ریاست پاکستان کے بنیادی مسائل میں سے ایک بڑا مسلئہ
شخصیت پرستی ہے۔چاہے وہ کھیل کا میدان ہو ،سیاست ہو یا پھر ادارے ہوں ۔ایک
عمومی تصور ذہنوں میں اخذ کر لیا جاتا ہے ۔کہ یہ کسی ایک شخصیت کی مرہون
منت ہے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں ریاست پاکستان میں قابل شخصیات نے بہت سے قابل رشک
کارنامے سر انجام دئیے ہیں۔اور ہمیشہ انکی کارکردگی کو سراہا گیا ہے۔بہت
ساری نمایاں شخصیات تھیں،ہیں اور رہیں گی۔
لیکن ان شخصیات سے ہی بہت ساری امیدوں کو منسوب کر لینا اور اس سوچ کو
ذہنوں میں بٹھا لینا بلکل ہی غلط ہے۔کہ ان شخصیات کے بل بوتے پر مستقبل میں
بہت سارے منصوبوں کو پایا تکمیل پہنچانا ممکن تھا۔ورنہ ناکامیوں کا سامنا
کرنا پڑے گا۔ریاست کی مجموعی ترقی کسی ایک شخصیت پر منحصر نہیں کرتی ۔
کامیاب ریاست بنانے میں اور اس ریاست کے نظام کو چلانے میں بہت سارے افراد
،ادارے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
ہاں یہ ضرور ہے یہ سوچ ان ریاستوں کے لیے ضرور دہرائی جا سکتی ہے ۔جہاں پر
جمہوریت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا یا فرد واحد ہی تمام تر فیصلہ سازی کرتا
ہے اور اقتدار پر براجمان ہوتا ہے۔
پاکستان چونکہ ایک جمہوری ریاست ہے۔یہاں پر حکمرانی اور فیصلہ سازی کا
کردار عوام کے لیے چھوڑا گیا ہے۔تو اس قوم کے تمام افراد کو اپنے اس بنیادی
حق کا استعمال یقینی بنانا پڑے گا۔اور خود کو شخصیات پرستی کے چنگل سے آزاد
کروانا ہو گا۔تاکہ آنے والی نسلیں کسی کی ذہنی غلامی کا تصور لیکر پیدا نہ
ہوں ۔اور وہ ایک مثبت سوچ کیساتھ اس مملکت کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا
کریں۔
لیکن یہ تب ممکن ہے جب بحثیت قوم خود احتسابی کے عمل سے گذرا جائے ۔اور
ماضی میں جو غلطیاں کی گئیں ،انکو دوبارہ نہ دہرایا جائے ۔
جب تک اس ریاست میں بسنے والا ایک عام شہری اپنے آپ کو شخصیات پرستی کے
خیالات سے جدا نہیں کرتا ،اپنے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کرتا۔کہ
یہاں فیصلہ سازی صرف اور صرف اس کی رائے سے ہی ممکن ہے۔تب تک کوئی بھی
مسیحا اس منجدھار سے نہیں نکال سکتا ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے،خدا نے بھی اس
قوم کی حالت نہیں بدلی جس قوم کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔
ریاستوں اور اداروں میں قابل فخر شخصیات آتی ،جاتی رہتی ہیں۔لیکن ریاستیں
اور ادارے قائم رہنے کے لیے ہوتے ہیں۔
اور اس طرح کی شخصیات کو بھی اب اس قوم پر رحم کرنا چاہیے ۔اس ریاست کو
کامیاب ریاستوں میں شمار ہونے کے لیے اپنی سوچ میں سے آنا پرستی کا خیال
نکال دینا چاہیے ۔بس بہت ہوچکے اس ریاست اور قوم کے ساتھ اس طرح کے تجربات
،اب مزید اس طرح کے کسی بھی سوچ کو پروان نہ چڑھایا جائے ۔
اگر ماضی کی بہت ساری اہم شخصیات نے قربانیاں دیں ،قابل فخر کارنامے سر
انجام دئیے تو اس کے پس منظر میں کسی ایک فرد،خاندان اور ادارے کے لئے نہیں
کیا گیا تھا۔بلکہ یہ قربانیاں اور قابل فخر کارنامے اس ریاست کے ہر عام
شہری کے لیے دیں گئیں ۔
دنیا کا رول ماڈل انیسویں صدی کے بعد بہت تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔انیسویں صدی
تک فرد واحد کی فیصلہ سازی کو با امر مجبوری برداشت کر لیا جاتا تھا۔
لیکن اب بیسویں صدی کی جدیدیت نے اس رول ماڈل کا خاتمہ کر دیا ہے ۔بہت ساری
تبدیلیوں کیساتھ یہ شخصیات پرستی کا بھوت تبدیل ہو گیا ہے ۔اب ریاستیں
قوموں پر منحصر کرتی ہیں۔جس قوم کو اپنے بنیادی حقوق کا ادراک ہوگا وہ ہی
ریاست کہلانے اور کامیاب ریاست کے طور پر آپنی پہچان قائم رکھ سکے گی
|