عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کی تفصیل بیان کرتےکرتے
گودی میڈیا تھکا تو مختار انصاری اور ان کے بھائی افضال انصاری کے پیچھے پڑ
گیا۔ اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ سارے مسلم سیاستداں جرائم پیشہ
ہیں ۔ یہ نورا کشتی جاری ہی تھی کہ خواتین پہلوان اکھاڑے سے نکل کر سڑک پر
آگئیں اور انہوں نے برج بھوشن سنگھ اس طرح اٹھا کر پٹخا کہ مجبوراً ذرائع
ابلاغ کو متوجہ ہونا پڑا ۔ خواتین پہلوانوں کے احتجاج سے یہ بیانیہ چاروں
خانے چت ہوگیا کہ بی جے پی میں کوئی مافیا نہیں ہے اور وہاں تو سارے لوگ
گنگا نہائے ہیں ۔ عتیق احمد و مختار انصاری پر قتل و غارتگری اور لوٹ مار
کا الزام تو بڑھا چڑھا کر لگایا گیا لیکن ان کا نام جنسی استحصال میں نہیں
آیا جبکہ برج بھوشن سنگھ کے خلاف دہلی کے کناٹ پلیس پولیس اسٹیشن میں جو
دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں ان میں سے پہلی پوکسو ایکٹ کے ساتھ ساتھ آئی
پی سی کی متعلقہ دفعات کے تحت ایک نابالغ متاثرہ کے الزامات ہیں اور دوسری
ایف آئی آر دیگر بالغ شکایت کنندگان کی جانب سے بے حرمتی کی دفعات کے تحت
ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے برج بھوشن نےان گھناونے جرائم کا ارتکاب کرکے
عتیق اور مختار کو مات دے دی لیکن ’سیاّں بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا‘
کے سبب وہ قانون کے شکنجے سے محفوظ و مامون ہے۔
اترپردیش کی ایم پی ۔ ایم ایل اے کورٹ نے ابھی حال میں سابق رکن اسمبلی
مختار انصاری کے بھائی افضال انصاری کو قصوروار قرار دیتے ہوئے چار سال کی
سزا کے ساتھ ایک لاکھ روپے کا جرمانہ لگادیا ۔ افضال انصاری چونکہ غازی پور
لوک سبھا سیٹ سے بی ایس پی کے رکن پارلیمان ہیں اس لیے جلد ہی ان کی رکنیت
کا خاتمہ بھی ہوجائے گا ۔ یہ بی جے پی کا اعتراف شکست ہے کہ میدان میں نہیں
ہرا سکے تو چور دروازے سے فتح چرا لی۔ راہل گاندھی کو نااہل قرار دے دینے
کے بعد اب اس طرح کی مکاری کو مخالفین کے ساتھ انتقام کی کارروائی کے زمرے
میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ اس سے قبل ایک 14 سال پرانے معاملہ میں مختار انصاری
کو دس سال کی سزا اور پانچ لاکھ روپے کے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ۔ گودی
میڈیا عوام کو یہ ساری تفصیل تو خوب مرچ مسالہ لگا کر بتاتا ہے لیکن ساتھ
ہی اس بات کو چھپا دیتا ہے کہ برج بھوشن کی اسّی کی دہائی میں موٹرسائیکل
کی چوری اور شراب کے اڈے چلانے جیسے جرائم میں ملوث تھا۔ لڑکوں سے مندر کے
تالابوں میں پڑے سکے نکلوانے والا برج بھوش کیسے آگے چل کر ٹھیکیدار سے
سرکار کا حصہ دار بن گیا۔
برج بھوشن سنگھ کونوے کی دہائی میں داؤد ابراہیم گینگ کے ارکان کو پناہ
دینے کے الزام میں تہاڑ جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ ان کے خلاف دہشت گردی اور
تفرقہ انگیز سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (ٹاڈا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا
تھا لیکن پھر شواہد کے فقدان میں وہ بری ہوگیا۔ جیل کے اندر سے انہوں نے بی
جے پی کے ٹکٹ پر اپنی اہلیہ کو انتخاب لڑا کر کامیاب کیا اور بعد میں خود
الیکشن جیت کر دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ ریسلنگ ایسو سی ایشن کے صدر کی
حیثیت سے پہلوان بیٹیوں کا جنسی استحصال کرنے لگا ۔ ملک کی بیٹیاں جنتر
منتر پر چیخ چیخ کر برج بھوشن پر سنگین الزامات لگا رہی ہیں ۔ حکومت کے کان
بہرے ہوگئے ہیں اور عدالت کی آنکھ پر پٹی ّ بندھی ہوئی ہے۔ انتظامیہ
زعفرانی جرائم پیشہ سیاستدانوں کے ثبوتوں کو مٹانے میں جٹا ہوا ہے اور
میڈیا اس کے کرتوتوں کی پردہ پوشی کے لیے کبھی عتیق احمد کے قصے سناتا ہے
اور کبھی مختار انصاری کی داستان میں الجھا دیتا ہے۔
برج بھوشن نے جب ٹھیکیداری کی دنیا میں قدم رکھا تو اس کاروبار میں سماج
وادی پارٹی سرکار کے سابق وزیر ونود کمار عرف پنڈت سنگھ اس کے شریک کارتھے۔
1993 میں اپنے اسی محسن پر گولیاں چلانے کے الزام میں برج بھوشن پر انڈین
پینل کوڈ کی دفعہ 307 (قتل کی کوشش)، 147 (خلفشار پیدا کرنے)، 148(مہلک
ہتھیار رکھنے) اور 149 (غیر قانونی اجلاس میں یکساں ارادے سےکیے گئے جرم)
کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔ پنڈت سنگھ نےخود یہ انکشاف کیا تھا کہ ان پر 20
گولیاں چلائی گئیں اور اس کی پاداش میں انہیں 14 ماہ تک اسپتال میں زیر
علاج رہنا پڑا۔یہ مقدمہ 29 سال چلا مگر پچھلے سال دسمبر میں برج بھوشن کو
شواہدکے فقدان کی وجہ سے اسے بری کر دیا گیا ۔ مجرم پیشہ لوگوں کے بی جے پی
میں آنے کی بنیادی وجہ یہی تحفظ ہے کہ سیاسی رسوخ کا استعمال کرکے وہ اپنے
خلاف شواہد کو انتظامیہ کی مدد سے دبا دیتے ہیں ۔
برج بھوشن کے خلاف فیصلہ کو سنانے والی عدالت خود اس سے مطمئن نہیں تھی ۔
یہی وجہ ہے کہ اس نے تفتیش کاروں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھاکہ مقدمہ کی
جانچ پڑتال کے دوران شواہد اکٹھا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، حتیٰ کہ
واردات میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی برآمد نہیں کیا جاسکا۔ برج بھوشن
نے جب اپنے دفاع میں یہ دلیل دی کہ وہ حملے کے وقت دہلی میں تھاتواس پر جج
نے کہاتھا کہ تفتیش کاروں کی طرف سے اس کی تصدیق کرنے کی سعی نہیں کی گئی۔
جج کے مطابق انتظامیہ کی یہ کوتاہی تفتیش کو پوری طرح مشکوک بنادیتی ہے۔اس
مقدمہ میں پنڈت سنگھ کی گواہی سے گزیر نے برج بھوشن کو بری کروادیا۔ پنڈت
سنگھ نے تو 2014 میں اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ اگر وہ 1993 کے فائرنگ کیس
میں برج بھوشن کے خلاف گواہی دینے کا فیصلہ کریں تو اس کو سلاخوں کے پیچھے
بھیج سکتے ہیں لیکن وہ اسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ایک دم دار مدمقابل
کے ساتھ لڑنے میں مزہ آتا ہے۔ ایسے مقابلہ میں احتیاط کے سبب انسان غلطیاں
نہیں کرتا۔بظاہر یہ دلیل اس خوف کی لیپا پوتی لگتی ہے جس نے انہیں روک دیا
تھا۔
دبنگوں کے خلاف گواہوں کا مکر جانا ایک عام سی بات ہے اس لیےشواہد سامنے
نہیں آتے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ برج بھوشن سنگھ جیسے لوگ خود اپنے
خلاف گواہی دے کر بھی بچ جاتے ہیں۔ ابھی حال میں معروف ویب پورٹل للن ٹاپ
کو دیئے جانے والےانٹرویو میں برج بھوشن نے اعتراف کیا کہ ،’میری زندگی میں
میرے ہاتھ سے ایک قتل ہوا ہے۔ لوگ جو کچھ بھی کہیں، میں نے ایک قتل کیا ہے۔
جس شخص نے رویندر کو مارا، میں نے فوراً اس کی پیٹھ پر رائفل رکھ کر اسے
مار ڈالا‘۔ اس قتل کی جو مضحکہ خیز وجہ برج بھوشن نے بتائی وہ اس کی سفاک
ذہنیت کا غماز ہے۔ پنڈت سنگھ کے بھائی رویندر سنگھ برج بھوشن کے بہت قریبی
دوست اور شریک ٹھیکیدار تھے۔ ایک بار پنچایت کے بعد ہوائی فائرنگ کی گولی
رویندر کو لگی تو مشتعل ہوکر برج بھوشن نے گولی چلانے والے سے رائفل چھین
کراس کا قتل کردیا۔
برج بھوشن کا دعویٰ ہے کہ فیض آباد لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی رکن پارلیمان
للو سنگھ اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فوت ہونے والے کے وارثین
نے برج بھوشن کو سزا دلانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ للو سنگھ اپنے ضمیر کی
آواز پر اس مظلوم کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کی سعی کیوں نہیں کرتے ؟ کیا
یہ اس لیے ہے کہ برج بھوشن سرکاری پناہ میں ہےیا للو سنگھ کا ضمیر مردہ
ہوچکا ہے ؟ وہ انہیں ایک غریب کی داد رسی پر مجبور نہیں کرتا؟ ایسے بے شمار
سوالات موجودہ نظام جبر کی نقاب کشائی کرتے ہیں لیکن اسے رام راجیہ کا نام
پر خوشنما بنایا جارہا ہے۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعدبرج بھوشن کو گونڈہ سے
سابق وزیر کنور آنند سنگھ نے گینگسٹر ایکٹ کے تحت جیل بھجوایا لیکن ان کی
انتخابی افادیت نے سارے جرائم پر بھاری ہوگئی۔برج بھوشن کابار بارحزب
اقتدار کے ٹکٹ پررکن پارلیمان بن جانا اس کے سارے جرائم کی پردہ پوشی کے
لیے کافی ہے۔ اپنے آپ کو پاک صاف کہنے والی بی جے پی نے پانچ بار اسے اپنا
امیدوار بنایا لیکن ایک بار (2009 میں) ایس پی کے ٹکٹ پر بھی اس نے کامیابی
پرچم لہرایا۔
1991 اور 1999 میں گونڈہ لوک سبھا سیٹ سے لڑانے کے بعد 2004 میں جب بی جے
پی نے اسے بلرام پور سے ٹکٹ دے کر گھنشیام شکلا کواس کے حلقۂ انتخاب سے
امیدوار بنایا تو عین پولنگ کے دن ایک سڑک حادثے میں شکلا کی موت
ہوگئی۔اسکرول میں برج بھوشن نے یہ اعتراف کیا کہ خود وزیر اعظم ’اٹل جی نے
مجھے بلایا اور کہا، ‘مروا دیا (تم نے اسے)‘ یعنی ان کو یقین تھا کہ شکلا
کا قتل اسی نے کیا ہے۔ اس کے باوجود برج بھوشن پر بی جے پی نے کوئی
کارروائی نہیں کی لیکن جب 2008 میں اس نے ایک اہم اعتماد کی تحریک میں اپنی
ہی پارٹی کے خلاف کراس ووٹنگ کی تو بی جے پی نے نکال باہر کیا، لیکن اس سے
کوئی فرق نہیں پڑا ایس پی کے ٹکٹ پر جیت کر اس نے گھر واپسی کرکے2014 اور
2019 میں کمل کے نشان پر جیت درج کرائی۔برج بھوش 2011 سے ریسلنگ فیڈریشن آف
انڈیا کا صدر بنا ہوا ہے۔ خواتین پہلوانوں کی جنسی ہراسا نی اور جسمانی
استحصال کے سنگین الزامات کے باوجود اس مافیا کا بال بیکا نہیں ہوتا ۔ اتر
پردیش کے اندر’ مافیا کو مٹی میں ملا دینے کی ‘یہ حقیقت ہے ۔ اس کے باوجود
اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عتیق احمد کے قتل اور مختار انصاری پر لگام کسنے سے
قومی سیاست سے دبنگائی ختم ہوجائے گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہےلیکن
یہ سوال بھی اہم ہے کہ مختار انصاری پر اور برج بھوشن سے پیار کا رویہ آخر
کون سا انصاف ہے؟
|