رمضان المبارک کے الوادعی ایام ہیں اور عید کی آمد آمد ہے
۔ایسے میں بھکاریوں کی فوج ظفر موج میدان میں کود پڑی ہے۔دفتر ہو یا گھر،
مسجد ہو یا چوک، بس سٹاپ ہو یا شاپنگ سنٹر بازار ہو یا دوکان صبح سے شام تک
ہر طرف آپ کو بھکاری بھیک مانگتے نظر آہیں گے۔اس میں کوئی شک و شبہ کی
گنجائش نہیں ہے کہ اسلام میں صدقہ و خیرات کی بہت اہمیت ہے۔مصائب و مشکلات
کے خاتمے کے لیے صدقہ و خیرات تیرِ بہدف کا کام کرتا ہے مگر اسلام میں بھیک
مانگنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے۔بھیک مانگنا بہت بُری بات ہے۔اﷲ
تعالیٰ نے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے منع فرمایا ہے۔حضوراکرمﷺ نے بھی
مانگنے کو نا پسند کیا ہے اور محنت کی کمائی سے گُزر بسر کا درس دیا ہے۔
حضرت محمدﷺ نے محنت کر کے روزی کمانے والے سے ہمیشہ محبت اور مہربانی کا
سلوک کیا ہے۔ایک صحابی کے ہاتھ پر پھاوڑا چلاتے چلاتے گٹے پڑ گئے تھے۔آپﷺ
نے اس صحابی کا ہاتھ محبت سے چوم لیا۔آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’اﷲ اس بندے
کو اپنا دوست رکھتا ہے جو صرف اس لیے محنت کرتا ہے کہ وہ مانگنے سے بے نیاز
رہے‘‘ حضرت محمدﷺ بے حد سخی تھے مگر جب کوئی صحت مند اور درست ہاتھ پاؤں
والا سوال کرتا تو آپﷺ کو بھیک مانگنا بے حد نا گوار گزرتا تھا۔حجتہ الوداع
کے موقع پر رسول کریم ﷺ صدقے کا مال تقسیم فرما رہے تھے۔آپ ﷺ نے دو صحت مند
افراد کو قطار میں دیکھا۔آپ ﷺ نے ان سے فرمایا’’تم چاہو تو میں اس میں سے
تم کو بھی دے سکتا ہوں لیکن جو لوگ تندرست ہیں اور محنت کر کے روزی کما
سکتے ہیں، ان کا اس مال میں کوئی حصہ نہیں ہے‘‘ ایک دفعہ ایک انصاری آپﷺ کے
پاس آئے اور مدد کی درخواست کی۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا’’تمھارے پاس کیا ہے؟‘‘
انھوں نے عرض کیا’’پانی پینے کا پیالہ اور ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ بچھا
لیتا ہوں اور کچھ اوڑھ لیتا ہوں‘‘آپﷺ نے انصاری سے دونوں چیزیں منگوائیں
اور مجلس میں موجود لوگوں سے ارشاد فرمایا’’یہ چیزیں کون خریدے گا‘‘؟ ایک
صحابی چار درہم دینے کو تیار ہو گئے۔ آپﷺ نے وہ چیزیں دو درہم میں ان کے
حوالے کیں اور رقم انصاری کو دے کر فرمایا’’ایک درہم کا کھانا خرید کر گھر
دے دو۔ باقی رقم سے کلھاڑا اور رسی خریدو اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر
میں بیچ کر آیا کرو‘‘ پندرہ دن بعد انصاری کے پاس بیس درہم جمع ہو چکے
تھے۔اس رقم سے انھوں نے کچھ کا غلہ اور کچھ کا کپڑا خریدا۔ خدمت اقدس میں
حاضر ہوئے تو رسول اکرمﷺ نے خوش ہو کر فرمایا’’تمھاری یہ حالت اچھی ہے یا
وہ جب قیامت میں تم چہرے پر گدائی کا داغ لے کر جاتے‘‘َ۔ رسول کریمﷺ خود
بھی محنت کر کے روزی کماتے تھے۔محنت سے کام کرنے میں آپﷺ نے کبھی عار محسوس
نہ کی۔آپ ﷺ شروع میں لوگوں کی بھیڑ بکریاں معاوضے پر چرایا کرتے تھے۔آپ ﷺ
کو تجارت کا پیشہ پسند تھا چنانچہ روزی کمانے کے لیے اس پیشے میں بھی محنت
اور دیانت داری سے کام لے کر روشن مثال قائم کی۔آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ خود
کنوئیں سے پانی لاتیں۔اناج پیستیں اور گھر میں جھاڑو دیتی تھیں۔صحابہ کرام
بھی محنت سے لوگوں کی خدمت میں کوئی جھجھک محسوس نہ کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر
صدیق خلیفہ ہوتے ہوئے بھی نہ صرف اپنا کام کرتے بلکہ بیوہ عورتوں اور بوڑھے
ہمسایوں کے کام کاج بھی کر دیا کرتے تھے۔ حضرت عمرفاروق لوگوں کا حال جاننے
کے لیے رات کو گشت کرتے اور محنت کر کے ضرورت مندوں کی خدمت کیا کرتے تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صدقہ و خیرات ضرور کریں مگر پیشہ ور بھکاریوں کی
بجائے سفید پوش افراد کی مدد کریں جو چمٹ چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور اپنی
سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے معاشی تنگدستی کو خندہ پیشانی سے برداشت
کرتے ہیں ارشاد نبویؐ ہے: ’’جس نے لوگوں سے ان کا مال زیادہ جمع کرنے کی
نیت سے مانگا وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے، چاہے کم مانگے یا زیادہ۔‘‘(مسلم
شریف)دوسری روایت میں ہے کہ صحیح الاعضاء کے لیے مانگنا جائز نہیں۔ (ترمذی)مانگنا
ایسے شخص ہی کے لیے جائز ہے جو کنگال و فقیر ہو یا سخت پریشان حال و مقروض
ہو، جو لوگ ان حالات کے بغیر مانگتے ہیں ان کے منہ پر روز ِقیامت گوشت کی
ایک بوٹی بھی نہ ہوگی، سارا چہرہ زخموں سے بھرا ہوگا۔‘‘ (بخاری و مسلم)سہیل
بن حنظلہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے سوال کیا
اور اس کے پاس اس قدر مال ہے جواس کو غنی کر دے تو وہ اس سوال کے ذریعے آگ
کی کثرت طلب کر رہا ہے۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ غنا کی حد کیا ہے کہ جس
کے ہوتے ہوئے سوال کرنا جائز نہیں؟آپؐ نے فرمایا: ’’اس قدر جو اس کے لیے
صبح و شام کی غذا کا کام دے سکے۔‘‘ایک اور روایت میں ہے کہ: ’’ایک دن یا
ایک رات اور ایک دن پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہو۔‘‘ (ابوداؤد)ایک مرتبہ نبی
کریمؐ نے ارشاد فرمایا: کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے
کبھی کوئی سوال نہیں کرے گا، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبان
ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: ’’میں ضمانت دیتا ہوں‘‘ اس کے بعد حضرت ثوبان ؓ
کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے۔ (ابوداؤد،
نسائی)یاد رکھیے اسلام میں بھیک مانگنا منع ہے۔ اسلام ہاتھ پھیلانے کی
اجازت نہیں دیتا، وہ محنت مزدوری کر کے کمانے کھانے پر زور دیتا ہے، دوسروں
کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اجازت بہ درجہ مجبوری ہے۔ اسلام میں پیشہ
ورانہ بھیک مانگنے اور اسے اپنا خاندانی حق سمجھنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔
|