پچھلے سال ان ہی دنوں ایک امریکی
عدالت نے ایک ایسافیصلہ سنایا کہ کتابوں میں درج قوانین اور سزائیں بھی سسک
کررہ گئے۔انصاف ہکا بکارہ گیاجب ایک نحیف خاتون کو86 برس کی سزادی گئی۔
اجنبی شہرمیں
خاک برسرہوئی زندگی
کیسی بے گھرہوئی زندگی!
اسکاجرم ؟؟ اسکے حکمرانوں کی بے حسی اوربے غیرتی،عوام کی بے بسی اوربزدلی
کے ساتھ ساتھ میڈیاکی مجرمانہ چشم پوشی کہی جاسکتی ہے!در اصل یہ ہی وجو ہات
ہیں!کیونکہ اس پرجوفردجرم عائدکی گئی ہے وہ اتنی مضحکہ خیزہے کہ اس کاموجب
سزابننامحال ہے۔مگرجب مندرجہ بالاوجوہات امریکہ کی اسلام دشمنی اورخوف سے
ٹکرائیں تووہ احمقانہ اور ظالمانہ فیصلہ سرزد ہواجس پرانصاف کونہ جانے کب
تک شرمندہ ہوناپڑے گا۔کیا ایسے ظالمانہ اورجابرانہ فیصلوں کی کوئی نظیرملتی
ہے؟؟
جی ہاں!تاریخ میں قصہ فرعون اورموسٰی اسکی بنیادنظرآتے ہیں۔جب وقت کا فرعون
خوف کی نفسیات کے تحت یہ حکم صادرکرتاہے کہ ہرپیداہونے والے لڑکے کو قتل
کردیاجائے مبادا وہ اسکی حکومت کے لیے چیلنج نہ بن جائے۔اور تاریخ یہ
عبرتناک منظردکھاتی ہے کہ اس کی حکومت تہہ وبالا کر نے والابچہ خوداس کے
محل میں پرورش پاتاہے۔تاریخ سے سبق آج تک نہ سیکھاگیاہے! لہٰذا آج کا فرعون
دیگرتہذیبوں کونیست ونابودکرنے کے لیے تعلیم کاڈول ڈالتا ہے،ترقی کے جھانسے
دیتاہے اورمعیارزندگی کالالی پاپ دے کردنیابھرکے ذہین دماغ کو اپنے پاس جمع
کرلیتاہے اورپھرجب برین واش کے ساتھ وہ اپنے ملکوں میں واپس جاتے بھی ہیں
تو ان کے لیے کوئی کارآمدپرزہ بننے کے بجائے فرعون کے ہی گماشتے بن جاتے
ہیں۔
ایسے میں پھراﷲکی تدبیرکام کرتی ہے اورانہی میں سے کوئی ایسا نکلتاہے
جوطاقت اورتوانائی لیکراپنامعیارزندگی بڑھانے کے بجائے اپنی قوم کی تقدیر
بدلنے کا فیصلہ کرلیتاہے۔اور یہ روشن نام ہے ڈاکٹر عافیہ!جواپنی تعلیم اور
قابلیت کو اپنی امت کے لیے استعمال کرناچاہتی تھی۔اس نے ہرامریکی آفرکو
ٹھکراکراپنے ملک جانے کا فیصلہ کرلیاتھا۔پھراس کے پاؤں میں زنجیرڈالی گئی
جواس کاشوہربنا۔یہ بات اب
کوئی رازنہیں رہی کہ اسکی تباہی میں اسکے شوہرکاکیاکردارتھا؟وہ توپلانٹڈ
تھااوراس نے اپنے دیے گئے ٹارگٹ کے مطابق کارروائی کی۔
مشرق کی بیٹی اپنی معصومیت کے ہا تھوں پھنسادی گئی اور9/11 کے ڈرامے کے
ذریعے حکومتوں کے ساتھ ساتھ اسکوبھی گھیرلیاگیا۔وقت کاپردہ سرکا توسارے
بھیدکھلے۔ بہروپیوں کا پردہ چاک ہوا۔
ہم اہل جبرکے نام ونسب سے واقف ہیں
سروں کی فصل جب اتری تھی تب سے واقف ہیں
اسی طرح کامنظرہمیں قرآن دکھاتاہے جب تیس ہزارجادوگرشعبدہ بازی دکھانے جمع
ہوئے توسچائی اورحق کے عصا نے سارے سانپ نگل لیے۔آج پھر وہی سماں ہے۔ فرعون
اپنے بنائے ہوئے جال میں خودہی پھڑپھڑا رہا ہے۔ اگر وہ ایسانہ کرتا توشاید
اسکی تباہی کچھ دیرٹل جاتی۔
مگریہ معاملہ تو اس کی بربادی کاسامان بن کررہے گا۔ایک بے خانماں،کمزور
عورت کوقیدکرکے اور 86 برس کی سزاسناکردراصل وہ اپنے کرتب دکھانے کی کوشش
میں ہے اورجس کاانجام اب کچھ زیادہ دیراوردورنہیں رہا۔ڈراپ سین سے پہلے کچھ
ایسے ہی مناطراورفیصلے سامنے آ تے ہیں۔جادوگروں کو بہیمانہ طور پرقتل کرنے
کاحکم اگراسوقت کے فرعون کافیصلہ تھاتو86 برس قیدکا فیصلہ آج کی فرعونیت کے
تابوت کے لیے آخری کیل بن جائے گا ان شاء اﷲ۔
اس ظالمانہ فیصلے کو ایک سال گزرگیا۔گویازوال اورقریب ہوگیا۔اس ہمت کے پہاڑ
کوتونہ ہلایاجاسکا ہاں فیصلہ کر نے والے کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے۔ جیسے
فرعون ڈوب گیاہاں اس کی داستان عبرت ضرورباقی رکھی گئی ۔چھیاسی سال کی سزا
سناکرسکھ کا سانس لینے والے اطمینان سے تھے کہ اس مسئلے سے نجات ہوئی۔انکے
لیے عرض ہے کہ پچاسی سال تو ایک طرف،ہو سکتا ہے کہ پچاسی دن اورپچاسی گھنٹے
بھی نہ مل سکیں اس بت کو پاش پاش ہونے میں !
کتنی خوش قسمت ہے وہ قوم جسے عافیہ صدیقی جیساہیرانصیب ہوا اور کتنی بدنصیب
ہے عافیہ صدیقی کہ اسے یہ قوم ملی ہے! اوراس ناشکری اور ناقدری کا ہی نتیجہ
ہے کہ عذابو ں میں گرفتارہے۔یہ عذاب نا اہل اورکرپٹ حکمران کی صورت میں بھی
ہے اورآپس کے کشت وخون سےبھی، سیلاب اورزلزلے بھی ہیں اورننھے سے کیڑے کا
عذاب بھی! لیکن تاریخ کا مطالعہ بتاتاہے کہ ہرقوم میں تین طرح کے گروہ ہو
تے ہیں اوران میں وہی کامیاب ہیں جو برائی کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں ۔
پچھلے آٹھ سال سے کرب وبلا میں مبتلا کسی محمد بن قاسم کی منتظرعافیہ کو
معلوم ہوکہ اسکی قوم میں کچھ لوگ ہیں جو اس دن سے سکون سے نہیں بیٹھے جب سے
اسکوگرفتاردیکھا ہے اورہروہ کوشش کررہے ہیں جوکرسکتے ہیں۔ دعاؤں کا خزانہ
ہے جوعافیہ پرنچھاورہے۔ اورآج بھی اس فیصلے کے خلاف عافیہ ڈے منارہے ہیں ۔
کیا آج کے دن آپ ان کا ساتھ دے کر اپنا تعلق کامیاب گروہ میں کروائیں گے؟؟ |