چین زمین میں 11 کلومیٹر گہرا گڑھا کیوں کھود رہا ہے؟ وجہ جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے

image
 
چین نے اپنے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں واقع تاکلماکان صحرا میں 11 کلومیٹر (11100 میٹر) سے زیادہ گہرا گڑھا کھودنے کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔

اس منصوبے پر کام کا آغاز گذشتہ ہفتے کے دوران کیا گیا۔

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ژن وا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ گہرا گڑھا زمین کی قدیم ترین کریٹاسیئس دور کی تہوں تک پہنچے گا۔ اس منصوبے کے مکمل ہونے کی متوقع مدت 457 دن ہے جس کے دوران یہاں کام کرنے والے آپریٹرز دن رات بھاری مشینری کے ساتھ مصروف عمل رہیں گے۔

ایک پُرجوش اقدام
 
image
 
اس منصوبے کو چین میں کھدائی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل چین میں اس نوعیت کا سب سے گہرے کنویں کی گہرائی 10,000 میٹر ریکارڈ کی گئی تھی۔

تاہم، چین کی جانب سے کھودے جانے والا یہ گڑھا انسانوں کا بنایا ہوا سب سے گہرا گڑھا نہیں ہو گا۔ یہ ریکارڈ روس میں کھودے گئے ’کولا‘ ڈرلنگ کنویں کے پاس ہے، جس کی کھدائی تقریباً دو دہائیوں تک جاری رہنے کے بعد سنہ 1989 میں 12,262 میٹر (12کلومیٹر سے زائد) تک پہنچ گئی جس کے بعد اس پر کام روک دیا گیا۔

چین کی جانب سے اس بڑے منصوبے کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ ملک ایک ٹیکنالوجیکل اور سائنسی عالمی طاقت کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے اہم اقدامات اٹھا رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن اس نئے منصوبے پر کام کا آغاز ہوا، اُسی روز چین نے اپنے تین خلابازوں کو مدار میں موجود سپیس سٹیشن کی جانب روانہ کیا، خلابازوں کو سپیس سٹیشن روانہ کرنے کا اقدام چین کے اس بڑے خلائی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ سنہ 2030 سے قبل چاند پر قدم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ چین اتنا گہرا گڑھا کیوں کھود رہا ہے جس کی گہرائی دنیا کی بلند ترین چوٹی یعنی ماؤنٹ ایورسٹ کی مجموعی اونچائی سے بھی زیادہ ہے؟

دو مقاصد
 
image
 
اس منصوبے کی قیادت سرکاری سرپرستی میں چلنے والی پیٹرو کیمیکل کارپوریشن ’سینوپیک‘ کر رہی ہے۔ حال ہی میں ’سینوپیک‘ نے ارضیاتی تلاش میں ’گہرائی کی حدود کو بڑھانے‘ کے اپنے ہدف کا اعلان کیا ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے لگ بھگ دو سال قبل ملک کی سائنسی کمیونٹی پر زور دیا تھا کہ وہ زمین کی انتہائی گہرائیوں میں موجود وسائل کی تلاش کے کام میں آگے بڑھیں۔ اور اب اس منصوبے کا آغاز چینی صدر کی سائنسی برادری کو کی گئی اس ہدایت کے لگ بھگ دو سال بعد شروع کیا گیا ہے۔

چین میں تیل اور گیس کی دریافت پر کام کرنے والی ملک کی سب سے بڑی کمپنی ’چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن‘کے نمائندے لیو ژیاگانگ نے کہا ہے کہ ’اس کنویں کی کھدائی کے دو مقاصد ہیں: سائنسی تحقیق اور تیل اور گیس کی تلاش۔‘

یاد رہے کہ ’چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن‘ ناصرف چین کی سب سے بڑی کمپنی ہے بلکہ یہ دنیا کی تیل اور گیس کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

اس منصوبے کی وضاحت پر مبنی ویڈیو پیغام میں لیو ژیاگانگ نے یقین دہانی کروائی ہے کہ یہ منصوبہ پیٹرو چائنا (چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن کے زیر کنٹرول کاروباری ادارہ جو ہانگ کانگ سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہے) کی تیکنیکی صلاحتیوں کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی کوششوں میں مدد فراہم کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس منصوبے کے دوران کھدائی کی نئی اور جدید مشینری کی تیاری میں بھی مدد ملے گی۔

اس منصوبے کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے ماہر ارضیات کرسٹیان فاریاس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زمین کی انتہائی گہرائیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے دنیا کی سائنسی برادری عموماً سیسمک ٹوموگرافی اور دوسری تکنیکوں کا استعمال کرتی ہے۔ اس قسم کے منصوبے بہت کارآمد ہیں کیونکہ ان کی مدد سے تحقیق میں مدد کے لیے فزیکل شواہد دستیاب ہوں گے۔‘

کرسٹیان فاریاس، جو کیتھولک یونیورسٹی آف ٹیموکو میں سول ورکس اینڈ جیولوجی کے ڈائریکٹر بھی ہیں، کہتے ہیں کہ چین کا منصوبہ اب تک بنائے گئے جدید آلات اور تکنیکی ترقی کو ٹیسٹ کرنے کا موقع فراہم کرے گا، اور دنیا کے لیے کچھ نیا کرنے کے نئے در کھولے گا۔

گیس اور تیل
 
image

چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن نے اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد یہ بھی ہے اس خطے میں تیل اور گیس کے انتہائی گہرے نئے ذخائر تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔

زمین کی انتہائی گہرائی میں ہائیڈرو کاربن کے ذخائر، عام طور پر 5,000 میٹر (یا پانچ کلومیٹر کی گہرائی) سے نیچے، عام طور پر سمندری علاقوں میں واقع ہوتے ہیں، جہاں چٹان اور تلچھٹ کی تہیں زیادہ موٹی ہوتی ہیں، مگر بعض اوقات یہ زمینی علاقوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔

تاکلماکان صحرا کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ یہ ایسا علاقہ ہو سکتا ہے جہاں تیل اور قدرتی گیس کے بڑے ذخائر موجود ہو سکتے ہیں۔

تاہم، ماہرین کے مطابق اس منصوبے پر کام کے دوران اِس صحرا کی ارضی ساخت، جیسا کہ انتہائی زیادہ درجہ حرارت اور ہائی پریشر، کی وجہ سے اہم تکنیکی چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں۔

پروفیسر کرسٹیان فاریاس کہتے ہیں کہ ’اتنے گہرے گڑھے کا وجود برقرار رکھنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔‘

اگرچہ روس ماضی میں 12کلومیٹر کی گہرائی سے تجاوز کرنے میں کامیاب رہا تھا، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی پرت کی اتنی نچلی سطح تک پہنچنا آج بھی انتہائی پیچیدہ معاملہ ہو سکتا ہے۔

چینی اکیڈمی آف انجینئرنگ کے ایک سائنسدان سن جن شینگ نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ژن وا‘ کو بتایا کہ ’اس ڈرلنگ پراجیکٹ کی تعمیر سٹیل کی دو پتلی تاروں پر ایک بڑے ٹرک کو چلانے کے مترادف ہے (یعنی یہ ایک انتہائی مشکل منصوبہ ہو گا)۔‘

اس کے علاوہ تاکلماکان صحرا کو کام کرنے کے لیے مشکل علاقہ سمجھا جاتا ہے، جہاں سردیوں میں درجہ حرارت منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ تک گِر جاتا ہے جبکہ گرمیوں میں یہ درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔
 
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: