ظریفانہ: للن کی شرارت،کلن کی حماقت اور جمن کی صحافت

للن نے جمن سے پوچھا یار یہ بتاو کہ تم بن ٹھن کر کہاں جارہے ہو؟
جمن بولا یار تم تو جانتے ہو میں کرائم رپوٹر ہوں اورا ب میں نئے نویلے دھرم ویروں کےاہل خانہ کا حال احوال معلوم کرنے کے لیے جارہا ہوں ۔
کلن سمجھ گیا اورخوش ہوکر سوال کیا بہت خوب ۔ اچھا تو کیا تم عتیق احمد و اشرف کے قاتلوں سے ملنے کے لیے جیل میں جارہے ہو؟
للن نے ہنس کربولا اس احمق کی سنو ۔ ارے بھائی کلن ان بدمعاشوں کے خاندان والے جیل میں تھوڑی نا ہیں ؟
کلن نے کہا دیکھو للن تم مجھے جو چاہو بولو لیکن ان دھرم رکشکوں کو بدمعاش مت کہنا مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے؟
للن نے کہا ہوتی ہے تو اپنی بلا سے ۔ ان لوگوں نے کھلے عام قتل کیا اور اس کے بعد جئے شری رام کا نعرہ لگا دیا تو کیا سارے پاپ دھل گئے؟
جمن بولا اچھا مجھے اجازت د و بہت ٹائم پاس ہوگیا ۔
للن نے کہا یارتم مجھے اجازت دو تومیں بھی ساتھ چلنا چاہتا ہوں۔
جمن بولااس میں اجازت کی کیا بات ہے۔ ساتھ رہے گا تو میرا وقت بھی اچھا گزرے گا۔ بھائی کلن تم بھی چلے چلو۔
کلن نے کہا یار ان کے گھر والوں سے ہمارا کیا لینا دینا؟ ہاں ان سے ملنے کے لیے جب جیل جانا تو مجھے ضرور یاد کرنا ۔
للن بولا یہی ہے تمہارا ہندوتو کہ قاتلوں سے تو ہمدردی لیکن ان کے اہل خانہ سے کوئی سروکار نہیں ؟ یار خود غرضی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے؟
کلن نے کہا تم تو ان کے ایک نمبر کے دشمن ہو تمہاری ان کے گھر والوں سے کیسی خیر خواہی ؟
جی ہاں میں ان کا ہمدرد نہیں ہوں مگر ان کے جیل چلے جانے سے اگر بے قصور گھر والے مشکل میں ہوں تو ان کی مدد کرنا میرا فرض ہے۔
جمن نے کہا یار للن میں تمہاری انسانیت کو سلام کرتا ہوں ۔ اس کو چھوڑو ہم دونوں ساتھ میں چلتے ہیں۔ چینل کی گاڑی انتظار کررہی اب چلے چلتے ہیں۔
کلن بولا یار ویسے بھی میرے پاس آج کوئی کام نہیں ہے اس لیے میں بھی چلتا ہوں لیکن رات تک لوٹ آئیں گے نا؟
جمن بولا کوشش تو کریں گے لیکن پھر بھی تاخیر ہوسکتی ہے۔ دو دن بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق دور دراز کے ضلعوں سے ہے۔
کلن نے کہا کوئی بات نہیں چلے گا میں بھی جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کیسے عظیم والدین ہیں جنھوں نے ایسے دھرم ویر ہندوتوا کودئیے ۔
للن بولا جمن مجھے تعجب ہے اتنی نوعمری یہ لوگ کیسے جرائم کی دنیا میں چلے گئے اور میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ وہ سب غریب گھر سے آتے ہیں ۔
کلن نے کہا یہ نہیں ہوسکتا۔ وہ لوگ اگر غریب ہیں تو ان کو سات لاکھ کی پستول کیسے مل گئی؟ اور قتل سے پہلے وہ شاندار ہوٹل میں کیسے ٹھہرے؟
جمن نے کہا بھائی یہی پتہ لگانے کے لیے ہمارے چینل نے مجھے ان کے گھروں پر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے؟
کلن نے پوچھا لیکن تمہارے چینل والوں کو اس میں دلچسپی کیوں ہے؟ کیا وہ رام راجیہ کا حامی ہے؟
جمن نے کہا نہیں ہمارے مدیر کو شک ہے کہ کوئی چھپا رستم انہیں مہروں کے طور استعمال کررہا ہے۔ وہ اس کا انکشاف کرکے بریکنگ نیوز بنانا چاہتا ہے۔
للن نے کہا عام لوگ تو یہی سوچ رہے ہیں کہ ان کے پیچھے سرکار کا ہاتھ ہے۔
جی ہاں لیکن ہمارا مدیر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کا خیال میں سرکار کو اگر یہ قتل کرنا ہوتا انکاونٹر کردیتی ۔ کسی کو سپاری دینے کی کیا ضرورت؟
کلن بولا جی ہاں اگر کوئی کام مفت میں ہوتا ہو تو انسان خطرہ کیوں مول لے کیونکہ تم جیسے کسی صحافی نے راز فاش کردیا تو لینے کے دینے پڑجائیں ۔
للن نے تائید کی ہاں یار اگر انکاونٹر ہوجاتا تونہ معاملہ سپریم کورٹ جاتا اور نہ حقوق انسانی کا کمیشن بیچ میں آتا۔ اس کے پیچھے ضرور کوئی سوتر دھار ہے۔
ان تینوں کا قافلہ سب سے پہلے الہ باد سے ڈھائی سو کلومیٹر دور حمیر پور کے کرارہ گاوں میں پہنچا ۔ سنی سنگھ وہیں کا رہنے والا تھا ۔
وہاں پولیس کا زبردست پہرا دیکھ کر کلن ڈر گیا ۔ وہ بولا یار جمن مرواوگے کیا ؟ یہاں سے بھاگ چلو۔
جمن بولا کیوں بھاگ چلیں ؟ ہم نے کوئی قتل کیا ہے کیا؟ ہم صحافی ہیں اپنا کام کرنے آئے ہیں؟؟
کلن بولا بھائی ہم تو صحافی نہیں ہیں اس لیے پولیس نے اگر ہمیں دھر لیا تو بے موت مارے جائیں گے۔ مہاراج کی یہ پولیس کچھ بھی کرسکتی ہے؟
للن کو موقع مل گیا ۔ اس نے کہا یہی رام راجیہ ہے جس میں تم جیسا رام بھگت تھر تھرکانپ رہا ہے تو عام لوگوں کا کیا حال ہوگا؟
کلن بولا قانون کا ڈر تو ضروری ہے ورنہ غنڈے بدمعاش شتر بے مہا ر بن جاتے ہیں۔
للن بولا لیکن تم کون سے غنڈے بدمعاش ہو ؟ اور تمہارے مہاراج جیسے نہ جانے کتنے شتر بے مہار بے دھڑک گھوم رہے ہیں ۔
اس بیچ جمن نے ایک پولیس والے سے کہا بھائی مجھے سنی سنگھ کے بھائی پنٹو سنگھ سے ملوا دو بہت دور سے آئے ہیں ۔
حوالداربولا ہمیں اس کی اجازت نہیں ہیں ۔ ان لوگوں کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
جمن نے پوچھا کیوں پولیس حراست میں موجود عتیق احمد اور اشرف کا تحفظ تمہاری ذمہ داری نہیں تھی؟
حوالدار بولا جی ہاں اس فرض کی ادائیگی میں ناکامی کی وجہ سے ہی تو یہ پہرے داری کرنی پڑ رہی ہے ورنہ ان مسکین لوگوں کو کون پوچھتا؟
للن بیچ میں بول پڑا بھیا اب اتنی دور سے آئے ہیں تو خالی کیسے جائیں؟ کچھ لے دے کر ملوا دو ۔
حوالدار راضی ہوگیا اور پنٹو سنگھ کو آواز لگا کر بو لا دیکھو بھیا فوٹو یا ویڈیو مت بنانا ورنہ میری نوکری خطرے میں پڑجائے گی۔
پنٹو کو آتا دیکھ کر کلن کی شردھا جاگ گئی اس نے فوراً سوال کیا بھیا اپنے دلیر بھائی کے بارے میں تم کیا کہنا چاہتے ہو؟
پنٹو بولا میں روز روز یہ کہہ کر تھک گیا ہوں کہ اس سے ہمارا کوئی ناطہ نہیں ہے۔ بہت سال پہلے ہمارا رشتہ ختم ہوگیا تھا۔وہ بچپن میں بھاگ گیا تھا۔
للن بولا لیکن خون کا رشتہ کہیں ختم ہوتا ہے؟ کیا تم لوگوں نے اسے ڈھونڈا نہیں؟
پنٹو بولا کچھ دن تلاش کیا پھر چھوڑ دیا۔ ہم روز کمانے کھانے والےلوگ ہیں۔ میری چائے کی دوکان تھی وہ بھی اب بند ہے۔
للن نے پوچھا تو گھر کیسے چلتا ہے میرا مطلب ہے چولہا کیسے جلتا ہےْ
پنٹو بولا پولیس کہیں آنے جانے نہیں دیتی جو کھانے دیتی ہے وہی کھا پی کے سوجاتے ہیں۔
جمن نے پوچھا عتیق احمد کے قتل میں اس کے شامل ہونے کا پتہ کیسے چلا؟
پنٹو بولا ٹی وی پر معلوم ہوگیا ۔ رات تین بجے پولیس نے آکر تینوں گلیوں پر پہرا لگا دیا۔
کلن نے سوال کیا کیوں تم لوگوں نے سنی سنگھ کی کوئی خیر خبر نہیں لی ۔
ڈرا سہما پنٹو بگڑ کر بولا میں نے کہا نا اب اس کا کچھ بھی ہو، ہمیں کوئی مطلب نہیں پھر بھی آپ ہمیں بلا وجہ اس میں گھسیٹ رہے ہیں ۔
جمن کے ہاتھ کوئی سراغ نہیں لگا تو اس نے اِدھر اُدھر دیکھا ، ایک خاتون نظر آئی ۔ اس نے پوچھا آپ سنی کی بہن تو نہیں ۔
وہ بولی آپ کو کس نے بتایا ؟
جمن گھبرا کر بولا بس یونہی چہرے کی مشابہت کے سبب پوچھ لیا ۔
جی ہاں میں اس بدنصیب کی بڑی بہن سریتا ہوں ۔ وہ بچپن سے شریر تھا اور شکشا نکیتن میں پڑھتا تھا ۔ پتاجی کی موت کے بعد وہ غلط صحبت میں پڑ کر بگڑ گیا
کلن نے پوچھا بگڑ گیا کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ گھر سے کئی دنوں تک غائب ہوجاتا اور واپس آکر ماں سے پیسے مانگتا۔ اس سے پریشان ہوکرہماری بیوہ ماں اپنے میکے چلی گئی۔
للن نے کہا دیکھا کلن یہ ہےتمہارے دھر ویر کا چال ، چرتر اور چہرا ؟
اس سے پہلے کہ کلن سے للن کی لڑائی ہوجاتی جمن بولا چلو سنی کی اسکول شکشا نکیتن چلیں شاید وہاں سے کچھ معلومات ملے ؟
اسکول کے باہر لگے آر ایس ایس کے ودیا بھارتی کا نام دیکھ کر کلن خوش ہوگیا اور بولا دیکھا ہمارے سنگھ نے گاوں گاوں میں تعلیم کا انتظام کیا ہے؟
للن بولا جی ہاں اور وہاں سے سنی سنگھ جیسے غنڈے بدمعاش نکل رہے ہیں جبکہ تم لوگ دن رات مدرسوں کے پیچھے پڑے رہتے ہو۔
جمن نے اسکول کے پرنسپل اوم جی پانڈے سے سنی کےبارے میں پوچھا تو وہ بولے یہ بہت پرانی بات ہے اب یہاں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
للن نے کہا کلن دیکھو کیسے پانڈے جی پلہ جھاڑ لیا ؟ مجھےتو لگتا ہےاس کا سارا ریکارڈ جلادیا ہوگا۔
جمن کو کوئی کامیابی نہیں ملی تو اس نے کہا چلو سنی کی ماں کشنا کے گاوں چلیں جو یہاں سے صرف ساٹھ کلو میٹر دور ہے۔
کلن بولا صر ف ساٹھ کلومیٹر! پاگل ہو کیا ؟ ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر دو گھنٹے سے زیادہ لگ جائیں گے۔
للن نے کہا کیوں تمہارے مہاراج تو یوپی کی سڑکوں کے بارے میں بڑی بڑی ہانکتے ہیں ۔ اب کہاں گئی ہیکڑی ؟
کلن جھینپ کر بولا چلو چلتے ہیں بابا یہ بار بار کا کوسنا ٹھیک نہیں۔
سکہولی گاوں پہنچ کر جمن نے کشنا کے بارے میں تفتیش کی تو پتہ چلا ایک بھائی کا انتقال ہوگیا دوسرا غازی آباد میں ہے۔ وہ بکری چرا کر گزارہ کرتی ہے۔ پڑوس کے برجیش سنگھ نے جمن کو بتایا کہ کشنا کو شوہر کی موت کے بعد گھر والوں نے بھگا دیا تو یہیں آکر بس گئی۔ سنی نے کبھی منہ نہیں دیکھا ۔
للن نے کلن سے کہا دیکھا تمہارے سنگھ کے اسکول میں ملے سنسکار کے بیٹا ماں کی شکل نہیں دیکھتا۔
تقریباً پچپن سال کی نحیف خاتون کو بکریوں کے ساتھ آتے دیکھ کر جمن سمجھ گیا یہی کشنا ہے۔ اس نےآگے بڑھ کر سنی کے بارے میں سوال کردیا ۔
کشنا بولی شوہر اور بڑے بیٹے کا انتقال ہوا تو منجھلا چائے کی دوکان چلاتا تھا اور وہ اِ دھر اُدھر کام کرکے کچھ کماتی تو سنی چھین لیتا تھا ۔
کلن نے حیرت سے کہا کیسی بات کررہی ہیں ماتا جی ۔ سنی ایسا نہیں ہوسکتا۔
کشنا بولی وہ تو مجھے مارتا پٹتا بھی تھا اور ایک دن اتنا مارا کے میرا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ میں اب بھی اس ہاتھ سے کوئی کام نہیں کرسکتی۔
للن نے کہا تو کیا آپ اس سے پریشان ہوکر یہاں آگئیں ؟
کشنا بولی جی ہاں۔ اب پتہ چلا کہ اس نے کسی کو مار دیا ہے۔ من میں تو آیا کہ یہ کیا کردیا ۔ اب سرکار کچھ بھی کرے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جوکیا وہ بھگتے گا۔
اس دوران کلن نے گاوں والوں سے پوچھا تو معلوم ہوا وہ ہسٹری شیٹر ہے اور اس پر کرارہ تھانے میں 14 کیس درج ہیں ، یہ جان کر اس کا نشہ ہوا ہوگیا۔
للن بولا جئے شری رام ، انہیں بھگتوں کے کارن رام کا نام ہوا ہے بدنام۔
کلن نے کہا بھائی بہت ہوچکا اب واپس چلتے ہیں ۔
جمن بولا بھیا میں تو ڈیوٹی پر ہوں تینوں سے ملے بغیر لوٹوں گا تو تنخواہ ایک تہائی ہوجائے گی۔ تمہیں جانا ہوتو جاو۔
بادلِ نہ خواستہ کلن باقی دونوں قاتلوں کے گھروں پر جانے کے لیے تیار ہوگیا
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
نوٹ: اس مضمون میں بیان کردہ سارے واقعات سچے ہیں
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220767 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.