یو ٹیوب پر ایک وڈیو دیکھی جس میں ایک بزرگ پاکستانی محنت
کش اپنے حالات زندگی بیان کر رہا تھا ۔ شادی کو تین برس ہو گئے تھے اور ایک
ڈیڑھ سالہ بیٹا تھا جب یہ بہتر روزگار کی تلاش اور زائد آمدنی کے حصول کی
خاطر غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچا اور پھر کبھی واپس نہیں جا سکا ۔
یونہی دس سال گزر گئے تو بیوی نے طلاق لے لی اور دوسری شادی کر لی بیٹا بھی
ساتھ لے گئی ۔ وہ گورنمنٹ اسکول ٹیچر تھی اس نے بہت منت سماجت کی کہ اس طرح
مجھے اور بچے کو چھوڑ کر نہ جاؤ آخر میں بھی کماتی ہوں ہمارا ساتھ رہتے
ہوئے بھی گزارا ہو سکتا ہے ۔ مگر موصوف کے سر پر اپنے پورے خاندان کی کفالت
کا بھوت سوار تھا انہوں نے بیوی کی ایک نہ سنی اور اپنی جان جوکھم میں ڈال
کر اپنے خوابوں کی سرزمین پر پہنچ گئے ۔ اور اب چھبیس برس ہو چکے تھے دیار
غیر میں اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہوئے ۔ سر توڑ کوشش کے باوجود لیگل پیپر
تیار نہ ہو سکے تو حالات کے آگے ہتھیار ڈال کے اپنی قسمت پر شاکر ہو گئے ۔
پہلے بہن بھائیوں کی شادیاں کیں اب ان کے بچوں کی کر رہے ہیں ذمہ داریوں کی
باقاعدہ باریاں لگی ہوئی ہیں ہر کسی نے اپنا حصہ مقرر کرا رکھا ہے ۔ اس کا
مطلب یہ ہؤا کہ بھائی بہنوں کی طرح آگے ان کی اولادیں بھی اتنی بےغیرت اور
حرام خور نکلیں کہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ تایا جی! ماما جی! بس بہت ہو گیا
آپ نے ہماری خاطر خود اپنی زندگی تباہ کر لی اپنی فیملی قربان کر دی اب آپ
بس وہاں اپنے گزارے لائق محنت کریں اور یہاں کی فکر چھوڑ دیں ہمیں آپ سے
اور کچھ نہیں چاہیئے ۔ مگر نہ صاحب! جب مالِ مفت منہ کو لگ جائے تو حق بات
منہ سے نکل ہی نہیں سکتی ۔
بزرگ نے بہت اداس سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اب ہم واپس
چلے بھی جائیں تو وہاں چار دن بھی ہمارا گزارا نہیں ہو گا کوئی چار دن ہمیں
برداشت نہیں کرے گا بٹھا کر نہیں کھلائے گا اچھا ہے کہ یہیں رہ کے ان کے
کام آتے رہیں ۔۔۔ اور اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے باوجود بھی بزرگ اپنے
خاندان کی کفالت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اس عمر میں بھی جان ماری کا
شوق ختم نہیں ہو رہا اور صبح سے لے کر رات گئے تک محنت مزدوری اور ایک بہت
مشکل، خستہ و صبر آزما طرز زندگی میں ہی مطمئین ہیں اور اپنے حال پر قانع ۔
پسماندہ طبقے کے نیم خواندہ تو کیا متوسط طبقے کے اچھے خاصے پڑھے لکھے مرد
بھی جب پردیس کو پدھارتے ہیں تو پتہ نہیں کیوں ان کی عقل گھاس چرنے چلی
جاتی ہے ۔ ان کو وہ ذمہ داریاں بھی نبھانے کا خبط لاحق ہو جاتا ہے جس کے
لئے نہ تو انہیں شریعت پابند کرتی ہے اور نہ ہی کوئی قانون مجبور کرتا ہے ۔
مگر ایسی ان کی مت ماری جاتی ہے کہ اپنی دنیا و آخرت دونوں داؤ پر لگا دیتے
ہیں ۔
ایسے ایسے نابغے پائے جاتے ہیں جو دیار مغرب تک کی سرزمین پر پیر رکھ دینے
کے باوجود اپنے گھر والوں کے ہاتھوں سے نکلتے نہیں ہیں اُنہی کی مٹھی میں
ہوتے ہیں سات سمندر پار بھی اِن کی ڈوریاں اُنہی ہاتھوں میں ہوتی ہیں
اشاروں پر ناچتے ہیں ۔ ہم جب نئے نئے امریکہ آئے تھے تو کہیں ایک خاتون سے
دعا سلام ہوئی راہ و رسم اور بے تکلفی بڑھی تو انہوں نے بتایا کہ کیسے
پاکستان میں بیٹھے ان کے ساس سسر یہاں ان کے پورے گھر کی مانیٹرنگ کر رہے
ہوتے ہیں ۔ اُن کی اجازت کے بغیر کہیں گھومنے پھرنے نہیں جا سکتے اور اگر
وہ منع کر دیں تو اِن کی مجال نہیں کہ اپنی مرضی کر لیں ۔ لِونگ روم کے
لیدر کے صوفے کثرت استعمال کی وجہ سے پھٹ چکے ہیں مگر ساس سسر کی اجازت
نہیں ہے کہ ان کی جگہ نئے لے لئے جائیں ۔ کیونکہ ایسی صورت میں انہیں موصول
ہونے والے زر مبادلہ کے حجم میں نمایاں کمی واقع ہو گی جسے فی الحال وہ
افورڈ نہیں کر سکتے ۔ وہ دونوں میاں بیوی مل کر کماتے تھے مگر گزارا مشکل
سے ہوتا تھا ہر ماہ پاکستان خرچ بھجوانے کی وجہ سے ۔ اور وہ بھی مشترکہ
گھرانے کا، ورنہ ماں باپ تو اولاد کی ذمہ داری ہوتے ہیں وہ تھوڑی نہ کوئی
بھاری ہوتے ہیں ۔ مگر کوئی ایک کچھ زیادہ ہی سیدھی اولاد اگر پردیسی بھی
نکل آئے تو والدین صرف اُس ایک کی ذمہ داری بن جاتے ہیں اور خود اپنی سگی
اولاد کی سادگی و سعادتمندی کا جی بھر کر ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ایک
اور خاتون کے مطابق پاکستان میں اُن کی دو نندوں نے اپنی اپنی بیٹی کی
منگنی کر دی تھی اور باپوں کو ان کی شادی کی کوئی ٹینشن نہیں کہ ایک ماموں
امریکہ میں ہے اور ایک کینیڈا میں ۔ دونوں مل کر سارا خرچہ اٹھائیں گے اُن
کے ہوتے ہمیں کیا ضرورت فکر کرنے کی؟
ایسی ہی ان سے ملتی جلتی خود اپنے سگوں خون کے رشتوں کی سیان پتیوں اور خود
غرضیوں پر مبنی اور بھی کئی کہانیاں علم میں آئیں یہ دو کا نمونے کے طور پر
ذکر کر دیا ہے اور ابھی کے لئے اتنا کافی ہے باقی کا ذکر پھر کبھی سہی ۔
|