میں افطاری کا سامان لے کر کر گاڑی میں بیٹھا تھوڑی دیر
سستا رہا تھا تھا کہ مجھے بیک ویو مرر سے سے ایک مزدور جاتا دکھائی دیا ۔
نحیف بدن پھٹے پرانے کپڑے ایک رومال گلے میں لٹکائے وہ کسی کسی مریض شخص کی
طرح خراماں خراماں چل رہا تھا تھا۔ اس کی آنکھیں کسی بنجر زمین سے کم نہ
تھی اس کا حال دیکھ کر میں نے پہچان لیا تھا کہ وہ اندر سے مر چکا ہے ہے یا
زندگی کا بوجھ برداشت کرتے ہوئے ختم ہو رہا ہے ہے جب وہ میری گاڑی کے قریب
پہنچا تو میں نے باہر نکل کر اسے سلام کیا ۔ میرا سلام سن کر وہ چونکا اور
گھبراتے ہوئے وعلیکم سلام کہنے لگا میں نے پوچھا بھائی کہاں جا رہے ہو اتنے
پریشان کیوں ہو؟ میرے سوال پر خاموش رہا ہاں میں نے پریشانی بھانپتے ہوئے
پوچھا بھائی عید کے کپڑے لے لیے؟ میرے سوال پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
اور سر نفی میں ہلانے لگا۔ میں نے اسے گلے لگا کر حوصلہ دینے کی کوشش کی
اور پوچھا بھائی کیا ہوا ہے؟ وہ گویا ہوا کہ میں نے پچیس دن ٹھیکے دار کے
ہاں مزدوری کی اب وہ میرا فون تک نہیں اٹھا رہا میری مزدوری بھی نہیں دی اس
نے۔ میں کپڑے تو کجا جا میرے گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں ہے۔ مجھے بخار
ہو گیا ہے کوئی کام نہیں کر سکتا۔ گھر میں بچے مجھے بھوکے بیٹھے ہیں اور
میں وعدہ کر کے نکلا ہوں ہو کہ کچھ نہ کچھ کھانے کو لے کر آؤں گا اور یہاں
میری حالت یہ ہے کہ مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہا۔
اس کی کہانی اور آنکھوں سے برستی بارش نے میں میرا دل پگھلا دیا یا میں نے
اسے اپنی گاڑی میں بٹھایا، راشن خرید کر دیا اور عید کے لئے کچھ پیسے اور
اپنے لیے خریدے ہوئے تین جوڑوں میں سے سے ایک اس کو تحفہ دے دیدیا۔ جتنی
دیر وہ میرے ساتھ رہا وہ مجھے بار بار منع کرتا رہا ٹھیکیدار کی ہدایت کی
دعا کرتا رہا.
یہ حالات ہیں اس ملک میں ایک غریب مزدور کے کے یہ تو ایک آزاد مزدور تھا
تھا لیکن بھٹے کے قیدی مزدوروں کی کیا حالت زار ہو گئی ابھی وہ تو سوچنے سے
بھی انسان ڈپریشن کا شکار ہو جائے۔ کیا یہ اسی نبی کی امت نہیں جنہوں نے
فرمایا تھا کہ مزدور کی اجرت اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو دو؟ کیا
یہ وہی مذہب نہیں نہیں جس کے امیر المومنین عمر بن خطاب نے فرمایا تھا کہ
میری تنخواہ ایک مزدور کی تنخواہ کے برابر کر دو؟ ان کا یہ قول دنیا کا سب
سے بڑا چارٹر آف لیبر رائٹس ہے
۔دوسری طرف مغربی دنیا کو دیکھا جائے تو آئی ال او عالمی تنظیم یوم برائے
مزدور کا قیام عمل میں لایا. 1998 میں
Declaration on fundamental principles and rights of worker کی قانون سازی
کی گئی
آئی ایل او نے 110 سیشن کیے اور آخری 2022 میں ہوا ہوا۔ اس نے کوئی مسئلہ
شاید ہی چھوڑا ہو جس پر قانون سازی نہ کی ہو مگر ہر قوم کو اس پر سائن کر
کے پھر ریکٹیفکیشن کا چکر لگانا پڑتا ہے اور پاکستان جیسے ملک جس نے نے 73
کے آئین میں مزدوروں کے حقوق کی بات کی ہے مگر سوال یہ ہے ہے کہ آج بھی
مزدوروں کے حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے ہے آج تک اس سے سے انسانی طاقت سے
بڑھ کر کام کروائے جا رہے ہیں اور ورکنگ اورز کی کوئی بھی پابندی نہیں
کرتا، نہ ہی اجرت کام کی مناسبت سے دی جاتی ہے۔ پاکستان میں مزدور کوئی دو
یا تین فیصد نہیں ہےہےبلکہ 37.5 ملین لوگ ہیں جو مزدور ہے جس میں مڈل کلاس
ورکر شامل نہیں ہیں جو بظاہر کسی دفتر میں بیٹھا ہے لیکن اتنا ریموٹ کام کر
رہا ہے کہ اپنے رشتہ داروں تک سے اپنی جاب کی تفصیل چھپانے پر مجبور ہے۔
بات ہے رسوائی کی مگر جتنی مرضی آرڈیننس بنا لے جتنے مرضی کنونشن کروا لیں
قانون سازی کر کے صفحے کالے کر دیں لیکن کیا اس پر عمل درآمد د کے لیے کوئی
ٹاسک فورس بنائی گئی ہے؟ کیا مزدوروں کے حقوق کے لیے سوفٹ جوڈشری اور
موبائل پولیس ہم نہیں بنا سکتے یا پاکستان اس معاملے میں دنیا سے ہمیشہ
پچاس سال پیچھے رہے گا؟
پاکستان میں اکثر یہ طعنہ دیا جاتا ہے کے پاکستانی یہاں وائٹ کالر جاب
ڈھونڈتے ہیں اور باہر جا کر انگریز کے کتے نہلانے میں بھی عار محسوس نہیں
کرتے۔ میں کہوں گی کہ آپ ریسرچ کریں کہ پاکستان میں اور باہر کے ممالک میں
خصوصا یورپی اور امریکی ریاستوں میں مزدور کے لیے کیا سہولیات ہیں؟ تحفظ،
عزت اور انصاف کی فراہمی کا کیا انتظام ہے۔ باہر کے مقابلے میں پاکستان کے
مزدور کے کیا حالات ہے؟ اس کا جواب مل جائے گا کہ پاکستان کیوں اپنے یومن
ریسورس کو تباہ کر رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں مزدور منشیات کا استعمال کر رہا ہے اور اپنی دیھاڑی
بڑھانے کے لیے کام اگلے اگلے دن کے لیے چھوڑتا ہے۔ کاش عوام و خواص ان ملک
کے معماروں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا سوچیں جنہوں نے آپ کو بادشاہی مسجد
سے لے کر میٹرو بس تک تعمیر کر کے دی ہے۔
تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کہ ااوقات |