قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاستدان غلطیاں دہراتے رہے
ہیں ۔سب سے سنگین غلطی جو سیاستدانوں سے باربار سرزد ہوتی آئی ہے وہ
پاکستان میں انکی وجہ سے جمہوریت کاٹریک سے اترنا ہے،جمہوریت کو ڈی ٹریک
کرنے میں سیاستدانوں کی غلطی کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا،جب بھی جمہوری نظام
لپیٹنے والے اسکی وجہ بیان کرتے ہیں تو سب سے بڑھ کر سیاسی قیادت کو ہی
مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے،حقیقت میں سیاستدانوں کے سامنے جمہوریت کا
تسلسل ہی انکی حقیقی بقا ہونی چاہئے،جمہوریت کی حفاظت بھی سیاسی رہنماؤں کی
ذمے داری ہوتی ہے مگر اس ذمے داری سے روگردانی کرنے پر حالات انکے ہاتھ سے
نکل جاتے ہیں،جمہوریت اِس وقت دنیا کا سب سے مقبول ترین نظامِ حکومت ہے۔
عوام کی اکثریت اِسی نظام پر اعتماد کرتی ہے۔ اِس نظام کی سب سے بڑی خوبی
یہ ہے کہ ایک مخصوص عرصے کے بعد نمائندوں کو عوامی کٹہرے میں کھڑا ہونا
پڑتا ہے، حکمران اپنی ہر پالیسی کے لیے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں، عوامی
اُمنگوں کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینا حکمرانوں کی مجبوری ہوتی ہے، تاہم
اگر اِن کتابی باتوں کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور پاکستان کے مخصوص حالات
کے تناظر میں جمہوریت کے سفر کو بھی دیکھا جائے تو اگرچہ اس کی تاریخ اتنی
تاب ناک نہیں کہ جمہوریت کا تسلسل کئی وجوہات کی بِنا پر برقرار نہ رہ
سکا۔اس حوالے سے کچھ تجربہ کار محب وطن سیاستدانوں کو اپنی غلطیوں کا احساس
ہوا تو اسکے تدارک کی خاطر اختلافات بھلا کر آئندہ ایسی غلطیاں نہ دہرانے
کا فیصلہ کیا گیا۔
2006 کے دوران پاکستان کے دو بڑے سیاسی رہنماو?ں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق
سیکھتے ہوئے آئندہ طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق چلنے کا عہد کیا۔ اس
معاہدے کو میثاقِ جمہوریت کا نام دیا گیا۔
میثاقِ جمہوریت دراصل اپنی سابقہ غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے آئندہ غلطیاں
نہ دہرانے کا عزم تھا۔ رحمٰن ملک مرحوم کی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والے
اِس تاریخی اجلاس کی گونج ایک طویل عرصہ تک پاکستان کی سیاست میں سنائی
دیتی رہی۔ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف دونوں اس دستاویز کو
پاکستان میں جمہوریت کی بقا کے لیے ایک اہم ترین قدم خیال کرتے تھے۔ اِس
دستاویز میں اِس امر پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ کہ سیاسی طور پر منتخب
حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار نہیں کیا جائے گا اور حکومتیں اپنی آئینی
مدت مکمل کریں گی۔ دونوں قائدین یہ بھی سمجھتے تھے کہ 90کی دہائی میں
اقتدار کی میوزیکل چیئر کے کھیل کے دوران طاقتوروں نے فائدہ اٹھایا اور
دونوں جماعتوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ لہٰذا یہ بھی عہد کیا گیا
تھا کہ وہ طاقتوروں کے اشاروں پر کام نہیں کریں گے۔ دونوں بڑی سیاسی
جماعتوں کو اقتدار ملا،پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا دورِ اقتدار مکمل کیا۔
پاکستان مسلم لیگ نون نے بھی بطور جماعت اپنے اقتدار کا عرصہ مکمل کیا۔
میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے، یہ الگ بات کہ
انہیں اپنا دورانیہ مکمل کرنے کا موقع نہ مل سکا اور ان کی باقی ماندہ مدت
شاہد خاقان عباسی نے بطور وزیراعظم مکمل کی۔اقتدار کی مجموعی طور پر مدت
پوری کرلینے والی بڑی سیاسی جماعتوں کے سامنے پاکستانی ریت ورواج کو برقرار
رکھتے ہوئے نادیدہ طاقتوں نے ایک نئی قوت بناکر کھڑی کردی اور 2018کے
انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کو اقتدار مل گیا،میثاق جمہوریت کرنے
والی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اقتدارِ سے باہر ہوگئیں،سیاست میں ناتجربہ
کاری کے سبب پی ٹی آئی کی حکومت کچھ'' ڈلیور'' نہ کرسکی جس کا وہ خود
اعتراف بھی کرنے لگی،جس پر تمام سیاسی قوتیں متحرک ہوگئیں،مقتدر قوتیں
عمران خان کو مسلسل غلط فیصلے کرنے سے روکنے کی کوشش کرتی رہیں مگر وہ
اقتدار کے نشے میں دھت کسی ''خیرخواہ''کے مشورے کو تسلیم کرنے پر راضی نہ
ہوئے،جس کا لازمی نتیجہ خیرخواہوں کے ان سے دور ہونے کی صورت میں نکلا اس
خلا کو پر کرنے کیلئے متحرک سیاستدان اقتدار کی بازی پلٹنے میں کامیاب
ہوئے،پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومتیں برقرار تھیں مگر
مقبولیت کے زعم پر عمران خان نے قبل ازوقت الیکشن کرانے کی ضد نہ
چھوڑی،اسمبلیوں سے استعفوں کے آپشن استعمال کرتے ہوئے دونوں صوبوں کی
حکومتوں سے بھی ہاتھ دوبیٹھے،نتیجہ سب کے سامنے ہے، صوبوں میں نگران
حکومتیں بن گئیں مگر انہوں نے الیکشن نہیں کرائے۔عمران خان غم وغصے کی حالت
میں آگئے،دوسری طرف نیب نے القادر ٹرسٹ کیس میں کرپشن الزامات پر تحقیقات
کے بعد 9مئی کو عمران خان کو گرفتار کرلیا،اس پرفسادات شروع ہوگئے،حکومت
اور پی ٹی آئی کے درمیان اقتدار کا تنازع ملک پر حملے کی شکل اختیار
کرگیا،جلاؤ گھیراؤ،فوجی تنصیبات کی تباہی،حساس مقامات کو نشانہ بنانے سمیت
کورکمانڈر ہاؤس،قائد اعظم کی رہائش گاہ کو جلایا گیا، 9اور10مئی کو جو کچھ
ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا،ان پرتشدد واقعات کی قیمت اب عمران خان اور
انکی جماعت کو ادا کرنی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت ان کے خلاف
مقدمات چلنے سے عمران خان اور انکی جماعت مشکلات سے دوچار ہونے والی
ہے،تصادم اور تشدد کا راستہ انہیں گھیر کر تباہی کی طرف لے آیا ہے،اس کے
باوجود وہ ابھی تک حالات کا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ نہیں
لگاسکے،گرفتاری کے 2روز بعد ہی رہا ہونے والے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران
خان نے ملک پر حملہ آوروں کی مذمت 10دن بعد کی مگر وہ بھی اس انداز میں کہ
الزام تراشی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے،ان حالات میں مسلسل غلطیوں پر غلطیاں
دہرانے کا عمل انکے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بھی وبال بن سکتا
ہے،سیاسی غلطیاں دہرانے کی روایت جاری رہنے سے جمہوریت کو نقصان بھی ہوسکتا
ہے
|