سر سبز و شاداب خطہ پوٹھوہار میں آباد دلکش شہر اسلام
آباد میں ماہ اکتوبر کی خنک صبح تھی۔ روات کی جانب سے بلند ہوتا سورج ہوا
میں موجود خنکی اور گھاس پر چمکتی اوس کا وجود مٹانے کے درپے تھا۔ اس وقت
میں صبح کی سیر پر نکلا ہوا تھا۔ مقامی پارک میں پہنچا تو اوس میں بھیگے
اشجار، رنگ برنگے پھولوں اور چمکتی گھاس نے استقبال کیا۔ میرے علاوہ کئی
اور لوگ بھی صبح کی سیر پر نکلے تھے۔ اسلام آباد کی جس ہاؤسنگ سوسائٹی میں
میرا قیام تھا وہاں کافی حد تک وہ سہولیات زندگی میسر تھیں جو کہ یورپ،
امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کو حاصل ہیں۔
سوسائٹی کے مالکان کی اچھی کوشش ہے لیکن کچھ چیزیں ان کے بس میں نہیں تھیں۔
مثلاً اس وقت جو صاحب میرے آگے چلے جا رہے تھے، ایک گن مین ان کے آگے تھا
اور دوسرا ان کے پیچھے۔ انھیں اس حالت میں دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ میں
محاذ جنگ پر ہوں جہاں کسی وقت بھی گولہ باری کا آغاز ہو سکتا ہے۔ قریب
پہنچا تووہ صاحب مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ میں نے بھی مسکرا کر اور گن مینوں
کی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔ ”آپ ان کی بھی ورزش کرا رہے ہیں“ اس دوران ہم
ساتھ ساتھ چلنے لگے ”فرمانے لگے“ ان کو اس کام کی تنخواہ ملتی ہے ”“ وہ تو
ٹھیک ہے لیکن اس محفوظ مقام پر ان کی کیا ضرورت ہے ”وہ صاحب فوراً بولے“
لگتا ہے آپ بیرون ملک سے تشریف لائے ہیں ”“ جی آپ کا اندازہ درست ہے میں
آسٹریلیا سے آیا ہوں لیکن میں یہیں پیدا ہوا ہوں ”وہ تاسف سے بولے“ وہ
زمانہ اور تھا اب تو کوئی ضمانت نہیں کہ آپ گھر سے نکلیں تو خیریت سے لوٹ
بھی آئیں ”۔
سامنے ٹک شاپ تھی میں وہاں سے لسی کی ایک بوتل خرید کر پیتا تھا۔ ان صاحب
کو بھی مشروب کی آفر کی تو وہ میرے ساتھ چلے آئے۔ دکان کے سامنے رکھی
کرسیوں پر بیٹھ کر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا جس سے علم ہوا۔“ ان کا نام علیم
الدین ہے اور پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ علیم الدین نوجوانی میں ڈاکٹری کی
ڈگری لینے امریکہ گئے لیکن ڈگری حاصل کرنے بعد واپس نہیں لوٹے اور امریکہ
کے ہو کر رہ گئے۔ میڈیکل پریکٹس کے ساتھ وہ مزید پیشہ ورانہ کورسز بھی کرتے
رہے حتی کہ وہ کڈنی کے سپیشلسٹ بن گئے۔
امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں ڈاکٹر بے تحاشا کماتے ہیں اور اگر وہ
کسی شعبہ طب کے ماہر خصوصی ( سپیشلسٹ) بن جائیں تو پھر تو جیسے ہن برسنے
لگتا ہے ایک ایک مریض دیکھنے کی فیس دو سو سے پانچ سو ڈالر تک ہے جو مزدور
پیشہ پورے دن میں نہیں کما سکتا۔ علیم الدین ڈاکٹر ہونے کے ساتھ میڈیکل
سنٹر کے مالک بھی تھے اور انھوں نے کئی ڈاکٹر اور دیگر عملہ ملازمت پر رکھا
ہوا تھا۔ یوں علیم الدین نے اتنی دولت کمائی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ انھوں
نے محسوس کیا کہ ان کے پاس اتنی دولت آ چکی ہے جو ان کی ضرورت سے کہیں زائد
ہے۔
ویسے بھی انھوں نے جو خواب دیکھا تھا وہ کب کا شرمندہ تعبیر ہو چکا تھا۔
انھوں نے سوچا کہ جس مٹی نے مجھے جنم دے کر پروان چڑھایا اور مجھے اس قابل
بنایا اب اسے لوٹانے کا وقت آ گیا ہے۔ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو
آخری سانس تک دولت کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور ایسے بھی ہیں کہ ایک وقت
دولت سے ان جی بھر جاتا ہے اور وہ اس سے دور بھاگنے لگتے ہیں وہ الگ بات ہے
کہ قدرت پھر بھی انھیں نوازتی رہتی ہے۔ علیم الدین جب فیصلہ کر لیا تو عمل
میں دیر نہیں لگائی۔
انھوں نے سب سے پہلے اپنی تمام دولت وطن منتقل کی۔ اسلام آباد میں گھر
خریدا اور سب سے بڑا اور کشتیاں جلانے والا فیصلہ یہ کیا کہ امریکہ کی اپنی
شہریت بھی منسوخ کر دی تاکہ مشکلات سے گھبرا کر واپس جانے کے بارے میں نہ
سوچ سکیں۔ علیم الدین کی بیوی اور بیٹی نے بھی اس بڑے فیصلے میں ان کا
بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی اکلوتی اولاد یعنی ان کی بیٹی باپ کے ساتھ مل کر
خدمت خلق کرنا چاہتی تھی۔ علیم الدین اگرچہ عزیز و اقارب اور دیگر ضرورت
مندوں کی مدد کرتے رہتے تھے لیکن ان کے جھانسے میں آنے سے بچنے کی بھی کوشش
کرتے کیونکہ وہ روز نت نئی کہانیاں لے ان کے پاس آ جاتے جو اکثر غلط بیانی
پر مبنی ہوتیں۔
اس سلسلے میں علیم الدین کا چھوٹا بھائی ان کو ضروری معلومات فراہم کر کے
ان کی مدد کرتا تھا۔ علیم الدین کو بھائی سے بہت محبت تھی۔ بھائی اور اس کی
فیملی کی نگہداشت ڈاکٹر علیم نے ہی کی تھی۔ پاکستان منتقل ہوئے دو ماہ ہوئے
تھے اور ڈاکٹر علیم نواحی قصبے ٹیکسلا میں ایک ایسا میڈیکل سنٹر بنانے میں
مصروف تھا جہاں علاقے کے غریب مریضوں کا مفت علاج کر سکے۔ سب کچھ اچھا جا
رہا تھا کہ اچانک ڈاکٹر علیم الدین کے گھرانے پر جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
ان کی بیٹی کو ٹیکسلا سے اسلام آباد جاتے ہوئے اغوا کر لیا گیا۔ اکلوتی
اولاد اور وہ بھی جوان بیٹی کے اغوا سے علیم الدین کے ہوش اڑ گئے۔ ایسے لگا
جیسے کوئی کلیجہ نکال کر لے گیا ہو۔ اسے بیٹی سے زیادہ کوئی شے عزیز نہیں
تھی وہ اسے جان سے بھی پیاری تھی۔ ادھر اس کی بیوی پر تو غشی کے دورے پڑ
رہے تھے۔ علیم الدین نے بھائی کے علاوہ کسی اور کو نہیں بتایا۔ بھائی بھی
اس صدمے سے نڈھال تھا۔ اغوا کنندگان نے بیٹی کے بدلے میں دو کروڑ روپوں کا
مطالبہ کیا تھا۔
رقم کی ادائیگی میں ناکامی یا پولیس کو ملوث کرنے کی صورت میں لڑکی کو جان
سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا
لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ صدمہ اپنی جگہ پہ اور بیٹی کی فکر سے دل ہولے
جا رہے تھے۔ اتنی بڑی رقم کا اور وہ بھی کیش کی صورت میں انتظام آسان نہیں
تھا لیکن بیٹی کی جان بچانے کے لیے کسی نہ کسی طرح علیم الدین نے رقم کا
بندو بست کر لیا۔ اپنی محنت کی ساری کمائی اس نے اغوا کنندگان کے حوالے کر
دی۔
جو پیسہ اس نے لاکھوں لوگوں کی فلاح کے لیے رکھا تھا وہ ایک ظالم لوٹ کر لے
گیا۔ بیٹی واپس آ گئی ماں باپ کی اٹکی جان بھی لوٹ آئی۔ لیکن ابھی ایک اور
صدمہ ان کا منتظر تھا۔ بیٹی نے بتایا کہ یہ اغوا اس کے چچا نے کروایا تھا۔
دراصل اس نے اغوا کنندگان کو فون پر بات کرتے سن لیا تھا۔ پہلے تو علیم
الدین کو یقین نہیں آیا۔ اس نے بھائی سے بات کی۔ آغاز میں وہ انکار کرتا
رہا۔ جب بات بڑھی تو نہ صرف وہ مان گیا بلکہ اس نے کھلی دھمکی دے دی۔
”اگر میرا نام لیا تو پہلے تو کوئی یقین نہیں کرے گا اگر کسی نے ایکشن لینے
کی کوشش بھی کی تو ان دو کروڑ میں سے کچھ رقم دے کر ان کا منہ بند کرنا
میرے لیے مشکل نہیں ہو گا لیکن ایسی صورت میں میں تم تینوں کو زندہ نہیں
چھوڑوں گا۔“ ڈاکٹر علیم الدین بھائی کا یہ روپ دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اسے
یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس بھائی کو اس نے پالا تھا اور جو اسے اولاد کی
طرح عزیز تھا وہ اس کے ساتھ یہ سلوک کر سکتا۔ اتنا بڑا دھوکا، اعتماد سے
ایسا کھلواڑ اور اتنے قریبی رشتے اور محبت کا ایسا خون کہ انسانیت سے بھی
اعتبار اٹھ جائے۔
ڈاکٹر علیم کو بیٹی کے اغوا سے جتنا صدمہ ہوا تھا اس سے زیادہ بھائی کے
دھوکے اور ظلم سے ہوا تھا۔ اس کا رشتوں پر سے ایمان اٹھ گیا تھا۔ اس کی جمع
پونجی لٹ گئی تھی لیکن اسے زیادہ پرواہ نہیں تھی کیونکہ دولت اس کی نظر میں
اتنی وقعت نہیں تھی۔ لیکن اپنی اور اہل خانہ کی جان کو خطرے میں دیکھ کر اس
کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ لہذا اس نے محافظوں کی خدمات حاصل کر لیں جن کے
بغیر وہ گھر سے باہر نہیں نکلتے ہیں۔ ڈاکٹر علیم جس ملک میں خدمت کے جذبے
سے آیا تھا آج وہاں سہمے ہوئے قیدی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔
|