اہلیان پاکستان پر لازم ہے کہ وہ سیاسی و مذہبی
وابستگیوں اور پسندیدہ شخصیات سے محبت و مودت کا کھل کراظہار کریں اور اپنے
جائز حقوق کے حصول اور ناجائز و نارواسلوک کے خلاف پرامن احتجاجی مظاہرے
بھی کرسکتے ہیں جس کی آئین پاکستان بھی اجازت دیتاہے۔اسلام نے بھی تلقین کی
ہے کہ حق کا ساتھ دینا چاہیے اور مظلوم کی ہرممکن مدد کو یقینی بنایا
جائے۔یہاں تک قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے کہ "کسی دشمن سے نفرت تم کو
عدل و انصاف سے نہ روک پائے"،اسی طرح حق بات کی گواہی کی اجازت بھی قرآن نے
دی ہے کہ سیدھی و کھری بات کہہ دینی چاہیے اگرچہ اس سے خود انسان کو یا اس
کے والدین اور اس کے اعزا و اقارب کو اس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہی کیوں
نہ ہو،اسی طرح ایک مقام پر فرمایا شہادت حق دیتے وقت امیر و غریب ،طاقتور
اور کمزور کے مابین فرق کا لحاظ رکھنے کے کسی کو اختیار نہیں اللہ زیادہ
حقدار ہے کہ وہ کس کی مدد و نصرت کرے۔
تاہم اس سے یہ مراد ہرگز نہیں لیا جاسکتاکہ انسان اپنے ذاتی و جماعتی
مفادات کی خاطر دوسروں کی عزت و عظمت کو خاک و خون میں لت پت کردے چہ جائے
کہ وہ وطن کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں پر جان نچھاور کرنے والوں کی
نشانیوں اور ملک کے سلامتی کے اداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔
9مئی 2023کو جو کچھ بھی ہواہے اس پر ہر محب وطن پاکستانی کا دل خون کے آنسو
روتاہے کہ بانی پاکستان کی رہائش گاہ،سلامتی کے اداروں اور کارگل کی پہاڑی
پر تنے تنہادشمن کی فوج کو ناکوں چنے جبوانے والے اور ایم ایم عالم مرحوم
نے پلک جھپکنے میں دشمن کے جہازوں کو تہ تیغ کردیا تھا کی باقیات کی توہین
و تضحیک کریں۔واضح رہے سیاست کرتے وقت سیاسی قائدین و سیاسی ورکر پر لازم
ہے کہ وہ اس بات پر مکمل دلجمعی سے غور کریں کہ ان کے کسی عمل سے ملک و قوم
اور ملک کے سلامتی کے اداروں کے افسران و جوانوں کے جذبات کو تکلیف نہ
پہنچے کیوں کہ سلامتی اداروں کی توہین و تضحیک سے صرف اور صرف دشمن اسلام و
پاکستان ہی خوش ہونگے۔سیاسی قائدین کی محبت میں اسیر ہوکر غلط کو صحیح ثابت
کرنے کی کوشش ملک و ملت کو مسائل سے دوچار کرنے کی موجب امر ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ و یورپ اور ہندوستان کا
میڈیا و قیادت اور قادیانی و ملحدوں کا منظم گروہ پاکستان کے حالات پر اپنے
ردعمل دیتے نظر آتے ہیں ان کو سیاسی کارکن مرد و خواتین کی گرفتاری تو نظر
آرہی ہے یہی سب افغانستان، عراق،چیچنیا،کشمیر و فلسطین اور روہنگیا وغیرہ
میں جب مسلمانوں کو ظالم و جابر قوتیں تہہ تیغ کررہی تھیں تو اس وقت ان کی
حس حقوق انسانیت کیوں مردہ تھی اور اب کن وجوہات کی بناپر وہ پاکستان کے
داخلی حالات و واقعات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور ملک کے اہل حل و
عقد اور تعلیم یافتہ و باشعور نوجوانوں کو اپنے ہر عمل کو حرکت دینے سے قبل
یہ پہلوکسی طورپر پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے کہ جو کچھ کیا جارہاہے یہ
پاکستان و اسلام کی خدمت کے ذمرے میں آتاہے یا پھر اس سے جگ ہنسائی اور ملک
کی بدنامی نہیں ہونی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں جو غصے میں بھی
ضبط و کنٹرول سے کام لیتے ہیں۔دعاہے رب لم یزل ملک پاکستان کو داخلی و
خارجی سطح پر کامیابی و حفاظت سے ہمکنار کرے۔اور نوجوانوں کو اسلام و
پاکستان کی خدمت کی توفیق بخشے۔آمین
|