سلیم صافی صاحب کا جنگ میں شایع
شدہ کالم جرگہ پیش خدمت ہے۔
انارکی ہے، مزید بڑھ سکتی ہے ، پاکستان کا حلیہ بدل گیا ہے اور مزید بدل
سکتا ہے لیکن اس کے نقشے میں تبدیلی کے خواب دیکھنے یا پھر اس سے ڈرانے
والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں تو امریکہ خود نہیں بیٹھا،
عراق اور افغانستان میں تو امریکی اپنے لاؤلشکر اور اتحادیوں کے ساتھ خود
بیٹھے ہیں۔ملکوں کی ٹوٹ پھوٹ اس قدر آسان ہوتی تو عراق اور افغانستان کب کے
ٹوٹ چکے ہوتے کیا مذاق ہے کہ جس بھی پاکستانی لیڈر کو کوئی سیاسی یا ذہنی
بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو فوراً پاکستان کے ٹوٹنے کی منحوس دہائیاں دینے
لگ جاتا ہے ۔کوئی چند افراد یا نام نہاد امریکی تھنک ٹینک کا بنایا ہوا کئی
سالہ پرانا نقشہ نکال کے لے آتا ہے،کوئی میڈیا میں اپنی حاضری لگوانے کے
لئے ملک توڑنے کی سازش کے نعرے بلند کردیتا ہے،کوئی کالم نگار اپنے قارئین
کی تعداد میں اضافے کے لئے تو کوئی اینکر اپنے شو کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے
قوم کو ڈرانے کا سلسلہ شروع کردیتا ہے لیکن کوئی نہیں جو انہیں منہ توڑ
جواب دے کر کہہ ڈالے کہ حضرات پاکستان کوئی زرداری صاحب کا وعدہ نہیں کہ
امریکی جب چاہیں توڑ ڈالیں گے اور اگر تم لوگوں کی گھبراہٹ کا کوئی جواز
موجود بھی ہے تو آپ لوگ کس کو الزام دے رہے ہو۔ سالوں سے اس ملک کے مختار
اور رہنما آپ لوگ ہی ہیں۔ یہ ملک اگر ناکام ہوگا یا خاکم بدہن ٹوٹے گا تو
ذمہ دار تو آپ لوگ ہی ہوں گے۔ پھر پاکستان کے مستقبل کے بارے میں شکوک و
شبہات پھیلانے سے قبل کیا یہ ضروری نہیں کہ آپ لوگ سیاست چھوڑ دیں۔امریکہ
اور برطانیہ سے الطاف حسین صاحب کا خوف تو سمجھ میں آتا ہے۔ انہوں نے تو
اپنی گزشتہ پریس کانفرنس میں بھی امریکہ کے مقابلے میں اپنی بے بسی کا
اعتراف کرلیا لیکن مجھے جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے لیڈروں یا
پھر امریکہ مخالف دانشوروں کے رویّے پر حیرت ہوتی ہے۔ دن رات بولتے اور
لکھتے تو امریکہ کے خلاف ہیں لیکن عملاً انہوں نے اسے نعوذباللہ خدا سمجھ
رکھا ہے۔ امریکہ سے ان کے خوف کا یہ عالم ہے کہ وہ اس کی مرضی کے خلاف کسی
کام کے ہونے کا یقین ہی نہیں کرتے۔ وہ نائن الیون کو بھی امریکی سی آئی اے
کی کارستانی باور کراتے ہیں اور پاکستان کے اندر طالبانائزیشن کو بھی سی
آئی اے کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ انہیں ایمان کی حد تک یقین ہے کہ پاکستان
میں کوئی بھی کام امریکی سی آئی اے کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتاحالانکہ
امریکی اتنے ہی تگڑے ہوتے تو عراق میں اپنے فوجیوں کو مروانے کے بعد اسے
سنبھالنے کے لئے ایران کے ساتھ اس کی بندربانٹ نہ کرتے اور افغانستان میں
اپنی کامیابی کے لئے پاکستان کی ناز برداریاں نہ اٹھاتے۔ افغانستان اور
عراق کو سنبھال سکے اور نہ تقسیم کرسکے لیکن اب پاکستان کو تقسیم کریں گے،
جیسے یہ پاکستان نہیں حکومتی اتحاد یا متحدہ مجلس عمل ہے کہ جسے جب چاہیں،
بنانے والے تقسیم کرلیں گے ۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ یا اس کے مغربی اتحادیوں کو پاکستان توڑنے کی ضرورت
کیا ہے؟ ان سے یہ خطہ موجودہ نقشے کے ساتھ سنبھالا نہیں جارہا ہے۔ ابھی ایک
پاکستان ان کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ اسے کیا پڑی ہے کہ اس خطے میں پانچ
دس پاکستان بنا کر اپنے درد سر کو پانچ دس گنا بڑھا دے۔ امریکہ کے نام نہاد
مخالف دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اس لئے امریکہ اسے
توڑنا چاہتا ہے حالانکہ امریکی ان کی طرح بے خبر نہیں۔ انہیں علم ہے کہ
پاکستان کی ایٹمی تنصیبات ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور پاکستان کی تقسیم
کی صورت میں یہ ہتھیار اور بھی غیرمحفوظ ہوجائیں گے۔ یوں ہمدردی یا محبت
میں نہیں لیکن ان ایٹمی ہتھیاروں کے خوف سے بھی امریکہ کبھی بھی پاکستان کی
تقسیم نہیں چاہے گا۔ یہ خوفزدہ عناصر خوف پھیلا کر بنگلہ دیش کی مثالیں
دیتے پھرتے ہیں حالانکہ بنگلہ دیش اور کراچی، بلوچستان یا پھر خیبر
پختونخوا کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بنگالی مغربی پاکستان میں اسی
طرح نہیں پھیلے تھے جس طرح آج پختون، پنجابی اور اردو بولنے والے پاکستان
بھر میں پھیل گئے ہیں۔ پاکستان کے اندر کسی بڑی جماعت کے دستور یا منشور
میں پاکستان سے علیحدگی شامل نہیں ۔ اے این پی اور جئے سندھ جیسی جماعتیں
جو کسی زمانے میں پختونستان اور سندھودیش کا خواب دیکھا کرتی تھیں لیکن آج
اے این پی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہے جبکہ سندھ کے کسی حصے سے
علیحدگی کی آواز نہیں اٹھ رہی ہیں۔ بلوچستان میں چند عناصر علیحدگی کا نعرہ
ضرور لگاتے ہیں لیکن ماضی میں جتنی قدآور بلوچ شخصیات اس مقصد کے لئے
جلاوطن ہوئی تھیں، موجودہ علیحدگی پسندوں کی ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت
نہیں۔ اسی طرح حکومتی رٹ کو سب سے زیادہ طالبان اور عسکریت پسندوں نے چیلنج
کیا ہے لیکن باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک اور سوات سے لے کر کراچی تک ، ہر
قسم کے مذہبی عسکریت پسندوں کے ایجنڈے میں پاکستان سے علیحدگی شامل نہیں
بلکہ وہ تو پاکستان کی حفاظت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اب جب ملک کے اندر کوئی
تڑوانے کے لئے میدان میں نہیں اور بیرونی قوتوں کو عالمی طاقتوں کو سوٹ
نہیں کرتا تو پاکستان کیوں ٹوٹے گا؟کالم کی تنگ دامنی اجازت نہیں دیتی ورنہ
تفصیل لکھتا کہ لسانی بنیادوں پر پاکستان یا خطے کے کسی بھی ملک کی تقسیم
کو ایران، چین اور بھارت کو کیوں گوارا نہیں ہوگا۔
بلاشبہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی یا پھر بھارت اپنے لئے پاکستان کو
درد سر سمجھتے ہیں۔ پاکستان سے متعلق ان سب کے مطالبات اور خدشات کی فہرست
بہت طویل ہے، اس لئے جس کا بس چلتا ہے پاکستان کو دبانے اور زیردام لانے کی
کوشش کرتا ہے۔ اس مقصد کے لئے جب ضرورت پڑتی ہے، وہ عدم استحکام کی کوششوں
کو بھی شہہ دیتے ہیں۔ بعض اوقات پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لئے انتشار
پھیلانے والے عناصر کو ابھارتے یا پھر ان کی درپردہ پشت پناہی بھی کرتے ہیں
لیکن نہ وہ تقسیم کے انتہائی آپشن کی طرف جاسکتے ہیں اور نہ ان کی اس طرح
کی کوئی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے ۔ہمارے خیبر پختونخوا کے ایک سیاستدان جنرل
فضل حق کے گروپ میں شامل تھے ۔ جنرل صاحب نے ان کے ساتھ وزارت کا وعدہ کیا
تھا ، یوں وہ روزانہ گورنر ہاؤس کے چکر لگاتے رہتے تھے ۔یہ سیاستدان تب تک
جنرل ضیاء الحق اور جنرل فضل حق کی پالیسیوں کے زبردست وکیل تھے لیکن آخری
وقت پر جنرل فضل حق پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے ایک دن انہیں صاف بتا دیا کہ
وہ وزیر نہیں بن سکتے۔ اسی رات جب سیاستدان صاحب مایوس ہوکر گھر واپس گئے
تو دوستوں نے دیکھا کہ وہ تسبیح پڑھتے ہوئے برآمدے میں بڑی بے چینی کے ساتھ
ٹہل رہے ہیں۔ دوستوں نے ان سے ان کی پریشانی اور تسبیح و مناجات کی وجہ
پوچھی تو سیاستدان کہنے لگے کہ آپ لوگوں کو اندازہ نہیں لیکن پاکستان کا
وجود خطرے میں ہے۔ سوویت یونین طورخم کی سرحدوں تک آگیا ہے اور اب پاکستان
کا بچنا ناممکن ہے ۔ پاکستان جیسے تھا ویسا ہی تھا لیکن جب ان کو وزارت نہ
ملی تو انہیں پورے پاکستان کا وجود خطرے میں نظر آنے لگا۔ وہ صاحب جب کئی
سال بعد سردار مہتاب کابینہ میں وزیر بنے تو ایک بار پھر پاکستان کے روشن
مستقبل کی نویدیں سنانے لگ گئے۔ کم و بیش یہی ہمارے سارے سیاسی لیڈروں کا
وتیرہ ہے۔ حکومت میں ہوتے اور مزے لوٹتے ہیں تو وہ پاکستان کے حقیقی مسائل
اور عوامی مشکلات کے وجود سے بھی انکاری ہوتے ہیں۔ جب تک وہ سبز سیاہی والے
قلم سے دستخط کر رہے ہوتے ہیں، وہ پاکستانیوں کو بھی سبز باغ دکھاتے رہتے
ہیں لیکن جونہی ان پر کوئی مشکل وقت آتا ہے یا پھر انہیں اقتدار میں حسب
منشا حصہ نہیں ملتا تو انہیں پاکستان ٹوٹتا ہوا نظر آنے لگتا ہے۔ زرداری
صاحب چیک اپ کے بہانے انجوائے کرنے کی غرض سے لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ
ایم کیوایم کو مناکر ہی واپس لوٹیں گے ۔ اے این پی کی دھمکی رکاوٹ بنی تھی
لیکن اب اے این پی اور ایم کیوایم کی قیادت سے طاقتور لوگوں نے کہہ دیا ہے
کہ وہ تلخی کم کردیں۔ چند روز تک یہ تلخی ختم ہوجائے گی اور ایم کیوایم
واپس حکومت میں آجائے گی۔ یوں انشاء اللہ چند روز بعد الطاف حسین صاحب کے
ہاں تو پاکستان کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا ، البتہ منور حسین صاحب کو
بدستور سال ڈیڑھ تک پاکستان کا مستقبل تاریک نظر آئے گا۔ |