کیا یہ سب عذاب الٰہی کی نشانیاں نہیں ہیں ؟؟

لکھوں تو کس پہ لکھوں.... وطن عزیز پر جس کو لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد حاصل کیا گیا۔حکمرانوں پر جنہوں نے ہمیشہ اس مٹی کی آبرو کو بیچنے کی کوشش کی ان سیاسی جماعتوں پر جنہوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر اصولوں کی سودا بازی کی۔ اس بیوروکریسی پر جو اپنی نوکر شاہی کی بقاءکی خاطر کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتی ہے۔ فوج پر کہ جو ایک نقصان دہ جنگ میں دھنس چکی ہے۔ ان مذہبی جماعتوں پر جو مذہب کے نام پر عوام کی خواہشات سے کھیلتی رہتی ہیں ۔ جس موضوع پر بھی لکھنے کو جی کرتا ہے ہر طرف ابتری ہی نظر آتی ہے۔ کرپشن، ٹارگٹ کلنگ، اداروں کی تباہی، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، غربت، حکمرانوں اور سیاستدانوں کے نزدیک یہ مسائل رہے ہی نہیں۔ پاکستان کی صنعت تباہ ہوچکی ہے اور زراعت تباہی کے دہانے پر ہے۔ سیاسی الجھنوں میں عوام پِس کر رہ گئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اللہ کا عذاب ہم پر مسلط ہے۔ شمالی علاقہ جات اور آزادکشمیر کے پرامن لوگ ........ روشنیوں کا شہر کراچی........
افغانستان کے ساتھ پاکستان کی مضبوط ترین دفاعی سرحد جس پر پاکستان کو کبھی فوج رکھنے کی ضرورت پیش نہ آئی تھی۔ قدرتی وسائل سے بھرپور صوبہ بلوچستان.... مہمان نواز خیبرپختونخواہ کے لوگ........ یہ سب کچھ کسی وقت ایسا تھا۔

8اکتوبر 2005ءکو آنے والے زلزلہ نے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 74000 انسانوں کی جان لے لی اور ایک لاکھ سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ پورا انفراسٹرکچر تباہ ہوکر رہ گیا۔ 6سال گزرنے کے باوجود بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں تعمیر نو کا کام اب بھی باقی ہے۔ آزادکشمیر کے لوگوں کے کبھی خیال میں بھی نہیں گزرا ہوگا کہ انہیں کبھی ایسی صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ کبھی دوسروں کے رحم و کرم پربھی ہوں گے ۔لیکن ایسا ہوا۔

پاکستان کی افغانستان کے ساتھ طویل ترین سرحد سب سے زیادہ پرامن تھی۔ پاکستان کو کبھی ضرورت ہی نہ پڑی تھی کہ وہاں پر اپنی فوج تعینات کرے۔ صورتحال یہ ہے امریکہ کی طرف سے مسلط کردہ جنگ میں ہم بری طرح دھنس چکے ہیں۔ 35ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا جاچکا ہے۔ 68ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا جا چکا ہے۔ امریکہ بہادر تاحال ہم سے خوش نہیں اور افغانستان کی جرات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بسا اوقات وہ پاکستان کو دھمکی آمیز لہجے میں مخاطب کرتا ہے۔ قبائلی علاقہ جات کا اعتماد ہم سے اٹھ چکا ہے۔ ہمارے محافظ دشمن کا روپ دھار چکے ہیں۔

خیبرپختونخواہ کی مہمان نوازی کی جگہ اب قتل و غارت اور بم دھماکوں نے لے رکھی ہے۔ صوبہ میں کہیں تحفظ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔

قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان مسلسل ناانصافیوں کی وجہ سے غیر بلوچی کو مارنے پر تلا ہوا ہے۔ شناختی کارڈ دیکھے جاتے ہیں غیر بلوچی ہونے پر زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ وجہ ان کے وسائل ان کو نہ دینا ہے۔ کبھی بھی بلوچستان میں بیرونی مداخلت اور شورش کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوسی بڑی ہوشیاری سے اپنے مقاصد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

روشنیوں کا شہر کراچی لہو میں رنگ چکا ہے۔ اے این پی، متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی شہر پر اپنا قبضہ جمانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے درپے ہیں۔

گزشتہ دنوں ہونے والے سیاسی دھماکے خود اس بات کے گواہ بن چکے ہیں۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔

گزشتہ برس پنجاب کو سیلاب کی صورت میں عذاب الٰہی سے دوچار ہونا پڑا اور اس برس اندرون سندھ سیلاب سے ڈوبا پڑا ہے۔

پنجاب میں بھی بدامنی موجود ہے جو شاید مزید بڑھ جائے اگر سلسلہ ایسا ہی رہا ۔

کیا یہ سب عذاب الٰہی کی نشانیاں نہیں ہیں ؟؟
Rizwan Arshad
About the Author: Rizwan Arshad Read More Articles by Rizwan Arshad: 10 Articles with 235268 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.