یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مودی سرکار کو کورونا وبا کے
دوران سارے اصول و ضوابط اور احتیاطی تدابیر بالائے طاق رکھ کر ایوانِ
پارلیمان کی نئی عمارت تعمیر کرنے کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ وزیر داخلہ کا
دعویٰ ہے کہ ساٹھ ہزار محنت کشوں نے اس عمارت کی تعمیر میں حصہ لیا ہے ۔ یہ
پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے کتنے کورونا سے متاثر ہوئے۔ ان کے علاج
معالجہ کے لیے سرکار یا اس کے ٹھیکیداروں نے کیا اقدامات کیے اور کتنوں نے
اپنی جان گنوائی۔ ان کی موت کے بعد اہل خانہ کی خبر گیری کے لیے کیا کیا
گیا۔ کوئی تفتیشی صحافی اگر اس موضوع پر تحقیق کرے تو چونکانے والے اعدادو
شمار منظرِ عام پر آسکتے ہیں۔ وہ ایسا زمانہ تھا کہ لاکھوں مزدور پیدل نقل
مکانی کے مجبور ہوگئے تھے۔ وقت کا دھارا تھم سا گیا تھا۔ عام لوگ دانے دانے
کو ترس رہے تھے ۔ آکسیجن سلنڈر کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھارہے تھے۔ گلی
کوچوں میں لاشیں جلائی جارہی تھیں ۔ گنگا ندی میں لاشوں کے بہنےکی خوفناک
تصاویر دل دہلا رہی تھیں ۔اس سب کے باوجود دارالخلافہ دہلی میں زور و شور
کے ساتھ ایوان پارلیمان کی نئی عمارت میں وزیر اعظم کے خوابوں کا محل تعمیر
ہورہا تھا ۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سفاکی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود کیا
آئندہ سال ملک کے عوام اس نئے مکان میں وزیر اعظم کو رہنے کی اجازت دیں گے
یا انہیں قرار واقعی سزا دے کر نکال باہر کریں گے۔بی جے پی اگر یہ سوچتی ہے
کہ نئی عمارت کو دیکھ کر ملک کے باشندے خوش ہوجائیں گے تو یہ اس کی خوش
فہمی ہے کیونکہ اس نے اس کا سنگ بنیاد رکھتے وقت سابق دلت صدر رام کووند کو
نظر انداز کردیا اور افتتاح میں قبائلی صدرِ مملکت دروپدی مرمو کی ان دیکھی
کی۔ کیا ملک کا دلت اور قبائلی سماج اس پر اپنی ناراضی کا اظہار نہیں کرے
گا؟ سنگھ پریوار کی موقع پرستی کا یہ عالم ہے کہ جب 1989 میں پہلی بار اس
نے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی سے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی
اجازت مانگی تو اس کام کے لیے بہار میں دلت سماج سے تعلق رکھنے والے
کامیشور چوپال کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اس طرح یہ فریب دہی کی کوشش کی گئی
کہ رام مندر دلتوں کے لیے بھی ہے۔ اس کے بعد ونئے کمار کٹیار جیسے پسماندہ
کو بجرنگ دل کا صدر اور کلیان سنگھ و اومابھارتی جیسے لودھ سماج کے لوگوں
کو یوپی وایم پی کا وزیر اعلیٰ بناکر پسماندہ طبقات کو قریب کیا گیا لیکن
اب اقتدار مل گیا تو دلت و قبائلی صدرِ مملکت کو بھی ایوانِ پارلیمان کا
سنگ بنیاد اور افتتاح کے لیے نہیں بلایا گیا۔ اسے ابن الوقتی کہتے ہیں۔
فی زمانہ ملک میں نہ صرف اقلیتوں بلکہ پسماندہ طبقات کو بھی پوری طرح نظر
انداز کیا جارہاہے۔مہاتما گاندھی ، مولانا آزاد اور ڈاکٹر امبیڈکر کے
بجائے وی ڈی ساورکر ، ایم ایس گولوالکر اور ناتھو رام گوڈسے جیسے لوگوں کی
پذیرائی کی جارہی ہے۔یہ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے انگریزوں سے معافی مانگی اور
ان سے وفاداری کا حق ادا کردیا ۔ان لوگوں کو عوام کا آئیڈیل بنایا جارہاہے
جنھوں نے انگریزوں کے بانٹو اور کاٹو کی حکمت عملی پر زور و شور سے عمل کیا
اور آزادی کے بعد ملک میں پہلا دہشت گردانہ حملہ کرکے گاندھی جی کو قتل
کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایوانِ پارلیمان کا افتتاح کرنے کی خاطر خود ساختہ
ویر جنھیں ان کے ناقد معافی ویر بھی کہتے ہیں کے یوم پیدائش کا انتخاب کیا
گیا ۔ یہ وہی ساورکر ہے جنھوں نے ناتھو رام گوڈسے کو آشیرواد دے کر گاندھی
جی کے قتل کی خاطر روانہ کیا تھا ۔ گولوالکر کے نظریات سے متاثر ہوکر گوڈسے
پہلے آر ایس ایس میں شامل ہوا۔ اس کے بعدساورکر کی ہندو مہاسبھا میں جاکر
گاندھی جی کا قتل کردیا۔
یہ محض الزام نہیں ہے بلکہ عدالت میں ثابت ہو نے والا جرم ہے۔ ناتھو رام
گوڈسے نے۹ نومبر سنہ 1948 کو عدالت میں یہ اعتراف کیا تھا کہ : ’ہاں، میں
نے گاندھی جی کو گولی ماری تھی۔ گولی لگنے کے بعد ایک شخص نے پیچھے سے مجھے
سر پر مارا اور خون نکلنے لگا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے وہی کیا جو میں
نے منصوبہ بنایا تھا اور مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ ‘ اس قتل کے بعد بی جے
پی کے چہیتے نائب وزیر اعظم ولبھ بھائی پٹیل نےڈیڑھ سال کے لیے راشٹریہ
سویم سیوک سنگھ پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’گاندھی کے قتل کے لیے
وہ فرقہ وارانہ زہر ذمہ دار ہے جسے پورے ملک میں پھیلا گیا ہے۔‘ساورکر اور
گولوالکرکے ہندوتوا کی مخالفت اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ اسی نظریہ کے بطن
سے ہندوستان کا سب سے پہلا دہشت گرد پیدا ہوا ۔ اس نے ملک کے سب سے بڑے
رہنما کو ببانگ دہل قتل کیا ۔ گاندھی کا قتل ناتھو رام گوڈسے کاانفرادی عمل
نہیں بلکہ آر ایس ایس کی دلی خواہش تھی۔
گاندھی جی کے پرسنل سیکریٹری نے روزنامہ نوجیون پرکاشن میں لکھا تھا : ’آر
ایس ایس کے ممبروں کو کچھ جگہوں پر پہلے ہی سے ہدایت تھی کہ وہ جمعہ کے دن
خوشخبری کے لیے ریڈیو کو کھلا رکھیں۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس ارکان نے
متعدد مقامات پر مٹھائیاں بھی تقسیم کیں۔‘ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں تھا
بلکہ اس سانحہ کے دو عشروں بعد آر ایس ایس کی ترجمان ’آرگنائزر‘ نے 11
جنوری سنہ 1970 کو اپنے اداریہ میں لکھا تھا کہ ’نہرو کے پاکستان نواز ہونے
اور گاندھی جی کے بھوک ہڑتال پر جانے سے لوگوں میں کافی ناراضی تھی۔ ایسے
میں ناتھورام گوڈسے ان لوگوں کی نمائندگی کررہے تھے، گاندھی کا قتل عوامی
غم و غصے کا اظہار تھا۔‘ ان لوگوں کے نزدیک عوامی غم و غصے کے تحت قتل یا
کسی عبادتگاہ کی مسماری جائز ہے ۔ ان لوگوں نے بابری مسجد کی شہادت کا بھی
یہی جواز پیش کیا گیا تھا۔ ان کی حکمت عملی عوام میں غم و غصہ پیدا کرکے اس
کے ذریعہ ظلم و جبر کو جائز ٹھہرانا ہے۔
آر ایس ایس کے لوگ ناتھو رام گوڈسے کے سنگھ سے نکل جانے کا بہانہ بناکر
اپنا پلہّ جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر قاتل کےبھائی گوپال گوڈسے نے 28
جنوری 1994 کو جریدہ فرنٹ لائن سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ : ’ہم سب بھائی
آر ایس ایس میں تھے۔ ناتھورام، دتاتریہ، میں اور گووند۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ
ہم اپنے گھر میں نہیں آر ایس ایس میں بڑے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس ہمارے لیے
خاندان تھا۔ ناتھورام آر ایس ایس میں دانشور کارکن بن گئے۔ ناتھورام نے اس
لیے اپنے بیان میں آر ایس ایس چھوڑنے کی بات کہی تھی تا کہ گولوالکر اور آر
ایس ایس کو گاندھی کے قتل میں پھنسنے سے بچایا جائے، لیکن ناتھورام نے آر
ایس ایس کو نہیں چھوڑا تھا۔‘ گوپال گوڈسے نےبی جے پی رہنما ایل کے اڈوانی
کے ذریعہ آر ایس ایس اور ناتھورام میں تعلق کے انکار پر کہا تھا : ’وہ
بزدلانہ باتیں کر رہے ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آر ایس ایس نے ایسی کوئی
قرارداد منظور نہیں کی تھی کہ ’جاؤ اور گاندھی کو مار دو‘ لیکن آر ایس ایس
کے ساتھ ناتھورام کے تعلقات کو مسترد نہیں کرسکتے۔ ‘ یہ ایک ناقابلِ تردید
حقیقت ہے کہ ناتھو رام نے نہ کبھی سنگھ کو چھوڑا اور نہ ہی اسے برطرف کیا
گيا۔
عتیق احمد کے قاتلوں اور گوڈسے کی ذہنیت میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔
دونوں ایک فکر و نظریہ کے علمبردار ہیں۔ اس لیے بی جے پی والے اگر ایسا
سمجھتے ہیں تو ان غلام قاتلوں کو ہیرو بنادیں گے تو ا یک سال انتظار کریں
آئندہ سال ان کی ساری خوش فہمی دور ہوجائے گی ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک
بات سمجھ لینا چاہیے کہ اب حزب اختلاف پہلے جیسا نہیں ہے ۔ اس نے بھی مودی
جی کی مانند آپدا میں اوسر( مشکل میں موقع) کا فن سیکھ لیا ہے۔ وہ مودی
سرکار کو گھیرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتا اس لیے ایوانِ پارلیمان کے
افتتاح کی وہ تقریب جس کو موجودہ حکومت 2024 میں کامیابی کا ہتھیار بنانا
چاہتی تھی اسے بڑی مہارت سے بدنامی کی سبیل بنادیا گیا ہے۔ گاندھی قتل
معاملے میں خود وی ڈی ساورکر پر بھی سازش میں شامل ہونے کا الزام تھا مگر
وہ ثبوتوں کی کمی کے سبب چھوٹ گئے۔ اب اگر ایسے شخص کے یوم پیدائش پر ایوان
پارلیمان کا افتتاح ہو تو اس کی مخالفت لازم ہوجاتی ہے۔ حزب اختلاف کی
پرزور مخالفت نے وزیر اعظم کو ساورکرکےبجائے گاندھی جی کوخراج عقیدت پیش
کرکے تقریبات کا آغاز کرنے پر مجبور کردیا۔یہ ساورکر نوازوں پر گاندھی کے
حامیوں کی ایک فتح ہے۔ 21 سیاسی جماعتوں کے متحدہ بائیکاٹ نے یہ ثابت کردیا
کہ اب وہ بڑھ چڑھ کر حملہ کرنے لگے ہیں۔ اس لیے موجودہ سرکار کا دوبارہ
اقتدار میں آجانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ حزب اختلاف کے بلند
حوصلوں پر خالد محمود کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
مقابلہ ہو تو سینے پہ وار کرتا ہے
وہ دشمنی بھی بڑی پروقار کرتا ہے
|