یکم مئی اور مگر مچھ کے آنسو

یکم مئی کومزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں اس دن بڑے بڑے سرمایہ دار ،بیوروکریٹ اور سیاستدان بڑے بڑے ہوٹلوں کے ٹھنڈے ہالز میں غریبوں یعنی مزدوروں کی غربت کا مذاق آڑائیں گے انکے حق میں بڑی لمبی چوڑی تقریریں کرینگے مزدور کی غربت پر مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے اور پھر اپنے غریب مزدور ڈرائیور کو حکم دیتے ہوئے نکل جائیں گے اﷲ تعالی کی طرف سے ہمیں عطا ہونے والے اس خوبصورت پاکستان میں دنیا کی ہر خوبصورتی اور وسائل موجود ہیں یہاں معدنیات سے مالا مال پہاڑ ہیں سونے جیسی زمین ہے چاندی جیسے ریگستان ہیں چاروں موسم ہیں سمندر ہیں دریا ہیں ندی نالے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم مزدور پیدا کرنے میں دنیا کے 9ویں بڑے ملک میں شمار ہوتے ہیں ہمارے مزدور دنیا بھر میں گدھوں کی طرح کام کرتے ہیں وہاں انہیں دن کو سکون ملتا ہے نہ وہ رات کو چین کی نیند سوتے ہیں اور انکے خون پسینے سے حاصل ہونے والی کمائی پاکستان کی معیشت کی ترقی میں دوسرے نمبر پرہے اگر یہ لوگ پاکستان پیسے نہ بھیجیں تو ہماری معیشت کا دھڑن تختہ ہونے میں کتنا وقت لگے گا حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری پی ڈی ایم حکومت نے سب سے پہلے انکے ووٹ کا حق ختم کردیا ہمارے ملک میں کام کرنے والے مزدوروں اور ملک سے باہر جاکر کام کرنے والے مزدوروں کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق آجاتا ہے اور باہر جاکر اپنے ملک کے وسائل کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے ساتھ میں ان لٹیروں کا بھی علم ہو جاتا ہے جن کی وجہ سے پاکستان میں صرف غریب ہی پیدا ہورہے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں پیسہ صرف لوٹ ماراور فائلوں کو پہیے لگانے والوں کی قسمت میں ہے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ یہاں کا پڑھا لکھا بچہ بھی نوکری اور کاروبار کے ذرائع نہ ہونے کے باعث مزدور ہی بن رہا ہے اور جنکی سفارش ہوتی ہے انہیں اعلی عہدوں پر بھرتی بھی کرلیا جاتا ہے ترقیاں بھی ملتی ہیں اور لوٹ مار کے ساتھی بھی بن جاتے ہیں آپ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کا پورا دور اٹھا کردیکھ لیں کہ کس طرح انہوں نے میرٹ کی گردان کرتے کرتے اپنے چاہنے والوں کو محکمہ پولیس ،مال ،ایجوکیشن سمیت تقریبا 36 سے زائد محکموں میں اعلی عہدوں سمیت چھوٹے عہدوں پر بھی بھرتی کروایا اہل ،ایماندار اور قابل لوگوں کو جب میرٹ پر نوکریاں نہیں ملیں گی تو وہ بھی مزدور ہی بنیں گے پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جہاں چند خاندانوں ،وڈیروں ،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو نکال کر ایک سائڈ پر رکھ دیں تو باقی سارا ملک مزدور ہی نظر آئے گا ہمارے دیہات اور وہاں کے لوگوں کا رہن سہن دیکھ لیں اندازہ ہوجائے گا غربت کیا ہے کئی کئی سالوں سے ایک جوڑا جوتی اور دو سوٹ کپڑوں کے ساتھ زندہ رہنے والے یہ بھی پاکستانی ہیں جنہیں کوئی سہولت نہیں جو گرمیاں درختوں کے نیچے اور سردیاں ٹھٹرتے ہوئے گذارتے ہیں اور انکے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے دنیا بھر کی آسائشیں ایک کلک پر انجوائے کرتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ہمارے سرکاری ملازمین جن کا گریڈ 16اور اس سے کم ہے وہ بھی مزدور ہی ہیں جنکی تنخواہ آنے سے پہلے ہی ختم ہوچکی ہوتی ہے اور پھر وہ پورا ماہ بچوں کو تسلیاں دیتے ہوئے گذار تے ہیں ہماری پولیس میں کانسٹیبل سے تھانیدار تک جتنے ملازم ہیں وہ بھی مزدوروں کی طرح کام کرتے ہیں موجیں اور عیاشیاں ہیں تو افسران کی جو سرکاری خرچ پر پوری زندگی گذار جاتے ہیں مزدور رہنما دریاب یوسف اور فاروق آزاد سے مزدوروں کے عالمی دن کے حوالہ سے بات ہورہی تھی تو انکا کہنا تھا کہ ہمارے نظام حکومت نے ملک کی تقریبا85فیصد سے زائد آبادی کو مزدور بھی نہیں بننے دیا کیونکہ مزدور تو پھر کہیں نہ کہیں کام دھندہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے لیکن جو سفید پوش طبقہ ہے وہ تو مزدوری کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی کے آگے ہاتھ پھیلا سکتا ہے اور جو انکو اس حال تک پہنچانے والے ہیں وہ آج کے دن ان کی بے بسی پر آنسو بہانا فرض سمجھیں گے خاص کر حکمرانوں کی طرف سے بڑی شعلہ بیانی کی جائیگی مزدوروں کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے جائیں گے لیکن نتیجہ صفر نکلے گا کیونکہ یہ سب وہ باتیں ہیں جو اس بار نہیں بلکہ کئی بار سن چکے ہیں لیکن ہمارے ہاں مزدور کی قسمت نہیں بدلی وہ آج بھی کسی اچھے ہسپتال میں اپنا علاج نہیں کرواسکتا وہ تو بھلا ہو عمران خان کا جس نے ہر کسی کو بلا تفریق ہیلتھ کارڈ دیدیا جسے پی ڈی ایم حکومت نے ختم کرنے کی بھر پور کوشش بھی لیکن نہ ہوسکا ہمارا مزدور اپنے بچے کو کسی اچھے سکول میں پڑھا نہیں سکتا سرکاری سکول میں بھی اس غرض سے نہیں بھیجتا کہ کل کو پڑھ لکھ کر بھی نوکری نہیں ملنی اس لیے وقت ضائع کیے بغیر وہ اسے کسی نہ کسی کام پر لگا دیتا ہے ہمارے ہاں چائلڈ لیبر کا قانون موجود ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا بچے بچپن سے ہی نوکر بن جاتے ہیں اور پھر یہ نوکری خاندانوں تک چلتی ہے دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہہ لیں کہ ہمارا نظام نہ مدور پیدا کرتا ہے نہ غریب بلکہ غلام پیدا کررہا ہے جو حکمرانوں کی غلامی سے لیکر سرمایہ داروں تک کی غلامی کرتا ہے اگر ہم اس غلامی سے آزاد ہو جائیں تو پھر ہر چیز طریقے اور سلیقے سے ہو گی کوئی ملازم غیر قانونی طریقے سے کام نہیں کریگا گذشتہ رات حکومت نے چوہدری پرویز الہی کے گھر جو کیا وہ ایک غلام معاشرے میں ہی ہوسکتا ہے غنڈہ گردی اور لاقانونیت وہاں چلتی ہے جہاں اندھے اور بہرے لوگوں کی اکثریت ہو مجھے شیخ رشید کا جملہ یاد آرہا ہے کہ پاکستان میں غریب کا دشمن غریب ہی ہے جو ایک دوسرے کو مارتا ہے برباد کرتا ہے اور پھر ایک دوسرے کی بربادی کا جشن مناتے ہیں جبکہ سرمایہ دار ،جاگیر دار اور مفاد پرست کبھی آپس میں نہیں لڑتے حکومت کسی کی بھی ہو لیکن چینی پر اربوں روپے کا مفاد حاصل کرنے والے ایک ہوتے ہیں اور لائنوں میں لگ کر ایک دوسرے کو پاؤں تلے روندنے والے ایک ایک روپے کی خاطرایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں میں شکاگو کے ان شہیدوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جنکی جدو جہد اور قربانی سے آج ہم مزدوروں کو یاد تو کرتے ہیں خواہ جھوٹے منہ ہی سہی لیکن ان تمام باتوں کے باوجود میں نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کو شاباش دیتا ہوں کہ جنہوں نے پنجاب میں مزدور کو عزت دی اور انکی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا ۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612089 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.