چند سال پہلے مجھے بھارت جانے کا اتفاق ہوا۔ دہلی سے پہلے
پورے مشرقی پنجاب میں کوئی مسلمان نظر نہیں آتا۔میں نے ایک سکھ سے پوچھا کہ
کوئی مسلمان پورے بھارتی پنجاب میں رہتا ہے تو کہنے لگا ہاں چند لوگ قادیان
میں موجود ہیں۔ میں ہنس دیا کہ وہ توہم لوگوں کے عقیدے کے مطابق مسلمان
نہیں، تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی مسلمان نہیں رہتا۔ مسجدیں کہیں کہیں نظر آتی
ہیں مگر انتہائی خستہ حال۔ برسوں سے وہاں کسی نے سجدہ نہیں کیا۔ میں
گرداسپور کی ایک مسجد گیا۔ دروازہ بند تھا۔ دو تین آدمیوں نے زور لگا کر
تھوڑا سا کھولا کیونکہ لگتا تھا کہ زیادہ زور لگانے سے دروازہ ٹوٹ جائے گا۔
مسجد کے اندر فرش یوں تھا گویا کسی نے ایک انچ موٹی گریس کی تہہ بچھا دی
ہے۔پانی دور تھا ، کسی طرح فرش صاف کرنے سعی کی مگروہ اس قدر گندی سی چیز
تھی کہ کوشش کے باوجود وہاں کھڑے ہونے کی جگہ بھی بنائی نہ جا سکی تھک ہار
کر ہم دوست مایوس لوٹ آئے۔ ہاں البتہ مسلمانوں صوفیا اور بزرگوں کے مزار
وہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں جو پوری طرح با رونق ہیں اور ہر مزار کا
متولی کوئی سکھ وہاں موجود ہے جو اس کی دیکھ بھال اور صفائی کا کام دل سے
کرتا ہے ۔عام سکھ پوری طرح ان مزاروں پر آتے ، دعا مانگتے اور ان بزرگوں کو
پورا احترام دیتے ہیں۔
کلدیپ نائر اور خوشونت سنگھ بھارت کے دو مشہور وکیل، صحافی اور لکھاڑی ہیں
۔ ان دونوں نے مسلمان بزرگوں کے حوالے سے اپنا اپنا تجربہ اپنی کتابوں میں
بیان کیا ہے۔ کلدیپ نائر سیالکوٹ کے ٹرنک بازار کے رہائشی تھے۔ تقسیم کے
بعد بھارت چلے گئے۔ ایک دفعہ انہوں نے حکومت کیخلاف اس کے بارے ایک آرٹیکل
لکھا جس کی پاداش میں انہیں جیل ڈال دیا گیا۔ابھی جیل میں انہیں چند دن ہی
گزرے تھے کہ ان کی والدہ ان سے ملنے آئیں اور انہیں بتایا کہ میں نے رو رو
کر پیر صاحب سے تمہاری رہائی کی دعا کی تھی ۔ چنانچہ کل رات پیر صاحب میرے
خواب میں آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ تمہیں اس جمعرات کے دن رہا کر دیا
جائے گا۔کہتے ہیں کہ ماں کی بات سن کر مجھے ہنسی آئی کہ جنہوں نے مجھے جیل
میں ڈالا ہے وہ مجھے چھہ ماہ تک رکھنا چاہتے ہیں۔ ابھی تو چند دن ہوئے ہیں۔
مگر ماں بضد تھی کہ پیر صاحب نے کہا ہے تو بس ایسا ہی ہو گا۔ماں نے یہ بھی
کہا کہ بیٹا تم خود بھی پیر صاحب سے دعا کرو۔
کلدیپ نائر کے مطابق اس کا آبائی گھر ٹرنک بازار سیالکوٹ میں تھا۔یہ ایک
بڑی حویلی تھی جس میں کئی کمرے تھے۔ ان میں سے ایک کمرے میں ایک نا معلوم
شخص کی قبر تھی۔ ماں اسے پیر صاحب کی قبر کہتی اور اس کی صفائی اور پھول
وغیرہ ڈالنے کا پورا اہتمام کرتی۔ ماں جب کسی وجہ سے پریشان ہوتی توپیر
صاحب کی قبر کے سرہانے بیٹھ کر دعا کرتی تو حیران کن حد تک اس کی دعا قبول
ہو جاتی، پریشانی رفع ہو جاتی۔میں بچپن سے یہ دیکھتا آیا تھا۔جمعرات آئی تو
نہ چاہتے ہوئے بھی میں نہا دھو کر تیار ہو گیا کہ ماں کا جس بات پر ایمان
ہے شاید وہ ہو ہی جائے ۔ سارا دن بڑی بے چینی سے گزرا۔ شام تک رہائی کا
کوئی آرڈر نہیں آیا ، سوچ سوچ کر بہت تھکاوٹ ہو گئی ، اور میں جا کر جلدی
سو گیا۔ اگلی صبح اٹھا تو جیلر صاحب آ رہے تھے کہ رات میں کچھ لیٹ ہو گیا
اور آپ بھی جلدی سو گئے۔آپ کی رہائی کا پروانہ آ چکا ہے ۔ جانے کی تیاری
کریں۔میں حیران کہ ماں نے جو کہا تھا وہی ہو گیا۔ماں کے پاس آیا تو ماں پیر
صاحب کے کمال پر بہت خوش تھی اس نے مجھے ایک چادر دی کہ بیٹا جب بھی
پاکستان جانا ہو، پیر صاحب کے مزار پر یہ چادر چڑھا آنا۔وہ ہم پر ہمیشہ
مہربان رہے ہیں، ہم ان کا قرض چکا نہیں سکتے۔
میں ایک دفعہ پاکستان آیا۔ میرا ویزہ لاہور کا تھا۔ کوشش کے باوجود سیالکوٹ
جانے کی اجازت نہ ملی۔اگلی دفعہ میرے پاس سیالکوٹ کا ویزہ تھا۔ میں ماں کے
حکم کے مطابق چادر چڑھانے سیالکوٹ پہنچ گیا۔وہاں ہر چیز بدلی ہوئی تھی۔
وہاں کے سارے گھر کمرشل پلازوں کی شکل اختیار کر چکے تھے۔بڑی مشکل سے گھر
کی جگہ ڈھونڈھی۔مگر وہ گھر کیا تھا ، ہر کمرہ ایک دکان میں بدل چکا تھا۔پیر
صاحب کی قبر کہیں نظر نہ آتی تھی۔میں نے کئی چکر لگائے مگر قبر کہیں نظر نہ
آئی۔آخر اندازہ کرکے میں نے ایک درزی کی دکان دیکھی۔ قبر یہیں تھی مگر اب
اس کا کوئی نشان باقی نہیں تھا۔میں نے درزی سے پوچھا تو وہ صاف مکر گیا کہ
یہاں تو کبھی کوئی قبر نہیں تھی۔میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ پھر میں نے اپنا
تفصیلی تعارف کرایا، اسے بتایا کہ تقسیم سے پہلے یہ میرا گھر تھا اور مین
دروازے پر اب بھی میرے والد کا نام موجود ہے۔ کوئی راستہ نہ پا کر وہ مان
گیا کہ قبر کی وجہ سے اس کا کام چلتا نہیں تھا اس لئے اس نے قبر ہموار کر
دی ہے۔ نائر کہتا ہے کہ وہ بہت مایوس ہوا اور لاہور آ کر وہ چادر حضرت داتا
گنج بخش کے مزار پر چڑھا دی۔
خوشونت سنگھ ہڈالی گاؤں کا رہنے والا تھا جو دریائے جہلم سے پچیس کلو میٹر
کے فاصلے پر ضلع خوشاب میں واقع ہے۔ خوشونت کے بقول وہاں اس وقت پچاس کے
قریب سکھ اور دو سو سکے لگ بھگ مسلمان خاندان موجود تھے اور آپس میں ہنسی
خوشی رہ رہے تھے۔خوشونت سنگھ کہتا ہے کہ سیلاب کا موسم تھا ۔ بہت سی چیزیں
بہہ کر آ رہی تھیں۔ مسلمانوں کا ایک پیر یامسلمان درویش جس کا نام شیدا
تھا،اپنی جھونپڑی کی بانس وغیرہ سے بنی چھت پر بیٹھا بہتا ہوا ہمارے گاؤں
پہنچ گیا۔مٹی سے بنی اصل جھونپڑی تو اس کے گاؤں ہی میں پانی کی نظر ہو چکی
تھی، چھت باقی تھی جو اسے یہاں لے آئی تھی۔ اس کے پاس سوائے پہنے ہوئے
کپڑوں کے کچھ بھی نہ تھا۔ میرے دادا اسے بڑی اچھی طرح ملے اس کے لئے کپڑوں
اور کھانے کا انتظام کیا۔ اس کے رہنے کے لئے گاؤں کے قبرستان کے پاس ایک
جھونپڑی بنوا دی۔ پیر شیدا میرے دادا کے طرز عمل سے بہت خوش ہوا اور انہیں
دعا دی کہ آپ کے دو بیٹے ہیں، میں ایک کو دہلی اور دوسرے کو لاہور کی چابی
دے رہا ہوں، عیش کریں گے۔کچھ عرصے بعد والد دہلی آ گئے اور یہاں انہوں نے
ٹھیکیداری شروع کر دے۔ چند دنوں میں ان کا کام اتنا زیادہ ہو گیا کہ وہ
دہلی کے بڑے ٹھیکیداروں میں شمار ہونے لگے۔میرے چچا لاہور آگئے۔ یہاں پہلے
وہ پنجاب کی کابینہ میں وزیر رہے اور پھر پنجاب کے گورنر ہوئے۔شیدا پیر کی
دونوں دعائیں ہمارے کام آئیں۔
کوئی دعا اثر کرتی ہے یا نہیں، میں سمجھتا ہوں اس کا تعلق ہمارے عقیدے سے
ہے۔ دعا دینے والا کتنا پر خلوص ہے اور دعا لینے والا کس قدر مخلص ہے، یہ
دونوں چیزیں اگر موجود ہوں تو عرش پر بھی اس دعا کا احترام ہوتا ہے ۔ لیکن
اگر نیتوں میں کھوٹ ہو۔دعا خلوص نہ کی جائے یا دعا دینے والے کی بات مذاق
میں ٹال دی جائے تو دعا اثر کھو دیتی ہے۔سکھ پیروں فقیروں اور ان کی دعاؤں
پر پورا یقین رکھتے اور ان سے استفادہ کرتے ہیں۔
|