شنگھائی تعاون تنظیم کا 23 واں اجلاس رواں برس
انڈیا میں ہو رہا ہے، سربراہان مملکت کے اجلاس سے قبل وزرائے خارجہ کا
اجلاس4اور5 مئی کو انڈیا کے شہر گووا میں ہو گاپاکستان کے وزیرخارجہ بلاول
بھٹواس اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت جارہے ہیں ۔ بھارت اس سال شنگھائی
تعاون تنظیم کے منتظم صدر کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ اس لیے شنگھائی تعاون
تنظیم کے ممبر ممالک کو شرکت کی دعوت دینا میزبان ملک کے فرائض میں شامل
ہوتا ہے،مگرانڈیانے روایتی مکاری اورعیاری کامظاہرہ کرتے ہوئے یہ پروپیگنڈہ
کیاکہ پاکستانی وزیرخارجہ نے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کی درخواست کی ہے ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ مودی حکومت اس وقت ہندووں انتہاپسندوں کے دبائوکاشکارہے
جس کی وجہ سے وہ جھوٹ کاسہارہ لے رہی ہے اوراپنے عوام کواصل حقائق سے آگاہ
نہیں کررہی ،پاکستانی وزیرخارجہ بلاول بھٹونے گزشتہ سال دسمبرمیں اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر انڈین وزیراعظم کوگجرات کاقصائی
قراردیتے ہوئے عالمی فورم پرمودی کااصل چہرہ دنیاکے سامنے پیش کیاتھا جس
پرہندوانتہاپسندوںنے پورے بھارت میں شدیداحتجاج کیاتھا اوربی جے پی کے
رہنمائوں نے بلاول بھٹوکے سرکی قیمت مقررکی تھی اس وقت بھی
ہندوانتہاپسنداحتجاج کررہے ہیں کہ بلاول بھٹوکے انڈیاکے داخلے پرپابندی
عائدکی جائے ۔مگربھارت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے
رکن ملک کودعوت نہ دے یااسے اجلاس میں شرکت سے روک سکے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان نے بھارت سے ایسی کسی ملاقات کی درخواست نہیں
کی۔شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت اجلاس میں شرکت کر کے پاکستان کھلے دل کے
ساتھ اپنی سفارتی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔پاکستان کی بین الاقوامی اور
کثیرالجہتی سطح پر کئی ذمہ داریاں ہیں جن کی اہمیت بھارت کے منفی رویے سے
کہیں زیادہ ہے۔پاکستان ان ہی بین لاقوامی ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے بھارت
جیسے ملک کا بھی دورہ کرنے کو تیار ہے۔ واضح رہے کہ بلاول بھٹو پہلے وزیر
خارجہ ہوں گے جو 12 سال بعد بھارت کا دورہ کریں گے، اس سے قبل جولائی 2011
میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔
بھارت کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف بھی اس دورے کے حوالے سے پروپیگنڈے میں
شامل ہوگئی ہے پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے بلاول بھٹو کا دورہ بھارت
کو کشمیریوں کی جدوجہد کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دے دیتے
ہوئے کہاہے کہ کشمیر کے معاملے کو دفن کرکے بھارت سے تعلقات بنانا اس
ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کے تحت حکومت کومسلط کیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ
عناصرکی طرف سے کشمیراورپاک فوج کے حوالے سے یہ پروپیگنڈہ کیاجارہاہے کہ
پاک فوج کشمیرسے دستبردارہوچکی ہے اوربھارت سے لڑنے کی صلاحیت ہی نہیں
رکھتی ۔
پہلی بات تویہ ہے کہ یہ دو طرفہ ممالک کی خصوصی ملاقات نہیں ہے بلکہ یہ ایک
کثیر الارکان فورم ہے جہاں پہلے بھی پاکستان شرکت کرتا رہا ہے ماضی میں بھی
اس طرح کے مختلف فورمز پہ پاکستان بھارت اکٹھے ہوئے ہیں،بلاول بھٹو شنگھائی
کونسل آف فارن منسٹرز کے گذشتہ اجلاس میں بھی موجود تھے جو تاشقند میں
گذشتہ سال ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی
مثال کو دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وسطی
ایشیائی اراکین کے بھی آپس میں جھگڑے ہیں مگر انہوں نے اپنے مشترکہ علاقائی
سلامتی کے چیلنجوں کے لیے اجتماعی انداز اپنانے کے لیے جدوجہد کی ہے اور
محض ایک دوسرے سے اِختلافی یا متصادم رویہ ہونے کی وجہ سے شنگھائی تعاون کی
تنظیم کے اِجلاس کا بائیکاٹ نہیں کیا حالانکہ ماضی میں طالبان کے متعلق یہ
وسطی اِیشیائی ممالک مختلف موقف کے حامل رہے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)ایک ایسافورم ہے کہ جوخطے میں سلامتی کو
یقینی بنانے اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے کثیرالجہتی ایسوسی ایشن کے
طور پر تجارت ، نیز ثقافتی اور انسانی ہمدردی میں تعاون اِس کے بنیادی
مقاصد ہیں۔ اس تنظیم کی داغ بیل 1996 میں چین کے شہر شنگھائی میں ڈالی گئی۔
اس کے بانی ارکان میں چین ، روس ، قازقستان ، کرغزستان اور تاجکستان شامل
تھے۔ لہذا اس وقت اسے شنگھائی فائیو کا نام دیا گیا۔ پاکستان 2005 سے
شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا اور 2010 میں باقاعدہ رکن بننے کے لئے
درخواست دی۔جون 2017 میں پاکستان اور بھارت کو جبکہ ستمبر 2021 میں اِیران
کو مکمل رکنیت دی گئی ہے۔ افغانستان ، بیلاروس اور منگولیااس کے مبصررکن
ہیں۔
جہاں تک مسئلہ کشمیرکی بات ہے تویہاں اہم بات یہ ہے کہ بلاول بھٹوکے دورے
کے باوجودپاکستان کشمیر پر اپنے موقف پر قائم ہے اور کشمیر پر کسی قسم کے
سمجھوتے کیلئے تیار نہیں۔اس حوالے سے چنددن قبل پاک فوج کے ترجمان میجر
جنرل احمد شریف چوہدری کی دھواں دارپریس کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل ہے جس
میں انہوں واضح کیا بھارت کی تمام شر انگیزیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمہ
وقت تیار ہیں، بھارت کے جارحانہ عزائم اور بے بنیاد الزامات تاریخ کو نہیں
بدل سکتے، بھارت کشمیر کی تاریخی حیثیت کو نہیں بدل سکتا، کشمیر کبھی بھارت
کا اٹوٹ انگ تھا نہ کبھی ہوسکتا ہے، اگر بھارت کوئی مہم جوئی کا ارادہ کرتا
ہے تو افواج پاکستان بھرپور جواب دے گی، پاکستان نے دہشت گردوں کیخلاف 2
دہائیوں سے جنگ لڑی ہے، آرمی چیف نے کمان سنھبالنے کے بعد پہلا دورہ ایل او
سی کا کیا، پاکستان کا ہر سپاہی ایمان، تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ سے
سرشار ہے، فروری 2019 کی طرح اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔
میجرجنرل احمد شریف کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نے جنگ بندی معاہدے کے
باوجود بھارت نے رواں سال 56 بار چھوٹی سطح پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں
کیں، قیاس آرائی پر مبنی 22، فضائی حدود کی خلاف ورزی کے 3، سیز فائر خلاف
ورزی کے 6 چھوٹے اور فضائی حدود کی ٹیکٹیکل خلاف ورزی کے 25 واقعات شامل
ہیں۔ پاک فوج نے لائن آف کنٹرول پر بھارت کے 6 جاسوسی ڈرون بھی گرائے۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہاکہ پاکستان نے ہمیشہ نے اقوام متحدہ کے
ساتھ بھر پور تعاون کیاہے ، اس ضمن میں پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے
مبصرین کو لائن آف کنٹرول پر مکمل رسائی دی گئی ہے جبکہ بھارت کی طرف سے
کوئی رسائی نہیں دی گئی۔ پاکستان کی طرف سے گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران 16
دورے کروائے گئے جن میں بین الاقوامی میڈیا اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل
کا دورہ اہمیت کا حامل ہے جبکہ بھارت نے ایسا کوئی دورہ نہیں کروایا جوکہ
اس کی مقبوضہ کشمیر میں حقیقی صورتحال کو چھپانے کی کوشش ہے۔
بعدازاںپاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے صحافیوں کی جانب سے آپریشنل تیاریوں
سے متعلق سابق آرمی چیف کے بیانات پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ فوج
پاکستانی عوام کو یقین دلاتی ہے کہ ہمیشہ اپنی آپریشنل تیاریوں اور انتہائی
جنگی قابلیت پر فخر کیا اور کرتے رہیں گے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ
مادر وطن کے دفاع کے لیے اپنے ہتھیاروں، سازوسامان اور جنگی وسائل کو ہمیشہ
تیار رکھا ہے اور رہے گی۔
ترجمان پاک فوج نے نہایت اہم ایشوکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان
کی اندرونی سیاست میں پاکستان کے حالات کی اہمیت ہے، بھارت اپنے مسائل سے
توجہ ہٹانے کیلئے بھی پاکستان کی سیاست کی بات کرتا ہے، فالس فلیگ آپریشن،
پاکستان کے خلاف جعلی پروپیگنڈا بھارت کا شیوہ رہا ہے، کچھ ملکی عناصر
دانستہ یا نا دانستہ بھارت کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
|