اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں عدلیہ ہمیشہ
اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھلونے کی مانند کھیلتی رہی ہے ۔عدلیہ موم کی ایک
ایسی ناک کا روپ دھارن کر چکی ہے جسے اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی سے تورٹی اور
مروڑتی رہی ہے۔من پسند فیصلے حاصل کرنا اسٹیبلشمنٹ کے بائیں ہاتھ کا کھیل
ہوتا ہے۔دونوں اداروں کی خاموش رفاقت پاکستان کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہو ئی
ہے۔کئی دیدہ ور اور ذہین و فطین قائدین ان کی باہمی رفاقت سے موت کی آغوش
میں دھکیل دئے گے لیکن یہ دونوں پھر بھی باز نہیں آئے۔عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ
نے اس ملک کے ساتھ جو کھیل کھیلا ہے اس نے پاکستان کو تباہ و برباد کرکے
رکھ دیا ہے۔سیاسی قائدین کو جس تذلیل انگیز انداز سے پاؤں تلے روندھاگیا وہ
کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ کبھی جنر ل ایوب خان ،کبھی،کبھی جنرل یحی خان
،کبھی جنرل ضیا الحق اور کبھی جنرل پرویز مشرف نے بزورِ قوت اقتدار پر قبضہ
کر لیا تو عدلیہ ریت کی دیوار ثابت ہوئی ۔لیکن منتخب وزیرِ اعظم کو تو ہینِ
عدالت میں عہدہ سے برخاست کرنے میں بہادری کا ڈھول شان و شوکت سے پیٹنے کا
موقع کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔کیسی عجیب منطق ہے کہ شب خون پر تو
عدلیہ دبک کر بیٹھ جاتی ہے لیکن سوئیس عدالت کو خط نہ لکھنے پر عدلیہ اتنی
سیخ پا ہو جاتی ہے کہ وزیرِ اعظم کو گھر بھیج دینے میں لمحہ بھر کی دیر
نہیں کرتی۔صدر کو آئینی استثناء حاصل ہونے کے باعث ایسا خط لکھا نہیں جا
سکتا تھا لیکن افتخار چوہدری اس وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے لہذا بضد تھے
کہ ایسا خط لکھا جانا آئینی تقاضہ ہے۔بیرسٹر اعتزاز احسن آئین و قانون کی
لاتعداد پر اثر مثالیں پیش کرتے رہے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ جب کانوں
کے دریچے بند ہو جائیں تو انسان کسی بھی دلیل کو سننے سے معذور ہوجاتا ہے
اور سچائی کی رمق کبھی بھی پلے نہیں پڑتی۔ مسند نشین کی ذاتی انا آئین سے
بالا تر ہو جائے تو قانون گھر کی لونڈی بنا لیا جاتا ہے اور ایسا فیصلہ
صادر کر دیا جاتا ہے جو آئین و قانون ے مطابقت نہیں رکھتا اور یہی سب کچھ
افتخار محمد چوہدری نے کیا تھا۔ان کے سامنے منتخب وزیرِ اعظم کی کوئی اوقات
نہیں تھی لہذا انھیں ان کے عہدہ سے سبکدوش کر دیا گیا حالانکہ ایسا آئینی
تقاضہ نہیں تھا۔،۔
وطنِ عزیز میں جسٹس منیر سے شروع ہونے والی من پسند فیصلوں کی زنجیر کبھی
ٹوٹ نہ پائی بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ ہر دفعہ کسی نئی منطق سے آئین کا
حلیہ بگاڑدیا جاتا ہے ۔ہم نے جسٹس انوار الحق ،جسٹس مولوی مشتاق حسین، جسٹس
سجاد علی شاہ ، جسٹس نسیم حسن شاہ ،جسٹس محمد ارشاد ، جسٹس جاوید اقبال اور
افتخار محمد چوہدری جیسے جسٹس دیکھے ہیں جن کے ہاتھوں آئین و قانون کو
یرغمال بنا لیا گیاتھا۔ذولفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ ظلم و ستم کی
ایک ایسی خونچکان داستان ہے جس پر دنیا ابھی تک اشک فشاں ہے۔لوگوں کی
آنکھوں میں تیرنے والے آنسو کبھی خشک نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ ایک ایسا گہرا
زخم ہے جس کی کوئی آئینی اور قانونی بنیاد نہیں تھی۔ذولفقار علی بھٹو کواس
کی ذہانت کی سزا دی گئی تھی،اسے قوم کی امنگوں کو زبان عطا کرنے کی سزا دی
گئی تھی،اسے عوام کو عزتِ نفس عطا کرنے کی سزا دی گئی تھی،اسے محروموں کا
امراء کے برابر درجہ دینے کی سزا دی گئی تھی، اسے مزدروں اور محنت کشوں کو
پارلیمنٹ میں بٹھانے کی سزا دی گئی تھی اور سب سے بڑھ کر کہ اسے اسلامی
دنیا کو واتحادو یکجہتی عطا کرنے کی سزا دی گئی تھی۔ذولفقار علی بھٹو کو تو
اس دنیا سے رخصت ہوئے کئی عشرے گزر چکے ہیں لیکن عوام ہیں کہ اس عدالتی قتل
کو بھولنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔جو قوم اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہے وہ
صفحہ ِ ہستی سے مٹ جاتی ہے ۔ہمارے قومی محسنوں کی لسٹ پہلے ہی بڑی مختصر ہے
جس میں قائدِ اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال،قائدِ ملت لیاقت علی
خان ،محترمہ فاطمہ جناح اور پھر ڈ اکٹر عبدالقدیر خان جگمگ جگمگ کرتے نظر
آتے ہیں۔ یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ ذولفقار علی بھٹو اس قوم کا محسن
تھا اور اس قوم کی خاطر اس نے اپنے شب و روز وقف کئے تھے۔وہ صدقِ دل سے اس
قوم کی حالت بدلنا چا ہتا تھا ۔لیکن عالمی طاقتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو اس کی
یہ ادا پسند نہیں تھی لہذا عدلیہ کی مدد سے اسے اپنے راستے سے ہٹا دیا گیا
۔جنرل ضیا الحق کے ساتھ ذ ولفقار علی بھٹو کی مخاصمت توبڑی دلدوز تھی لیکن
حیران کن امر یہ ہے کہ اس مخاصمت کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے عدلیہ
کا کندھا استعمال کیا گیا جسے عوام نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔انسانی تاریخ
میں جنرل ضیا لحق ایک ایسا ستعارہ ہے جو ظلم و بربریت کی نمائندگی کرتا ہے
جبکہ ذولفقار علی بھٹو حریت و جانبازی اور جی داری کا استعارہ ہے اور دنیا
ہمیشہ بہادروں کی قدر کرتی ہے لہذاذولفقار علی بھٹو ہر حساس دل میں جا گزین
ہے جہاں سے اسے کوئی نکال نہیں سکتا۔محبت کو کوئی مار نہیں سکتا اور ظلم کو
کوئی ثمر بار نہیں کر سکتا۔،۔
عدالتی تاریخ میں کچھ بڑے نام بھی ہیں ۔ آر اے کیانی،جسٹس کارنیلیس، جسٹس
صفدر شاہ اور جسٹس بھگوان داس عدلیہ کے اسی آنگن میں ہیروں کی مانند چمک ر
ہے ہیں اوران پر قوم بجا طور پر فخر کرتی ہے۔لیکن ایک نام جس نے جی بھر کر
انصاف و قانون کا مذاق اڑایا اسے قوم میاں ثاقب نثار کے نام سے جانتی ہے ۔
میاں ثاقب نثار نے تو اسٹیبلشمنٹ کی فرمانبرداری میں حد کر دی تھی۔فلم سٹار
شاہد کے انٹر ویو کی وساطت سے میاں ثاقب نثار کا جو کردار سامنے آیا ہے اس
پر اہلِ دانش حیران ہیں کہ ایسا کم ظرف انسان بھی چیف جسٹس کی مسندکا سزا
وار ہو سکتا ہے ؟ڈ یم کے لئے فنڈ اکٹھے کرنا ،دوسروں کی تذلیل کرنا،مخالفین
کونا حق سزا سنانا اور بے شمارسومو ٹو لینا ان کے دور کو متنازعہ بنائے ہو
ئے ہیں ۔اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں منتخب وزیرِ اعظم کو ان کے
عہدہ سے عمر بھر کیلئے فارغ کرنا ثاقب نثار کے زرخیز ذہن کی کرشمہ سازی ہی
ہو سکتی ہے وگرنہ آئین و قانون کی دنیا میں ایسی نظیر ڈھونڈے سے بھی نہیں
ملتی۔پانامہ کیس میں میاں محمد نواز شریف کو کرپشن پر سزا سنائی جاتی تو
اہلِ وطن سکھ کا سانس لیتے کہ کوئی نہ کوئی تو احتساب کی تلوار کا شکار ہوا
لیکن یہاں پر تو ذاتی حساب برابر کرنا مقصود تھا یا پھر کسی غیر کی خوشنودی
سمیٹنا پیشِ نظر تھا ۔جب پانامہ اقامہ میں ڈ ھلا تو اہلِ وطن نے اسے تسلیم
کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ آئین و قانون اور انصاف کا کھلا خون تھا
اور کھلا خون تو کبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا چاہے یہ دشمن کے خلاف ہی کیوں
نہ ہو۔بہادر بے ایمانی اور مکاری پر نہیں بلکہ کھلی سچائی پر لبیک کہتے
ہیں۔فیصلہ صادر کر دیا گیا اور وزیرِ اعظم کو وزیرِ ا عظم ہاؤس سے چلتا کر
دیا گیا لیکن نا انصافی پر مبنی یہ فیصلہ ابھی تک وقت کے ایوانوں میں سر
گرداں ہے کیونکہ اس کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے۔اسے واپس لیا
جانا نا گزیر ہے کیونکہ اس نے آئین و قانون کی پیشانی پر جو بد نما دھبہ
لگایا ہے وہ ایسے جانے والا نہیں ہے ۔ ضروری ہے کہ قانون کی عملداری کو
آئین و قانون کا پابند کیا جائے تا کہ سب کے ساتھ انصاف ہوتا ہوا نظر
آئے۔ہمارے ہاں اسٹیبلشمنت کی حقیقی طاقت کا صحیح اندازہ ہمیں عمران خان کے
حالیہ بیانات سے چلتا ہے جس میں انھوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو عقلِ کل
اور خود کو ان کا کٹھ پتلی قرار دے لیا ہے۔کوئی بھی فیصلہ ہو ااس کے ڈانڈے
جنرل قمر جاویدباجوہ سے جا کر ملتے ہیں ۔حتی کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی
قربانی بھی قمر جاویدبا جوہ کے حکم کی تعمیل کا شاہکارقرار پائی ہے
۔کیاوزیرِ اعظم اتنا ہی بے بس ہو تا ہے کہ وہ کسی جنرل کی چشمِ آبرو کا
پیرو کاربن جائے ؟سچ تو یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کسی جنرل کا نہیں بلکہ عوامی
امنگوں کا ترجمان ہو تا ہے لیکن پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ایسا نظر نہیں
آ رہا تھا ۔ جنرل حکم صادر کرتا تھا اور وزیرِ اعظم اسے بے چون و چرا تسلیم
کر لیتا تھا کیا اسے آئین و قانون کی عملداری کا نام دیا جا سکتا ہے ؟قوم
ابھی تک حیران و پریشان ہے کہ جسے ہم اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں وہ
بوٹوں کے دام کا اسیر کیوں ہو جاتا ہے؟ |