کرناٹک الیکشن کا واضح پیغام یہ ہے کہ ’ٹائیگر زندہ ہے‘۔
بی جے پی سے ساڑھے ساتھ فیصد زیادہ ووٹ حاصل کرکے کانگریس نے زعفرانیوں کا
جو حال کیا اس کو ایک مثال سے سمجھاجاسکتا ہے۔ رائے شماری کے دوران جب
ابتدائی رجحان آنا شروع ہوئے تو دیکھتے دیکھتے کانگریس اور بی جے پی کے
درمیان چالیس نشستوں کا فاصلہ ہوگیا جو بالآخر ساتھ سیٹوں کا ہوگیا ہے۔ اس
پر نیوز 24 کے مانک گپتا نے بی جے پی ترجمان راجیو جیٹلی سے پوچھا کہ اب
آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ اس پر راجیو نے جواب دیا کہ ابھی تو الیکشن کمیشن
کی ویب سائیٹ پر کچھ آیا نہیں ہے۔ مانک گپتا نے فوراً الیکشن کمیشن کے
اعدادو شمار بتادئیے جس میں کانگریس پچیس اور بی جے پی بارہ پر تھی۔ اب
راجیو کی سٹی ّ پٹیّ گم ہوگئی تو مانک گپتا نے کہا ’ارے بھائی ہمیشہ کی طرح
اتنا تو کہہ دیں کہ نتیجہ کچھ بھی نکلے سرکار ہماری ہی بنے گی‘۔ اس پر بے
دلی سے راجیو جیٹلی نے کہا ’جی ہاں ایسا ہی ہوگا ۔ سرکار ہماری ہی بنے گی‘۔
ٹیلی ویژن پر اچھل اچھل کر بولنے والے بی جے پی ترجمان کی ایسی بری حالت
پہلی حالت دیکھی نہیں گئی تھی لیکن پھر مانک گپتا نے ان کے زخموں پر نمک
پاشی کہتے ہوئے کہا تو کیا آپ تسلیم کررہے ہیں کہ آپ کا سب سے بڑا رہنما
اپنی پارٹی کو کامیاب کرنے میں ناکام ہوگیا؟ اس سوال کا کوئی جواب راجیو
جیٹلی کے پاس نہیں تھا مگر اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ کانگریس نے بی جے پی
سے ڈھائی گنازیادہ سیٹ حاصل کرکے اسے دھول چٹا دی تھی ۔
ہندوستان کی سب سے قدیم سیاسی جماعت نے امیت شاہ سمیت ساری دنیا کو یہ بتا
دیا کہ’ کانگریس مکت بھارت‘ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ کرناٹک میں
کانگریس کی کامیابی کے لیے عام طور پر بی جے پی کی خامیوں اور اس کے خلاف
عوامی غم و غصہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر
کمل والے اس قدر بدتمیز اور بدعنوان نہ ہوتے تو اسے ہرانا اتنا آسان نہیں
ہوتا لیکن دشمن کی خامیوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے بھی داخلی مضبوطی درکار
ہوتی ہے۔ اس کا فقدان ہوتو کمزور سے کمزور دشمن بھی بہ آسانی غالب ہوجاتا
ہے۔ اس لیے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کانگریس کی موجودہ قوت کا سرچشمہ کیا
ہے؟ ایک پژمردہ سیاسی جماعت کے اندر یہ حوصلہ اور امنگ کیسے پیدا ہوگیا؟ وہ
کون سے عوامل ہیں جنہوں نے اسے ناکامی کے کھنڈر سے نکال کر ناقابلِ تسخیر
بنا دیا۔ ان وجوہات پر غور کیے بغیر کرناٹک الیکشن کا تجزیہ مکمل نہیں
ہوسکتا۔
کانگریس پارٹی نے اس بار ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مقابلہ کیا
اور یہی اس کی کامیابی کا اولین راز ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ پچھلے سال
اپنے آپ کو جمہوریت نواز کہلانے والی پارٹی بی جے پی نے صدر جے پی نڈا کی
مدت کار بغیر کسی الیکشن کے بڑھا دی۔ مودی نے کہا اور امیت شاہ نے اس کو
نافذ کردیا اس طرح بلا مقابلہ نڈا جی کا تقرر ہوگیا۔ فی الحال بی جے پی کے
اندر کس کی مجال ہے کہ موٹا بھائی اور چھوٹا بھائی کے خلاف کچھ بولنا تو
دور سوچ بھی سکے۔ اس کے برعکس موروثیت نواز کانگریس پارٹی کے اندر الیکشن
ہوئے ۔ اس میں نہرو گاندھی خاندان کا کوئی فرد امیدوار نہیں تھا ۔ آخر تک
ششی تھرور اور ملک ارجن کھڑگے میدان میں رہے ۔ پارٹی کے ارکان کی رائے سے
بزرگ دلت رہنما صدر بنائے گئے اور انہوں نے ثابت کیا کہ نڈا کی مانند وہ
کٹھ پتلی صدر نہیں ہیں۔ اس تبدیلی کے اثرات فوراً نہیں دکھائی دیئے لیکن جب
کھڑگے کے آبائی صوبے کرناٹک کا انتخاب آیا تو سب کو پتہ چل گیا کہ یہ
اقدام کس قدر اہمیت کا حامل تھا ۔ کرناٹک میں تقریر کرنے کے سبب راہل
گاندھی کی پارلیمانی نشست چھین لی گئی مگر ریاست کے عوام نے اس کا بدلہ
لیتے بی جے پی کے گال پر ایسا طمانچہ مارا کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔
کانگریس نے اس الیکشن میں بی جے پی کو اس کے اپنے لب و لہجے میں جواب دینا
سیکھ لیا ہے۔ بی جے پی کی بدزبانی پر کانگریسیوں کا روتے بلکتے الیکشن
کمیشن میں جاکر شکایت درج کرانا عام بات ہے ۔ پہلی بار کمل والے بار بار
الیکشن کمیشن کے دروازے پر گہار لگاتے نظر آئے۔ ملک ارجن کھڑگے نے جب وزیر
اعظم کو زہریلا سانپ کہا تو بی جے پی والوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس
زہرکا اثر ابھی اترا بھی نہیں تھا کہ ان کے بیٹے پریانک نے مودی جی کوقوم
کا نالائق بیٹا کہہ کر یہ الزام لگا دیا کہ ایسے بیٹے سے کیا فائدہ جو گھر
نہیں چلاپاتا۔ 2014؍ کے بعدکانگریس پہلی بار اس طرح حملہ آور ہوئی اور
نتیجتاً وزیر اعظم کو گالیوں کی گنتی کا حساب پیش کر ہمدردی بٹورنی پڑی۔ نو
سالوں تک مرکز میں حکومت کرنے کے بعد اگر کسی وزیر اعظم پر یہ وقت آجائے
کہ وہ اپنی کارکردگی کے بجائے ہمدردی پر ووٹ مانگے تو اس سے زیادہ شرمناک
بات کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ مودی جی کی اس حکمتِ عملی نے پریانک کھڑگے
کےالزام کی توثیق کردی ۔ بی جے پی کے گالی گلوچ پر راہل گاندھی نے نصیحت کی
کہ کھڑگے عمر دراز رہنما ہیں ان سے متعلق تمیز سے بات کی جائے۔
کرناٹک الیکشن نے یہ پیغام بھی دیا کہ کانگریس کے کچھار میں راہل گاندھی کے
علاوہ کئی ٹائیگر مثلاً سابق وزیر اعلیٰ سداّ رمیا، پارٹی کے صوبائی صدر
شیو کمار بھی موجود ہیں اور ان سب کا سربراہ ملک ارجن کھڑگے ہے۔ ان چیتوں
نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر شانہ بشانہ انتخاب لڑا جبکہ بی جے پی کے
مقامی رہنما ایک دوسرے پر بھونکتے اور بھنبھوڑتے رہے۔ اس اندرونی لڑائی کے
سبب ان میں سے کچھ لوگوں نے کمل پھینک کر کانگریس کا ہاتھ تھام لیا۔ پہلے
جب بی جے پی کا ایک آدمی ٹوٹتا تھا تو وہ مخالف کیمپ کے پانچ لوگوں کو توڑ
کر اس کی تشہیر کرتی تھی لیکن اس بار وہ ممکن نہیں ہوسکا۔ یہ معاملہ افراد
سے آگے بڑھ کر طبقات تک پھیل گیا۔ کانگریس نے اس بار بی جے پی کے سب سے
بڑے حامی لنگایت سماج میں سیندھ لگائی۔ یدورپاّ کو ناراض کرکے برہمن شاہی
قائم کرنے کا خواب مہنگا پڑا۔ بدعنوانی کے ذریعہ کمائی جانے والا بھاری
چندہ بھی کسی کام نہیں آیا۔کرناٹک کے بدنامِ زمانہ پے سی ایم نے کمال
ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الکٹرونک طریقہ(جی پے) سے رشوت تقسیم کی اس کے
باوجود لوگوں نے روپیہ لے کربھی ووٹ نہیں دیا۔
وزیر اعظم نے جس طرح مذہب کا استحصال کیا اس کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی
۔ پہلے تو بجرنگ دل کو بجرنگ بلی سے جوڑکر جو توہین کی گئی اس کا انتقام
بجرنگ بلی کے بھگتوں نے لے لیا۔ مودی جی نے رائے دہندگان سے اپیل کی تھی کہ
بجرنگ بلی کا نعرہ لگا کر کمل پر مہر لگائیں ۔ عوام نے تو وزیر اعظم کی اس
درخواست کو ٹھکرا دیا مگر پرینکا گاندھی نے انتخابی نتائج کے بعد بجرنگ بلی
کا نعرہ لگا کر ان کا دل جیت لیا۔ وزیر اعظم کو جب زہریلا سانپ کہا گیا تو
انہوں زور دے کر کہا کہ وہ شنکر کے گلے میں لٹکا زہریلا ناگ ہیں لیکن لوگ
ان کے بہکاوے میں نہیں آئے۔ وزیر اعظم نے بنگلورو کے اندر آٹھ
کلومیٹرطویل روڈ شو کیا لیکن اس کے لیے کیے جانے والے بندو بست سے لوگ
پریشان ہوگئے اور ان کی حالت کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ والی
ہوگئی۔ ایک آرٹی آئی میں انکشاف ہوا کہ حالیہ دنوں میں وزیر اعظم کے
دوروں ڈیڑھ سو کروڈ روپیہ کی خطیر رقم خرچ ہوئی مگر نتیجہ ٹائیں ٹاٗیں فش
اگر یہی رقم عوام کے فلاح وبہبود پر خرچ ہوتی تو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور
ہوتا۔
کرناٹک میں بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میان سبحان اللہ نے بھی بڑی زور دار
مہم چلائی۔ ان کی فسادات والی دھمکی کو منی پور کے فساد نے بے اثر کردیا ۔
مسلم ریزرویشن کو چھین کر وکالیگا اور لنگایت کے درمیان تقسیم کرکے انہوں
عوام کو جھانسے دینے کی کوشش کی مگر لوگ اس میں نہیں آئے ۔ ان کی شکایت کہ
لوگ جلسوں میں نہیں آرہے ہیں درست ثابت ہوئی اور عوام ووٹ دینے کے لیے بھی
نہیں آئے۔ کرناٹک کے انتخاب میں برانڈ مودی پر برانڈ راہل غالب ہوگیا۔
راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے اس سوشیل آڈٹ نے ثابت کردیا کہ اب
نفرت بازار سے پریشان لوگ محبت کے خریدار بن رہے ہیں ۔ وزیر اعظم کو اندازہ
ہوگیا تھا کہ جنوبی ریاستوں کا یہ دروازہ اب بند ہوا چاہتا ہے اس لیے انہوں
نے گھبرا کر کیرالہ اسٹوری جیسی گھٹیا فلم کا سہارا بھی لیا لیکن وہ کوشش
بھی پٹ گئی ۔ کرناٹک کے نندی نے گجرات کے امول کو چاروں خانے چت کردیا ۔ اس
انتخابی مہم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ پہلے لوگ دوسروں کے جلسوں میں مودی
مودی کے نعرے لگاتے تھے مگر اس بار وزیر اعظم کے روڈ شو میں راہل زندہ باد
اور کانگریس کی جئے کے نعرے لگے ۔ اس کے باوجود منا بھائی کی مانند وزیر
اعظم لگے رہے۔ کرناٹک میں نریندر مودی عوام سے ہمدردی بٹورنے میں تو ناکام
رہے مگر ٹیپوسلطان کے مقابلے بجرنگ بلی کی اس ناکامی کے بعد ہم جیسے لوگوں
کو بھی مودی جی پر رحم آگیا اس لیے ڈھارس بندھانے کے لیے یہ شعر ان کی نذر
ہے؎
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
|