حالات کے بھنور میں پھنسی قوم کی کشتی کو کنارے لگانا، اس
طبقے کا کام ہوتا ہے جو عقل وخرد اور سماجی مرتبے میں ”خواص“ کے درجے کا
ہوتا ہے۔ اگر کسی قوم کے پاس ذہانت وفراست، ہمت وحوصلہ، ایثار وبے لوثی،
حقیقت پسندی اور غیرت مندی کی صفات سے متصف خواص کی ایک جماعت ہوتی ہے تو
وہ پوری قوم میں عزم، جوشِ عمل، صبر وبرداشت، حالات کی تبدیلی کے لیے
قربانیوں کا مزاج اور ظلم سے نبرد آزمائی کا حوصلہ پیدا کردیتی ہے۔ اور ایک
وقت آتا ہے وہ کمزور قوم گوہرِ کردار سے مزین اور قوتِ عزم سے مسلح ہوکر
حالات کے گرداب سے ابھر آتی ہے۔اور پھر اس کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوتا
ہے، جس میں وہ ثابت کردیتی ہے کہ انصاف اور طاقت کے سلسلے میں قلت وکثرت بے
معنیٰ اور غیر موٴثر باتیں ہیں؛ مگر جب طبقہٴ خواص میں کردار کی بنیادوں
میں پانی مرنے لگتا ہے اور اخلاق کے شجرِ پُر بہار کی جڑیں دیمک زدہ ہو
جاتی ہیں تو اس قوم کو حالات کی ستم ظریفیوں سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہمارے
اس سربر آوردہ طبقے کا اخلاقی کردار کس سطح کا ہے؟ اس میں کس قدر خلوص، بے
لوثی اور ایثار کی صفت ہے؟ اپنی مظلوم فریادی قوم کے لیے ان کی دَردمندی کا
کیا حال ہے؟ کیا یہ خودداری، غیرت مندی اور بے نیازی کی شان رکھتے ہیں؟ ان
میں کتنی بلند حوصلگی اور عالی ہمتی ہے؟ اس سے بھی آگے بڑھ کر کیا شہرت اور
منصب ان کی اصول پسندی اور رفعتِ کردار کو متأثر کرنے میں ناکام رہتے ہیں؟
اور اگر قومی مصلحت ان کے ذاتی مفادات اور امنگوں کی قربانی مانگے تو یہ اس
امتحان میں کتنے کامیاب ہو سکتے ہیں ؟ خواص کی اخلاقی حالت جاننے کی کسوٹی
اسی قسم کے سوالات ہیں۔ اگر آپ اپنی قوم کو مظلوم اور کمزورجانتے ہیں اور
یہ خیال کرتے ہیں کہ مخالیفوں کی طاقتیں اس کے خلاف سازشوں اور ستم رانیوں
میں مصروف ہیں تو یقینا آپ کو اس کا بھی یقین ہو گا کہ ان مصائب سے نجات
پانے کے لیے آپ کی قوم کو سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ شروعات سے
اتحاد اور باہمی تعاون ومدد کا مزاج ہے؛ مگر جان لیجیے کہ ہمارا جو اخلاقی
حال ہے، اس کی وجہ سے سب سے پہلے قوم کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے؛ اس لیے
کہ اتحاد کی پہلی شرط ایمان دارانہ حق شناسی، دوسروں کی برتری کا شریفانہ
اعتراف اور ایثار جیسی صفات ہیں۔ اگر خواص میں حق شناسی نہ ہو، ایمانداری
کے ساتھ دوسروں کے مرتبے اور فوقیت کا اعتراف نہ ہو ، اور کم از کم درجے کا
بھی ایثار نہ ہو، اور ان صفات کی جگہ عالم یہ ہو کہ ہر شخص اپنی ذات کا
اسیر اور خود کی عبادت میں مصروف ہو تو یقینا نفسا نفسی کا عالم ہی قائم
نظر آئے گا۔
اپنی صفوں میں اتحاد کی توقع کرنا ایسا ہی ہے کہ آپ کسی بیمار و لاغر سے
توقع کریں کہ وہ کسی بڑے پہلوان کو چت کردے۔ اتحاد کے بعد دوسری چیز جو
خواص کی اخلاقی پستی سے ریزہ ریزہ ہوتی ہے، وہ ہے قوم کا اپنی قیادت پر
اعتماد۔ قیادت پر سے اعتماد ُاٹھنے کے بعد عوام مایوس اور بے عزم ہو جاتے
ہیں اور کسی جدوجہد اور تحریک میں سرگرم نہیں ہوتے۔ جب ان کو کسی قربانی کے
لیے پکارا جاتا ہے تو وہ دعوت صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ اگر اصول پسندی،
بے غرضی، ایثار، سچائی،اعتراف وحق گوئی،انصاف اور مقصدیت کی صفات کا مظاہرہ
کریں گے تو یقینا ان کے کردار کے اثرات پوری قوم پر پڑیں گے۔ قوم کے جو
باشعور دردمند اس پست اخلاقی سطح سے بلند بھی ہوتے ہیں، ماحول کی مایوسیاں
ان کے حوصلوں کی لگام کھینچ لیتی ہیں اور وہ کسی خاموشی کے غار میں بیٹھ
رہنے میں ہی عافیت اور اپنے دین ودل کی خیر اور عزت وآبرو کی سلامتی سمجھتے
ہیں۔ اصول پسندی کی جگہ ہماری قیادتوں کا شیوہ مطلب پرستی اور اغراض کی
رعایت ہو چکا ہے۔ جس کو جس موقف اور کام میں فائدہ نظر آتا ہے وہ اس کی بھر
پور وکالت کمالِ دلسوزی اور خلوص کے مظاہرے کے ساتھ کرتا ہے. آپسی تنافس نے
بھی ہمیں نہایت نقصان پہونچایا ہے۔ اگر ہماری ہر تنظیم قوم کے مسائل کے
بجائے اپنی نمائندگی اور حلقہٴ اثر بڑھانے ہی کو عملاً اصل مقصد اور اولین
ترجیح بنائے گی تو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا یہ لا متناہی شوق ہر ناکردنی
کرانے کے لیے کافی ہے۔ اور پھر جب مات کردینے کا کھیل شروع ہو جائے تو
اخلاق واصول کہاں بچتے ہیں؟ کسی مظلوم اور کمزور قوم کی قیادت کو اگر ذلت
کے گرداب اور ظلم کے شکنجے سے خلاصی حاصل کرنی ہے اور طاقتور مخالیفوں سے
پنجہ آزمائی کرنی ہے تو اس کے لیے غیرت وحمیت کی طاقت پہلی شرط ہے۔ آج آپ
جس معرکے میں ہیں، اس میں طمع ولالچ کی عِشوہ طرازیاں خوف کی لام بندیوں سے
پہلے سامنے آتی ہیں؛ مگر ہم میں ”صاحب سلامت“ کا شوق اتنا پیدا ہوگیا ہے
اور ہمیں سرکار دربار سے مرعوبیت نے اس بری طرح گھیرا ہے کہ اس کے ذکر سے
بھی حیا مانع اور شرم دامن گیر ہے۔ یہ تذکرہ نہ قوم کے رذیل وبد کردار
لوگوں کا ہو رہا ہے، نہ عوام کا۔ یہ ہمارے اچھے لوگ ہیں، یہ قوم کی قیادت
اور نمائندگی کے مقامِ بلند پر سرفراز لوگ ہیں۔ ہم دوسروں کو اخلاقی پستیوں
کا بڑا طعنہ دیتے ہیں، یہ تذکرہ نہ قوم کے رذیل وبد کردار لوگوں کا ہو رہا
ہے، نہ عوام کا۔ یہ ہمارے اچھے لوگ ہیں، یہ قوم کی قیادت اور نمائندگی کے
مقامِ بلند پر سرفراز لوگ ہیں۔ ہم دوست وزن کو اخلاقی پستیوں کا بڑا طعنہ
دیتے ہیں.
اور اپنے ذاتی عمل اور کردار میں اس درجے گرجانے والوں کی تعداد تو کچھ خاص
نہیں؛ مگر اس پر بڑوں کی طرف سے قول اور عمل سے شدید نکیر اور تقذّر (گھِن)
کا اظہار نہ ہونے کی وجہ سے یہ پست اور فاسد عنصر اپنی تعداد لگاتار بڑھاتا
جارہا ہے۔
|