سپریم کورٹ کے ذریعہ اڈانی کو کلین چٹ اور جسٹس چندر چوڑ
کی موجودگی کے باوجود کرناٹک کے بدنام ِ زمانہ ڈی جی پی پروین سود کا سی بی
آئی ڈائرکٹر کے طور پر تقرر اور اس کے بعد اچانک وزیر قانون کرن رجیجو کی
بے وقت وداعی کے درمیان تعلق نہ ہو یہ ناممکن ہے ۔ اس پیچیدہ رشتے پر بحث
بہت تفصیل کا تقاضہ کرتا ہے مگر اس کو مہاراشٹر کے معاملے میں سپریم کو رٹ
کے رویہ کی مدد سے بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ فٹ بال کے کسی میچ میں اگر
کُل پانچ گول ہوں اور ان میں سے چار ایک ٹیم مارے تو وہ فاتح قرار دی جاتی
ہے لیکن ہندوستانی عدالت میں ایسا ہو یہ ضروری نہیں ہے خاص طور پر اگر
متحارب ٹیمیں سیاسی ہوں ۔ ان میں سے ایک تعلق حزب اقتدار اور دوسرے کاحزب
اختلاف سے ہوتو کچھ بھی ہوسکتا ہے یعنی انصاف کا ترازو کسی بھی طرف جھک
سکتا چاہے اس کے پلڑے میں چار اور دوسرے میں صرف ایک گول کیوں نہ ہو ۔ اس
لیے گول کے ساتھ ساتھ اس کو مارنے والا بھی کم اہم نہیں ہوتا ۔ مودی جی کی
ایک کِک راہل کے چار کِک کے برابر ہو سکتی ہے۔ اس طرح ایک گول مارنے والی
ٹیم کامیاب اور چار والی شکست فاش سے بھی دوچار ہوسکتی ہے۔ یہ حسنِ اتفاق
ہے کہ مہاراشٹر سرکار کے قضیہ میں سپریم کورٹ کی بینچ پانچ ججوں پر مشتمل
تھی اور اس کے سامنے سوالات بھی پانچ تھے جن پر اسے فیصلہ سنانا تھا ۔
عدالتِ عظمیٰ کے سامنے پہلا سوال گورنر کے کردار پر تھا ۔ دوسرا چیف وہپ کے
تقرر سے متعلق تھا۔ تیسرا معاملہ ارکان اسمبلی کو برخواست کرنے کی بابت تھا
۔ چوتھا مدعا ایک پرانے مقدمہ نبام ریبیا کے انطباق کا تھا اور پانچواں
ایکناتھ شندے کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے عہدے پر بنے رہنے یا ہٹائے جانے کا
تھا۔ اب آئیےدیکھیں کہ ان پانچ سوالوں کے سپریم کورٹ نے کیا جوابات دئیے؟
ان میں سے کتنے ادھو ٹھاکرے کی حمایت میں تھے اور کون کون سے ایکناتھ شندے
کے حق میں گئے۔اس تنازع کا پس منظر یہ ہے کہ 21 جون 2022 کو شیوسینا کے
رہنما ایکناتھ شندے نے15 ؍ارکانِ اسمبلی کے ساتھ بغاوت کردی۔ اس کے ہفتہ
بھر بعد 28؍ جون کو گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو
اپنی اکثریت ثابت کرنے کا حکم دے دیا۔ شیوسینا نے گورنر کے حکم کو عدالتِ
عظمیٰ میں چیلنج کیا مگر اس نے روک لگانے سے انکار کردیا ۔ سپریم کورٹ کے
اس منفی رویہ سے بددل ہوکر سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے استعفیٰ دے دیا
اور ایکناتھ شندے وزیر اعلیٰ بن گئے۔
مہاراشٹر کی اس عظیم سیاسی اتھل پتھل کے گیارہ ماہ کے بعد سپریم کورٹ کا
فرمان آیا کہ گورنر کوشیاری کا وہ اقدام غلط تھا کیونکہ حزب اختلاف نے عدم
اعتماد کی تجویز پیش نہیں کی تھی۔ گورنر کے پاس حکومت پر شک کرنے کا کوئی
جواز یعنی چٹھی یا محضر نامہ موجود نہیں تھا۔اس بات کا اشارہ بھی نہیں ہوا
تھا کہ ارکان اسمبلی حمایت واپس لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تو صرف ایک گروپ
بنایا تھا ایسے میں سیاسی جماعت کے اندرونی چپقلش کو سلجھانے کے لیے فلور
ٹسٹ نہیں کیا جاسکتا ۔ آئین و قانون گورنر کو سیاسی معاملہ میں مداخلت
کرکے کسی سیاسی پارٹی کے داخلی تنازعات میں ملوث ہونے کا اختیار نہیں
دیتا۔کسی خاص ہدف کو حاصل کرنے کے لیے گورنر اپنے عہدہ کا استعمال نہیں
کرسکتے ۔ اس طرح پہلا گول موجودہ ریاستی اور مرکزی حکومت کے خلاف ہوگیا
کیونکہ گورنر نہ صرف ان کے نمائندہ بلکہ انہیں کے اشاروں پرناچ رہے تھے۔
دوسرا معاملہ چیف وہپ کے تقرر کا تھا۔ موجودہ سیاسی نظام میں آزادی کے
تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود ہر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے
ارکان اسمبلی اس سیاسی جماعت کے بندۂ بے دام ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں
انہیں کس وقت کیا کرنا چاہیے اس کا فیصلہ وہ ازخود یا ان لوگوں سے پوچھ کر
نہیں کرسکتے جن لوگوں کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ اس آزادی سے اگر عوام کے
نمائندے محروم ہیں تو بھلا عام لوگوں کی کیا بساط ؟ اس طرح جمہوریت میں
عوام کے خود مختار ہونے کا غباری از خود پھوٹ جاتا ہے۔ انہیں نمائندے کا
انتخاب کرنے کی آزادی تو ہے لیکن اس نمائندے کو ان کی یا اپنی مرضی کی
تابعداری کا حق نہیں ہے۔ پارٹی وہپ(ہنٹر) کے ذریعہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ
آقا یعنی پارٹی کے رہنما کا حکم کیا ہے۔ کوئی عوامی نمائندہ اگر اپنے ضمیر
کی آواز پر یا عوامی فلاح و بہبود کے لیے اپنے رہنما کے حکم سے روگردانی
کرے تو وہپ یعنی ہنٹر سے اس کی کھال ادھیڑ دی جاتی ہے اور ایسا کرنا جمہوری
اقدار کے عین مطابق ہے اسی مقصد کے حصول کی خاطر پارٹی لیڈر اپنے وفادار
ترین رکن اسمبلی کو ہنٹر تھماکرچیف وہپ بناتا ہے۔
عام حالات میں گورنر، اسپیکر (صدر ایوان) اور وہپ کی کوئی خاص اہمیت نہیں
ہوتی مگر جب پارٹی جب خلفشار کا شکار ہوجائے تو یہ ہنٹر والاحرکت میں
آجاتا ہے۔ شیوسینا میں بغاوت کے بعد پارٹی کے چیف وہپ نے جب سارے ارکان
اسمبلی کو ایک نشست میں حاضر ہونے کا حکم دیا تو باغی رکن اسمبلی ایکناتھ
شندے نے پارٹی وہپ کو ناجائز قرار دے کر سنجے گوگولے کو چیف وہپ مقرر
کردیا۔ ایسا کرنا چونکہ ا ن کے اختیار میں نہیں تھا اس لیے یہ الٹا چور
کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہوگئی ۔ اب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ اسپیکر
کے ذریعہ گوگولے کو چیف وہپ نامزد کرنے کا فیصلہ غلط تھا کیونکہ ارکان
اسمبلی کو یہ طے کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے یہ تو پارٹی سربراہ کا بلا شرکت
غیرے حق ہے اور اس وقت تک شیوسینا کی کمان ادھو ٹھاکرے کے ہاتھوں میں تھی۔
سپریم کورٹ کے مطابق اسپیکر نے بھی یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں کی کہ پربھو
یا گوگولے میں سے کسے پارٹی کے ذریعہ متعین کیا گیا ہے۔ عدالت کی نظر میں
اسپیکر کو پارٹی کے ذریعہ مقرر کردہ چیف وہپ کو ہی تسلیم کرنا چاہیے تھا ۔
اس طرح دوسرا گول بھی ادھو ٹھاکرے نے کردیا۔
اس قضیہ کا تیسرا مدعا ارکان اسمبلی کی برخواستگی کا تھا۔ سپریم کورٹ کو
گیارہ ماہ کے بعد احساس ہوا کہ وہ باغی ارکان اسمبلی کو برخواست کرنے کی
مجاز ہی نہیں ہے۔ یہ اختیار تو اسپیکر کے پاس ہے پھر بھی سپریم کورٹ نے اس
کا فیصلہ ایک بڑی بینچ کو سونپ دیا ۔ یہ عجیب کیفیت ہے کہ جس میں اسپیکر کے
فیصلے کو عدالت الٹ سکتی ہے۔ اسپیکر کی کرسی پر فی الحال ناجائز طریقہ پر
بی جے پی کےراہل نارویکر قابض ہیں۔ ان سے وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کی
رکنیت ختم کرنے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ نارویکر اگرعدالت کا بہانہ بنا کر
معاملے کو لٹکائے رکھیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ شندے اور ان
کے ساتھی ویسے بھی عیش کر ہی رہے ہیں اس کے باوجود آخری فیصلہ آنے وزیر
اعلیٰ کے سرپر ایک تلوار لٹکتی رہےگی ۔ یعنی تیسرا گول بھی شندے کے خلاف
ہوگیا ۔ اسی سے بچنے کی خاطر انہوں نے اپنی کالی کمائی کے ذریعہ کالا جادو
کیا تھا جو جزوی طور پر کامیاب رہا۔
چوتھا معاملہ خود اسپیکر سے متعلق ہے۔ اس پس منظر یہ ہے کہ تنازع کے وقت
این سی پی کے نرہری جیروال ڈپٹی اسپیکر کی حیثیت سے ایوان کی صدارت کررہے
تھے۔ ان کو کسی ناپسندیدہ اقدام سے روکنے کے لیے شندے گروپ نے سپریم کورٹ
میں نابام ریبیا کیس کا حوالہ دے کر قدغن لگانے کی کوشش کی کیونکہ اس کی
روُ سےاگر کسی اسپیکر کو ہٹانے کی تجویز ایوان میں زیر بحث ہو تو وہ ارکان
اسمبلی کو برخواست نہیں کرسکتا ۔ اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے شندے سے
اتفاق نہیں کیا بلکہ اسے سپریم کورٹ کی بڑی بینچ کے حوالے کردیا ۔ سابق
ڈپٹی اسپیکر کی مانند موجودہ صدر ایوان کے خلاف بھی حزب اختلاف کی تجویز
معلق ہے۔ ایسے میں بڑی بینچ کے فیصلے تک ان کا کو فیصلہ کرنا درست نہیں ہے۔
وہ اگر ایسا کریں تو نہ صرف عدالت کی توہین ہوگی بلکہ اس کو الٹا بھی
جاسکتا ہے۔ موجودہ اسپیکر کے اختیار پر پابندی ادھو ٹھاکرے کا چوتھا گول
ہے۔
اس قضیہ کا آخری معاملہ ایکناتھ شندے کے وزیر اعلیٰ بنے رہنے کا تھا ۔ اس
پر سپریم کورٹ نے دوٹوک کہہ دیا چونکہ ادھو ٹھاکرے نے استعفیٰ دے دیا تھا
اس لیے گورنر کا بی جے پی کی حمایت والےایکناتھ شندے کو حلف دلانا درست
تھاگویا اقتدار انہیں کے پاس رہے گا ۔ کورٹ کے مطابق ادھو ٹھاکرے اگر
استعفیٰ نہیں دیتے تو ان کی سرکار بحال ہوسکتی تھی ۔ اس طرح پانچواں اور
آخری گول شندے نے لگا دیااور چار گول کرنے کے بعد پانچویں میں چوک جانے کے
سبب ادھو اقتدار سے محروم رہیں گا۔ قانون کے آنکھ پر پٹی بندھی ہونا اس
لیے تاکہ وہ تفریق و امتیاز نہ کرسکے لیکن اس فیصلے کو دیکھ کر یہ کہاوت
یاد آتی ہے کہ اندھا بانٹے ریوڈیاں پھیر پھیر اپنے ہی کو دے ۔ اس میں اب
یہ ترمیم ہونی چاہیے کہ پھیر پھیر اپنوں ہی کودے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ
حکومت اور عدالت کے درمیان اس ناجائز رشتے کو کیا نام دیا جائے؟ایسی
صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے جج حضرات اس طرح کی کمزوری
کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دوسری قسط میں ہوگا ۔ ان شاء
اللہ لیکن ادھو ٹھاکرے کی ڈھارس بندھانے کے لیے یہی عرض ہے کہ؎
قانون اس جہان کا کیسا ہے آج کل
طاقت کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے آج کل
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|