سوا کوئی نہیں کہ ریاستی ادارے اپنے آئینی
حدود میں رہتے ہوئے قومی مقاصد و اہداف کے حصول میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں،
پارلیمنٹ کے جائز مقام کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون کریں جبکہ
ارکان پارلیمنٹ بھی اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرکے اپنے اختیارات کا
جواز مہیا کریں۔ آرمی چیف کے بقول نیا یا پرانا نہیں بلکہ ہمارا پاکستان
ہماری توجہ کا منتظر ہے اور یہی سوچ ہمیں ازسرنو ایک متحد اور منظم قوم
بناسکتی ہے۔ اس کے علاوہ روزنامہ جناح اپنے اداریہ میں ہمارا پاکستان کے
حولے سے لکھتا ہے کہ یہ جملہ یقینا سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے،
روزنامہ صحافت بھی اس سلسلے میں خاص اشاعت شائع کرتا ہے، جس کا عنوان یہ ہے
نیا نہ پرانا ہمارا پاکستان ۔ |