دنیا بھر میں خواتین کی تعداد مردوں کی تعداد تقریباً
برابر ہیورلڈ سیکس ریشوکے مطابق مردوں کی اوسطاً تعداد3.97بلین اورخواتین
3.90بلین یعنی مرد50.42%اورخواتین 49.58% ہیں اس کے باوجود خواتین کو
پسماندہ طبقہ سمجھا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ ہرمرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ
ہوتاہے مگرزیادہ ترمرد اس بات کوہتک آمیز سمجھتے ہیں اس لیے اپنی خواتین
کونہ ہی اس کے نام کو آگے آنے دیتے ہیں ایشیا خاص طوپر پاکستان میں خواتین
کی بڑی تعداد کسی نہ کسی پیشے سے بالواسطہ یا پھر بلاواسطہ منسلک ہے اور ان
کی پریشانیاں اور مسائل بھی بے پناہ ہیں۔ ایسا معاشرہ جہاں عام انسان یا
مزدور کو اس کے حقوق نہیں ملتے وہاں خواتین اور خصوصاً کام کرنے والی
خواتین کو ان کے حقوق میسرہوناخواب ہی ہے۔ترقی یافتہ ملک ہو یا ترقی پذیرآج
بھی خواتین اپنے حقوق کی منتظر ہیں۔مغرب جسے انسانی حقوق کا علمبردار سمجھا
جاتا ہے وہاں کی خواتین بھی کافی عرصہ سے اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک
کیلئے احتجاج کر رہی ہیں۔ امریکی خواتین کا ماننا ہے کہ وہ قابلیت اور
صلاحیت میں کسی مرد سے کم نہیں لیکن انہیں کسی مرد کے برابر نہیں بلکہ اس
سے کم تنخواہ دی جاتی ہے جو ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہمارے ہاں عورت چاہے کسی
فیکٹری میں کام کرتی ہو یا پھر کسی بڑے ملٹی نیشنل دفتر میں، اسے ہمیشہ
تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مردوں کی نسبت کم تر سمجھا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں اس کی صلاحیت کو نظر انداز کیا جاتا اور اس کی کارکردگی پر شک
کیا جاتا ہے۔خواتین کی بڑی تعداد اس وقت دفتروں، سکول، کالج اور غیر رسمی
شعبوں میں کام کر رہی ہے اور حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات اونٹ کے منہ
میں زیرہ کے برابر ہیں۔ ابھی ہم خواتین کے بنیادی مسائل ہی حل نہیں کر پائے
ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ہم انہیں تحفظ فراہم کریں اور جلد از جلد ان کے
مسائل حل کر سکیں۔ خاتون لیبرز کی صورتحال نہایت ہی افسوسناک ہے۔ بھٹوں پر
کئی سالوں سے بانڈڈ لیبر کا شکار خواتین اور ان کے بچے ایسے جال میں پھنسے
ہوتے ہیں جس سے وہ باہر نہیں نکل پاتے اور خوش قسمتی سے اگر کورٹ نوٹس لے
لیتی ہے تو بعد ازاں وہ پھر کسی اور بھٹہ مالک کی قید میں گرفتار ہو جاتی
ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین بھٹہ مزدوروں کے ساتھ زیادتی کے بھی کی واقعات
ریکارڈ ہوئے ہیں۔
اس وقت خواتین کی بڑی تعداد سروسز انڈسٹری سے منسلک ہے، اس کے علاوہ خواتین
نے ہر اس خلاء کو پُر کر دیا ہے جو ہنر مند افراد کی کمی کی وجہ سے خالی
تھا۔ خواتین ورکرز یا پھر اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کے حقوق کا استحصال
کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتا ہے۔ حکومت کی جانب سے ہر سال ویمن ڈے پر
کوئی خصوصی پیکج تو پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کے ثمرات نہ کسی کو ملے ہیں
اورنہ ہی کوئی اس کیلئے بعدمیں جدوجہدکرتاہے۔مزدوروں کے عالمی دن پر محنت
کش عورتوں کی اس شعبے میں دکھ، تکالیف اور قربانیوں کا ذکر کئے بغیر ان کے
حقوق کی جد جہد کو مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔ دنیا بھر میں محنت کشوں کا حصہ
رہنے والی یہ عورتیں اپنے کام کے ذریعے اپنے ملکی معیشت کی ترقی میں اہم
کردارتو ادا کر رہی ہیں لیکن ان کو بھی معاشی ترقی میں تفریق اور عدم
مساوات کا سامنا ہے، یہ محنت کش خواتین گھر داری، بچوں کی نگہداشت اور دیگر
امور کے ساتھ مردوں کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ کام کرتی ہیں مگر پھر بھی
استحصال کا شکار ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں گھروں اور چھوٹے موٹے
کام کاج سے پیٹ پالنے والی یہ خواتین کسی قانون کے دائرہ میں آتی ہیں اور
نہ ہی ان کی اجرتوں کے بارے میں کوئی آواز اٹھاتا ہے۔ان کے لئے نا صرف
قانون بنایا جانا چاہیے بلکہ انہیں ورکرز کے طور پر بھی گنا جانا چاہیے
تاکہ ان کی معاشی اور سماجی حالت میں بہتری آسکے۔زراعت ملکی معیشت کیلئے
ریڑھ کی ہڈی ہے۔ خواتین زراعت میں بطور افرادی قوت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتی ہیں۔ دیہاتی پس منظر رکھنے والے لوگ آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ مئی کی
جان لیوا گرمی میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ گندم کی کٹائی میں شریک ہیں
مگر ان کی انفرادی حیثیت میں بطور مزدور ان کا کوئی معاوضہ ہے اور نہ کوئی
شناخت۔لائیو سٹاک میں خواتین کا کردارمرکزی اور اہم ہے۔ زراعت سے منسلک ہر
شعبہ میں خواتین ملکی زرعی معیشت کے استحکام اور 22 کروڑ عوام کی خوراک کی
ضروریات پوری کرنے کے لیے برسرپیکار ہیں اس کے علاوہ کپاس کے بیج بونے سے
لیکرچنوائی تک عورتوں کا ہی کرداررہتاہے، صرف زراعت ہی نہیں بلکہ ٹیکسٹائل،
تعمیراتی مٹیریل کی تیاری اور سپورٹس انڈسٹری میں بھی خواتین موثر کردار
ادا کررہی ہیں۔ان محنت کش خواتین کو تو یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ یوم مئی ہے
کیا اور اس دن کیا ہونا چاہیے۔ یہ تو معمول کے دنوں کی طرح صبح کو اٹھتی
ہیں اور اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتی ہیں کوئی فیکٹری میں کام کرنے نکل
جاتی ہے تو کوئی کھیتوں میں،کوئی دستکاری اور کوئی سلائی کڑھائی،کوئی کوئلے
کی بوریاں بھرنے تو کوئی بھٹہ مزدوری میں اپنے ہاتھوں سے اینٹیں بناتی اور
کوئی گھروں میں صفائی کررہی ہوتی ہیں۔انہیں تو یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ ان
کے بچے کس حال میں ہیں حقوق کیا ہیں اور انہیں اپنے مالک سے اپنے معاوضے کے
حوالے سے کس طرح بات کرنی ہے۔اور کام کے اوقات کار کیاہیں۔مردو خواتین
مزدوروں کو انکے حقوق دیئے جائیں اور فیکٹری،صنعت میں کام کرنے والے
مزدوروں کو سوشل سکیورٹی کارڈ ملنے چاہئیں کیونکہ اس کارڈ کے باعث ہی مزدور
کو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں معاشی تحفظ ملتا ہے۔اگرمیں خود اپنی بات
کروں تو میں 2012سے 2018تک لاہورکے ہسپتال میں فرائض انجام دیئے ہیں اس کے
بعدینگ ڈاکٹرز یونین اورنرسنگ یونین بنی اب ان کے بننے کی وجہ کیاہے کیوں
بنی اس کی وضاحت پھر کبھی۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی کے
وسط میں پاکستان میں2 ملین خواتین غیر رسمی شعبے سے منسلک تھیں۔ مختلف
ریسرچ کے مطابق غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی محنت کش عورتوں کی تعداد
رسمی شعبے میں کام کرنے والی محنت کش عورتوں سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ہم نے
موقع اور موضوع کی مناسبت سے گھروں میں کام کرنے والی خاتونگینہ بی بی سے
پوچھا جس کے 2بچے ہیں بات کرنے پراسنے بتایا کہ پہلے وہ اپنے شوہرکے ساتھ
رہتی تھی مگرچندسال سے وہ لوگوں کے گھروں میں کام کر رہی ہیں ان کا
شوہررکشہ سٹینڈپرکام کرتا ہے۔ شوہر کی کمائی اتنی زیادہ نہیں کہ ہماری دو
وقت کی روٹی پوری ہواوربچوں کی تعلیم وتربیت بھی مکمل ہوپائے تواس لیے میں
نے خود کام کرنے کاسوچا۔انہوں نے بتایاپڑھی لکھی نہیں تھی اسلئے گھروں میں
ہی کام کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔تاہم میرے شوہر کہتے
تھے،ہم مزدوری کر لیتے ہیں تاکہ بچوں کو اتنا ضرور پڑھا دیں یہ کوئی باعزت
ملازمت کر سکیں۔ہماری کوشش ہے کہ ہمارے دونوں بچے پڑھ لیں۔فیکٹری میں کام
کرنے والی زہرہ سے بات ہوئی تواس نے کہا کہ ہم اپنے حقوق کیا اپنے وقت کے
تعین تک کسی سے بات نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں مینج کرنے والا مرد ہوتاہے
اوروہ صرف عورت کو کام کرنے والی مشین سمجھتے ہیں اگرکوئی چھوٹا سانقصان
ہوجائے تو تنخواہ سے کاٹ لیتے ہیں۔ ان محنت کش خواتین کو مزدور سمجھا جانا
بہت ضروری ہے ان کے لئے قانون سازی کی جانی چاہیے،اور یہ کام حکومتوں کا ہے۔
یہاں لیبر قوانین موجود ہیں لیکن یہ محنت کش خواتین کسی قانون کے دائرہ کار
سے باہرہیں اور مزدوروں کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت کرنے پر مجبور
ہے۔جیسے کہ قرآن پاک میں ہے کہ محنت کرنے والااﷲ کا دوست ہے تواس میں صرف
مرد کا کہیں ذکرنہیں کیونکہ محنت کرنے والی عورت بھی ہوسکتی ہے اس لیے
عورتوں کوان کے حقوق ملیں گے تبھی ان کے چہرے پرمسکان آئے گی اورمعاشرے کا
سدھاہوگا۔
|