1965 کی بات ہے جب پاک بھارت جنگ چل رہی تھی۔ اس دور میں
زیادہ تر سفر ٹرین سے ہی کیا جاتا تھا۔ ایک ہائیکورٹ کے جج کو کسی دوسرے
شہر جانا پڑگیا۔ اس کو درجہ اول میں تو جگہ ملی نہیں بحالت مجبوری درجہ دوم
میں بیٹھ گیا۔ درجہ دوم میں مسافر بہت جذباتی اندازمیں جنگ کی باتیں کررہے
تھے اور ہرایک اس بات پر قائل تھا کہ انڈیا کی اس دفعہ درگت بننے والی ہے۔
کسی نے جج صاحب کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ پڑھے لکھے ہیں ان سے رائے پوچھتے
ہیں۔ جج صاحب نے جواب دیا کہ چونکہ انڈیا ایک طاقتورملک ہے اسلئے ہم زیادہ
دنوں تک لڑ نہیں سکتے۔ یہ سننا تھا کہ مجمعےنے جج صاحب کو انڈین ایجنٹ کہتے
ہوئے پھینٹی لگا دی اوربڑی مشکل سے جج صاحب کووہاں سے نکالا گیا۔
بعد میں کسی نے جج صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اس سفر سے کیا سبق حاصل کیا؟
جج صاحب نے کہا صرف ایک بنیادی سبق، وہ یہ کہ،
”فرسٹ کلاس کی باتیں سیکنڈ کلاس میں نہیں کرنی چاہئیے“۔ پاکستان میں موجودہ
سیاسی کشیدگی بھی کچھ اس طرح کی عکاسی کرتی ہے۔سیاست ،اقتدار اور طاقت حاصل
کرنے کے نشے نے سب سے پہلے پاکستان والی سوچ کو بہت دور کر دیا ہے ۔اپریل
2022 سے شروع ہونے والا ڈرامہ مکمل سسپنس کیساتھ جارہی ہے۔اس ڈرامے کا
اختتام ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ۔تمام سیاسی جماعتیں بشمول اداروں کے سیاست
کی ان بھول بھلیوں میں ایسے الجھ چکے ہیں ۔بلک یہ کہنا چاہئے ایک ایسی
اندھی گلی میں ملک کی صورتحال کو داخل کر چکے ہیں ۔اب واپسی ناممکن بنتی
جارہی ہے۔یا پھر ایسا طاقتور اندرونی یا بیرونی ہاتھ شامل ہے ،جسکے پس پردہ
مقاصد پورے نہیں ہو پارہے ہیں۔اور خدانخواستہ وہ مقاصد کہیں سقوط ڈھاکہ سے
مماثلت نہ رکھتے ہوں ۔معاشی طور پر پاکستان ڈیفالٹ کرنے کی ڈیڈ لائن کراس
کر چکا ہے۔دنیا میں ایک ناقابل اعتبار شکل تصویر بنتا جا رہا ہے۔یا پھر
بنایا جا رہا ہے ۔ان حالات سے مایوس ہو کر ایک سال کے دورانیہ میں 16 لاکھ
کے لگ بھگ نوجوان طبقہ دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کر چکا ہے۔ایسے حالات پیدا
کر دئیے گئے ہیں۔جو مملکت خدادا کو اندر سے دیمک کیطرح کھوکھلا کر رہے ہیںِ
۔اگر چند مثبت سوچ کی حامل شخصیات نے موجودہ سیاسی کشیدگی کم کرنے اور ملکی
حالات کا ادراک کرتے ہوئے ۔مثبت پیش رفت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیںِ
۔لیکن نظر یہی آرہا ہے کہ فرسٹ کلاس کی باتیں سیکنڈ کلاس میں نہیں کرنے
والا جواب سننے کو مل سکتاہے۔
|