ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق وطن عزیز کے بائیس کڑور سے
زائد پاکستانی جانتے ہیں کہ انہیں کس طرح افغانستان اور پھر وہاں سے امریکہ
منتقل کرکے چھیاسی برسوں کی سزا سنائی گئی۔ جرم بے گناہی میں کتنے برس کی
خاموشی رہی، اس کا اک بیٹا اس دنیا سے رخصت ہوا اور دوسرا بیٹا و بیٹی
افغانستان میں کس اذیت سے وقت کو گذار تے رہے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی چھیاسی
برسوں کی قید میں ظلم سہتے ہوئے، اپنی ماں اور بچوں سے دور امریکی جیل میں
وقت گذارتی رہیں۔ سلیمان، احمد و مریم کے بغیر امریکی بدنام زمانہ جیل میں
ڈھیروں برس گذار دیئے اور تاحال گذار رہی ہیں۔ اقوام متحدہ و دیگر انسانی
حقوق کی نام نہاد تنظیمیں کہاں ہیں اور انہیں کیونکر قوم کی یہ بیٹی اور اس
کے اوپر ہونے والے مظالم نظر نہیں آتے؟؟؟ ہاں انکے مظاہرے اور آوازیں وہاں
بلند ہوتی ہیں جہاں ان کے اپنے مفاد ات ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی یہ
تنظیمیں ہوئیں یا انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے ممالک و اقوام متحدہ،
پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہوئے یا دو سو سے زائد اراکین کی اقوام متحدہ،
ڈاکٹر عافیہ کی معاملے میں ان کی خاموشی قابل مذمت ہونے کے ساتھ کسی بھی
انسان کیلئے ناقال قبول ہے۔ اس خاموشی کا حساب اللہ رب العزت ان سے ضرور لے
گا۔
عافیہ موومنٹ کے نام سے جاری تحریک جس کا مقصد ہی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کی باعزت رہائی ہے اور اسی رہائی کیلئے ان کی جہد،مسلسل جاری ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی سربراہی میں جاری تحریک اک عزم و جہد کے ساتھ قوم کی
بیٹی کی رہائی کیلئے سرگرم عمل ہے۔گذشتہ ماہ میں طویل مدت کے بعد امریکی
حکومت نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔ رکن
سینیٹ مشتاق احمد خان کے ہمراہ ڈاکٹر فوزیہ امریکہ گئیں اور ان کی بیس
برسوں بعد ملاقات ہوئی۔
بیس برس کی ملاقات میں ان کے درمیان شیشے کی اک دیوار حائل تھی جس کے باعث
یہ بہنیں ایکدوسرے کو صرف دیکھ ہی سکتی تھیں۔ زندگی کے عام حالات میں بھی
جب دوست احباب کی ملاقات ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں، ہاتھ ملاتے
ہیں اور یہاں گوکہ یہ ملاقات اک قید خانے میں تھی جس کی وجہ سے انسانی حقوق
کیلئے کام کرنے والوں سرفہرست ملک امریکہ میں یہ ممکن نہیں تھا کہ بیس برس
بعد کی ملاقات میں دونوں بہنوں کو پیار و محبت سے ملنے دیا جاتا۔ بیس برس
پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیسے تھیں اور آج کس حال میں ہیں؟ چہرے پر دکھ و
تکلیف کی اک لمبی داستان تھیں جو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی چاہتے ہوئے بھی نہ
چھپاپائیں۔ ڈھائی گھنٹے کی ملاقات میں ایک گھنٹے تک تو مقید بہن ہی اپنی
داستان الم سناتی رہیں اور اس کے بعد ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے انہیں حالات و
واقعات سے باخبر کیا۔ برسوں کی اس قید تنہائی میں وہ اپنے بیٹے، بیٹی اور
ماں کو بہت یاد کرتی رہیں۔ اوپر کے دانت اور سر کے قریب زخم کے باعث کم
سنائی دے رہا تھا۔بہرکیف،قوم کی بیٹی اک بامشقت قیدی کی طرح قت کو گذار رہی
تھیں۔ ان کی زبان سے بھی اور اس ملاقات کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ آزادی چاہتی
ہیں اور واپس اپنے دیس میں اپنوں میں آنا چاہتی ہیں۔ ماضی کے سب اوراق کو
یکدم پلٹ کر باقی ماندہ زندگی کو اپنوں میں گذارنا چاہتی ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی والدہ محترمہ عصمت صدیقی صاحبہ ایک شفیق ماں تھیں اور
ان کی شخصیت کی ایک ادا ہم کبھی نہیں بھول پائیں گے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی
رہائی کیلئے جاری تحریک میں جلسوں، مظاہروں، سیمیناروں اور ملاقاتوں سمیت
دیگر تقریبات کو کرنے اور ان میں شریک ہونے کے بعد کبھی بھی اگر دل بھر
جاتا تھا، غم وغصہ کی وجہ سے اندرونی کیفیت بہت سخت ہوجایا کرتی تھی اور ہم
اپنے اندر کا سارا غبار ان کے سامنے نکالتے تھے تو وہ ہمیشہ ایک بات ہی
کیاکرتی تھیں اور وہ بات ہی ان کا یقین تھا، وہ کہتی، دیکھو بیٹا، اللہ ہے
نا اور اللہ ہمارا مالک اور خالق ہے ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اس ہی سے
ہمیں امید ہے کہ وہ آپ کی بہن کو قوم کی بیٹی کو ضرور ضرور رہائی اور باعزت
رہائی دے گا۔ آپ نے اور آپ کے ساتھ جو لوگ بھی اس کی رہائی کیلئے محنتیں کر
رہے ہیں ان سب سے یہ کہنا ہے کہ وہ امید رکھیں اور اللہ سے ہمیشہ اچھی امید
رکھیں۔
عصمت صدیقی صاحبہ، جنہیں ہم نانی اماں کہا کرتے تھے، ان کی تسلی سے اور
تشفی سے قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے کام کرنے والے یکدم نئے عزم و حوصلے کے
ساتھ جدوجہد کرتے۔ یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ اس وقت تک
جاری رہے گی جب تلک قوم کی بیٹی واپس نہیں آجاتیں۔ یہ اللہ رب العلمین ہی
کی مہربانی ہے کہ بیس برسوں کے بعد یہ ملاقات ہوئی اور اس ملاقات کیلئے
جنہوں نے بھی کاوشیں کیں، یقینا ان کا کردار ان کا عمل قابل تعریف ہے،
جدوجہد کے اس سفر کو اب بھی جاری رکھنا ہے اور اب تو اس سفر کو اور بھی
زیادہ منظم اور مستحکم انداز میں آگے لے کر بڑھنا ہے۔
وطن عزیز میں اور اس سے باہر بھی انسانیت کیلئے کام کرنے والے ہر انسان کی
یہ خواہش ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ ازخود رہائی دے۔ امریکہ اس وقت
یہ قدم بڑھاتا ہے تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہونگے۔پچاس سے زائد اسلامی
ممالک سمیت دو سے زائد دنیا کے ممالک میں امریکی حکومت کا یہ اقدام اس کے
متعلق اچھی سوچ اور خیال کو پروان چڑھائیگا۔ دنیا کے موجودہ حالات میں
امریکہ کا یہ قدم، اس کے مستقبل کیلئے موثر رہیگا۔ |