محسن نقوی اور انجم ضیا امید کی کرن

دنیا ترقی کا سفر کررہی ہے ایک کے بعد ایک نئی ایجادات ہو رہی ہیں ہم نے بچپن سے لیکر اب تک کے سفر میں دنیاکو اتنا تبدیل ہوتے دیکھا کہ جو اب گلوبل ویلج کے طور پر ہمارے ہاتھوں میں سما گئی ہے آج سے 40سال قبل جو حالت ہم دیکھ چکے وہ راشن کارڈ پر آٹا اور چینی لینے کا دور تھا لائنیں اس وقت بھی لگتی تھیں جنکا تسلسل ابھی بھی ہے ہم نے دنیا کو تو بدلتے ہوئے دیکھ لیا مگر خود کو نہیں بدل سکے شائد اسکی وجہ یہ تھی کہ ہم نے اپنا تمام وقت ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں ہی لگا دیاصرف انہی کے کام ہوئے جنہوں نے فائلوں کے نیچے پہیے لگائے یا جسکا کوئی نہ کوئی رشتہ دار اعلی عہدے پر تھا باقی رہی بات میرٹ کی اسکی دھجیاں ایسے آڑائی جیسے جنگ میں دشمنوں کی آڑائی جاتی ہیں آج ہم ہر میدان میں پیچھے ہیں یہاں تک کہ ایک اخبار کے ڈیکلریشن کے لیے بھی انسان کو کم از کم 12سال کا چلہ کاٹنا پڑتا ہے اور اگر خدا نخواستہ کسی شخص نے ایمانداری سے پاکستان کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرلیا تو اسے ہمارے اداروں میں بیٹھے ہوئے فرعون نما شخص اتنا رولتے ہیں کہ وہ آدمی ملک چھوڑ جاتا ہے یا پھر دنیا لیکن اسکے مقابلے میں اگر کسی انپڑھ ،جاہل اور کرپٹ شخص نے کوئی غیر قانونی کام کرنا ہو تو پھر سبھی ادارے اسکی ایسے سپورٹ کرتے ہیں جیسے وہ ہی انکا سربراہ ہو بلا شبہ ہوتا بھی یہی ہے کیونکہ انکی ہر جائز اور ناجائز ضرورت پوری کرنا انہی لوگوں کا کام ہے دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو پاکستان اور پاکستانیوں سے پیار کرتے ہیں ان میں ایک انجم ضیا ٹونی بھی ہیں جو انگلینڈ میں بیٹھ کر پاکستانیوں کو قرضے حسنہ دیکر انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کسی کا کوئی کام رکتا نہیں اور ہمارے ہاں کسی کا کوئی کام ہوتا نہیں پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی جس تیزی سے پنجاب کے لوگوں کی خدمت کررہے ہیں وہ بھی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیگی ابھی بہت سے ایسے کاروباری افراد کی مشکلات کو ختم کردیا جو عرصہ کئی سالوں سے پیٹرول پمپ لگانا چاہتے تھے مگر حکومت انہیں این او سی نہیں دے رہی تھی جبکہ انکے مقابلے میں زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کے لیے فورا این او سی جاری کردیا جاتا تھا اور اب وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے 1264ایسے پیٹرول پمپس کے این او سی جاری کرنے کا حکم دیا ہے جو ہماری بیوروکریسی کے روایتی سست روی کا شکار ہوچکے تھے نئے پٹرول پمپس لگنے سے نوجوانوں کے لیے ملازمت کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے ہر پٹرول پمپ پر اوسطا 30 سے 35 لوگوں کو روزگار ملے گا۔1200 سے زائد پٹرول پمپس کو این او سیز ملنے سے 30 ہزار سے زائد لوگ برسر روزگار ہوں گے اورملک میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا سب سے بڑھ کر جن دور دراز علاقوں میں پیٹرول پمپ نہ ہونے کی وجہ سے دکاندار کھلا اور غیر معیاری پیٹرول بیچتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہوگی جو ملاوٹ زدہ اور کم مقدار میں پیٹرول فروخت کررہے ہیں اگر دیکھا جائے تو ایک صدی قبل انسان کی ضروریات صرف اس کے کھانے پینے اور آمد و فت کے لئے حیوانی ذرائع باربرداری تک محدود تھے متمول طبقے نے اپنے گھوڑے تانگے رکھے ہوئے تھے یہی اس وقت کا سٹیٹس سمبل تھے عوام عوامی تانگوں ریڑھوں پر سفر کرتے وقت بدلتا گیا گھوڑے کی سواری کی جگہ سائیکل نے لے لی تانگوں کی جگہ گاڑیوں نے لے لی زندگی میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آتی گئی پنجاب میں عام لوگوں کے پاس سائیکل ہی ہوتا تھا جس کے لئے کسی قسم کے فیول کی ضرورت نہیں پڑتی موٹرسائیکل بھی ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کے پاس ہوتاکاریں توانتہائی متمول کاروباری طبقے یا بڑے زمینداروں کے پاس ہوتی تھی اس وجہ سے ملک میں ایندھن کی ضرورت بہت ہی کم ہوتی تھی2014 میں ملک میں ایندھن کی طلب میں ساڑھے چار لاکھ بیرل یومیہ تھی جو اب بڑھ کر تقریباًچھ لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سائیکل بالکل کم استعمال ہوتا ہے موٹر سائیکل ہر گھر کے ہر فرد کے پاس ہے، پھر بھی پیٹرولیم مصنوعات کی تقریباً40فیصد حصہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے۔اس وقت ہمارے ملک میں آمد و رفت کے لئے پیٹرولیم مصنوعات سے چلنے والی گاڑیوں کا ہی استعمال ہورہا شہروں کی نسبت دیہات میں پیٹرول پمپس کی تعداد بہت کم ہے دور دراز دیہات میں تو کئی کلو میٹر تک پیڑول پمپ کی سہولت کی میسر نہیں اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعلی پنجاب کا یہ ایک اچھا فیصلہ ہے کہ عرصہ دراز سے التوا کا شکارپیٹرول پمپ لگانے والوں کی فائلوں پر اب این او سی جاری کردیا جائے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ چل سکے میں اوپر انجم ضیا ٹونی کا ذکر کیا تھا جو پاکستان سے باہر بیٹھ کر پاکستانیوں کی بے لوث اور بے مثال خدمت کررہے ہیں انکے قرضہ حسنہ سے سینکڑوں پاکستانی آج اپنا کام کرکے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں اگر ہم سب بھی انجم ضیا کے ساتھ ملکر انکے کام میں انکا ساتھ دیں تو یہاں کا ہر شہری سکون سے اپنا روزگار کما سکتا ہے ایک ایسے ہی کاروباری کا خط بھی شامل کررہا ہوں جنہوں نے قرضہ حسنہ سے اپنا کام شروع کیا باقی آپ کو انکی تحریر پڑھ کر اندازہ ہو جائیگا ۔اسلام علیکم کے بعد عرض ہے میرا نام سید افتاب گیلانی ہے میں ضلع شیخوپورہ کا رہائشی اور اشٹام فروش ہوں آج سے ڈیڑھ سال پہلے میرے مالی حالات بری طرح خراب ہو گے کاروبار تباہ ہو گیا نوبت گھر میں فاقوں تک پہنچ گی بجلی سوئی گیس بلز مکان کا کرایہ دینا مشکل ہو گیا میرے دو بچے ہیں مجھ پر بہت برا وقت تھا اپنے جاننے والوں سے مدد کی اپیل کی لیکن کسی نے میری مدد نہیں کی تقریبا سبھی عزیز،رشتہ دار اور دوست بے غرض بے حس لوگ ثابت ہوئے میرے برے ترین حالات میں اﷲ کے نیک بندے نیک والدین کے نیک بیٹے انجم ضیا صاحب نے مجھے ایک لاکھ روپیہ بطور قرضہ بغیر کسی سود کے دیا اﷲ ان کا بھلا کرے اﷲ ضیا صاحب اور ان کے تمام گھر والوں کو سدا سلامت رکھے امین میرے اوپر جو قرضہ تھا وہ میں نے اتارا باقی پیسوں کے اشٹام خرید لیے اور میں نے اﷲ کا نام لے کر کاروبار شروع کیا پھر اﷲ کے فضل سے میرے حالات ٹھیک ہونا شروع ہو گے اﷲ کا شکر ہے اب میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور باقاعدگی سے قرضہ حسنہ کی قسطیں بھی ادا کر رہاہوں لیکن مجھے ایک چیز کا بڑا افسوس ہے کہ جن لوگوں نے انجم ضیا سے قرضہ حسنہ لیا اور پھر واپس نہیں کیا انہوں نے ہم غریب پاکستانیوں سے زیادتی ہے خدارا کسی کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیں آج اگر میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہوں تو پورا پاکستان کیوں نہیں ؟آج جس طرح محسن نقوی پنجاب کے لوگوں کی امیدوں کا مرکز ہے بلکل اسی طرح انجم ضیاء بھی پاکستان کے لوگوں کے لیے امید کی کرن ہے۔

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 509978 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.