بھگت سنگھ: انقلابِ ہند کا متوالا

ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
جاہ و جلال عہدِ وصالِ بتاں نہ پوچھ
ہے سبزہ زار ہر در و دیوار غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ

حضرتِ غالب کا یہ شعر جہاں ہندوستاں (مراد متحدہ ہندوستان) کے جاہ و جلال، شان و شوکت اور مقام و مرتبہ کا اعتراف ہے وہیں اس خطہ زمین کی تباہی و بربادی کا نوحہ بھی ہے۔ سونے کی چڑیا کہلایا جانے والا یہ ملک معاشی و معاشرتی طور پر دنیا کا امیر ترین خطہ تصور کیا جاتا تھا۔ دنیا کی کل آبادی کا قریب 27 فیصد جی ڈی پی فقط اسی خطہ ارض سے حاصل کیا جاتا تھا۔ انھی تمام خصوصیات کی بنیاد پر یہ خطہ دنیا کی تمام استعماری اور نوآبادیاتی قوتوں کے لئے تختہ مشق بنا کہ قریب دو سو سال تک یہاں آسمان کا رنگ سیاہ اور زمین کا رنگ سرخ نظر آیا۔

اس پرامن، کثیر المذہبی، کثیر القومی اور کثیر الثقافتی خطہ ارض نے نادر شاہ کی یلغار دیکھی۔ فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے لشکروں کا سامنا کیا۔ انسان دشمن انگریز سامراج کے ظلم و ستم جھیلے۔ جنگِ پلاسی کی تباہ کاریاں برداشت کیں۔ جنگ آزادیٕ ہند میں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ چشمِ فلک نے جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی سفاکیت کا دل سوز نظارہ دیکھا کہ معصوم، نہتے اور بے گناہ بچوں، عورتوں اور مردوں کے خون سے دھرتی کا سینہ لال کر دیا گیا۔

وحشت اور درندگی کی ایسی داستانیں رقم ہوئیں کہ ہندوستان کی اگلے دو سو سال کی تاریخ کا ہر ورق سرخ روشنائی سے لکھا گیا۔ ہزار سال کی شان و شوکت پر آنچ آنے لگے تو مزاحمت پیدا ہونا فطرتی سی بات ہے۔ پھر سر زمینِ ہندوستان بہادروں اور جان نثاروں سے زرخیز سر زمین تھی۔ اس سر زمین کے ذرے ذرے میں ایک ایسا جانثار پیدا کرنے کی صلاحیت تھی جو سامراج کا خنجر اپنے سینے پر روک سکے۔ ہندوستان کی مٹی میں ایسی قابلیت تھی کہ کسی جانباز کے خون کا ایک قطرہ مٹی پر گرتا تو ہزاروں نئے رکھوالوں کی آبیاری کرتا۔

حیدر علی اور شیرِ میسور ٹیپو سلطان اسی مٹی کے سپوت تھے کہ فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے سر زمینِ ہندوستان پر قابض ہونے کا خواب انہی کے سینوں میں دفن کرتے رہے۔ انگریز سامراج کے خلاف سینہ سپر رہے اور مادرِ وطن کی خاطر نثار ہوئے۔ بخت خان روہیلہ اور نانا صاحب بھی اسی دھرتی کے فرزند تھے کہ جنگِ آزادیٕ ہند میں انگریز کی توپوں کا سامنا کرتے رہے۔ جہاں فرزندِ وطن جانیں نچھاور کرتے رہے، وہاں مٹی کا قرض اتارنے کے لئے دخترانِ ہند بھی انگریز سامراج سے لوہا لینے میں پیش پیش رہیں۔ بیگم حضرت محل اور رانی لکشمی بائی (جھانسی کی رانی) کی بہادری آج بھی ہندوستان پر قرض ہے۔

عزم و ہمت، جوش و جذبہ اور بہادری اور سرفروشی کی ایسی ہی لازوال مثال قائم کرنے والا ایک نام بھگت سنگھ بھی ہے کہ انگریز سے آزادی کا خواب کبھی حقیقت نہ ہو پاتا اگر یہ نوجوان آزادی کو اپنی دلہن نہ بناتا۔ مستنصر حسین تارڑ کے ناول "میں بھناں دلی دے کنگرے" نے تاریخ کے اس غیر معمولی کردار کو سو سال بعد دوبارہ حقیقت کے پردے پر لا کھڑا کیا۔ پنجابی زبان میں لکھا گیا یہ ناول بھگت سنگھ کی انقلابی تحریک کی کہانی اسی کی زبانی کچھ اس انداز سے بیان کرتا ہے کہ قاری ماضی میں غوطہ زن ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ گویا وہ حال میں ماضی کے کرداروں کو سفید و سیاہ پردے پر دیکھ رہا ہو۔

بھگت۔ ایک لفظ۔ ایک نام۔ ایک کردار۔ ایک تحریک۔ انقلاب کی تحریک۔ فیصل آباد کے سکھ گھرانے میں پیدا ہونے والا ایک لڑکا جو چھوٹی عمر میں ہی انگریز سامراج کے پاؤں کا بڑا کانٹا تھا۔ کم عمری میں انقلاب کی راہ پر سفر شروع کرنے والا بھگت اوائل عمری ہی میں موت سے یوں روبرو ہوا کہ ایک صدی گزرنے کے بعد بھی اس کا نام تاریخ کے صفحات میں مانندِ آفتاب روشن ہے۔ مطالعہ کا اس قدر شوقین تھا کہ بقول تاڑر صاحب شاید اس نے اتنی سانسیں نہ لی ہوں جتنی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ دوران قید، انگریز حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے قریب اکسٹھ (61) روزہ بھوک ہڑتال کی۔ ان مطالبات میں ایک مانگ کتب ہی کی تھی۔ جیل میں جن مظالم کا سامنا بھگت کو کرنا پڑا، شاید ہی تاریخ میں کسی نے اس قدر مظالم جھیلے ہوں۔ مگر اس بندہ خدا کے ارادے ڈگمگانے نہ پائے۔ انقلاب کی راہ میں وہ ایسے ثابت قدم رہا کہ انگریز سرکار کو منہ کی کھانی پڑی۔ "پبلک سیفٹی بل" اور "ٹریڈرز ڈسپیوٹس بل" منظور ہونے کے بعد، جس کو مقصد مزدور طبقہ اور عام شہریوں کے حقوق سلب کرنا تھا، مرکزی اسمبلی کی راہداریوں میں خالی بم پھینکنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے بعد ان کا موت سے مفر ممکن نہ تھا، یہ ذمہ داری بھگت سنگھ اور بٹو کیشور دت (ممبر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلک ایسوسی ایشن) نے قبول کی۔ مرکزی اسمبلی کی راہداری میں بم گرایا تھا تاکہ بہروں کو سنانے کے لئے بڑا دھماکہ کیا جا سکے۔ دھماکے کے بعد بھگت اور دت اپنی جگہ پر کھڑے رہے اور گرفتاری پیش کی۔ دھماکے کا مقصد ہی گرفتاری دینا تھا تاکہ عدالت میں اس مقدمہ کی سماعت کے دوران کیس کی پیروی کرتے ہوئے مزاحمت اور انقلاب کی تحریک کا پرچار کیا جا سکے۔ دوران مقدمہ، بھگت کے دلائل کو عوامی سطح پر اس قدر مقبولیت ملی کہ بگھت کا بلند کیا ہوا نعرہ "انقلاب زندہ باد" عوامی نعرہ بن گیا۔ اس دھماکے کا مقصد کسی کی جان لینا ہرگز نہیں نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جانی نقصان ہوا۔ اس جرم کی بدولت انگریز سرکار کو کو سانڈرس قتل کیس دوبارہ کھولنے کا موقع مل گیا۔ لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کے لئے سانڈرس قتل میں بھگت کا ہاتھ تھا۔ ثبوت نہ ہونے کے باوجود بھگت کو مجرم قرار دیا گیا۔

اس نے خود اپنے لئے سزائے موت چنی کہ وہ جانتا تھا کہ موت فقط اس کی سانسیں چھین سکتی ہے، اس کے نظریات و خیالات نہیں۔ زندگی کے آخری لمحات میں بھی اطمینان و سکون اس کے چہرے کا حسن تھا۔ پھانسی کا پھندہ اسے محبوب تھا اور محبوب کی باہوں کا ہار وہ کیسے ٹھکرا سکتا تھا۔ اور پھر تئیس (23) سال کی عمر میں بھگت کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

گری ہے برق تپاں دل پہ یہ خبر سن کر
چڑھا دیا ہے بھگت سنگھ کو رات پھانسی پر
اٹھا ہے نالۂ پردرد سے نیا محشر
جگر پہ مادر بھارت کے چل گئے خنجر

بھگت سنگھ کی قربانی نے انقلاب کی آبیاری کی۔ آزادی کی تحریک اس قدر زور پکڑتی گئی کہ اسے روکنا اب انگریز راج کے لئے ممکن نہ تھا۔ بھگت ہی سے تحریک لے کر پنجاب کا ایک سردار لندن کے کیگسٹن ہال میں جلیانوالہ باغ کے مجرم جنرل ڈائر کو گولیاں مار کر راجِ برطانیہ کا تخت ہلا دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔

چشمِ تصور سے دیکھتا ہوں تو بھگت، سکھ دیو، راج گرو اور آزادی کے دیگر پروانوں کو رام پرساد بسمل کا شعر گنگناتے پاتا ہوں

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

برطانوی استعمار کا غاصبانہ قبضہ ختم ہونے کے بعد ہندوستان آزاد تو ہوا مگر آزادی تقسیمِ ہند کی تمام تر تباہ کاریوں بعد ایک نئے معاشی استعماری غلبے کا باعث بنی۔ سیاسی افراتفری، سماجی انتشار، معاشرتی بے راہ روی، قرضوں کی معیشت، ظلم، ناانصافی، وحشت، درندگی اور سامراج کا دجل مل کر انسانیت کا دم گھونٹ رہے ہیں۔ آج قریب سو سال گزر جانے کے بعد بھی انسانیت کی سسکتی آہیں کسی بھگت سنگھ کو پکار رہی ہیں۔ مفلسی کا شکار انسانیت کسی اودھم سنگھ کی منتظر ہے جو مذہبی و قومی تعصب سے اٹھ کر عصرِ حاضر کے ڈائر کا سینہ چاک کرے۔ انسانیت راہِ انقلاب کے راہبر کی متلاشی ہے۔

دل میں طوفانوں کی ٹولی اور نسوں میں انقلاب
ہوش دشمن کے اڑا دیں گے ہمیں روکو نہ آج
دور رہ پائے جو ہم سے دم کہاں منزل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
 

Talha Mahmood Rajput
About the Author: Talha Mahmood Rajput Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.