قدرت کا امتحان ہے ہمت نہ ہارنا۔۔
(Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador), Karachi)
|
آج پاکستان سیاسی مشکلات سے دوچار، معیشت تباہ اور نظام
بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے، یہ سب کچھ اچانک یا غیر ارادی طور پر نہیں بلکہ 75
برسوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا مجموعہ ہے ، نوجوان نسل کیلئے درست سمت کا
تعین نہیں ہوسکا اور افسوس کہ ہم برسہا برس سے اپنے ملک کیلئے قائد اعظم
محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد ایک مخلص اور درد دل رکھنے والا
لیڈر پیدا نہیں کرسکے، یوں محسوس ہوتا کہ شائد ہمیں کسی کی نظر کھاگئی ہے۔
بھوک، بدحالی اور دیگر کئی مسائل کی دلدل میں دھنستے عوام کو شائد یہ گمان
تھا کہ پی ٹی آئی ان کے درد کا درماں اور برسوں سے اقتدار کے ایوانوں میں
قابض جماعتوں کی اجارہ داری ختم کرکے عوام کو خوشحالی دے گی لیکن یہ آس
سانحہ نومئی کی آگ میں بھسم ہوچکی ہے۔
بد ترین مسائل کے باوجود ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے حالات بحال ہونگے، وہ
چاہے ٹیکنوکریٹ کریں یا سیاستدان ہمیں امید ہے کہ سانس کی ڈور ٹوٹنے سے
پہلے ہماری آس اور امید برآئیگی۔
پاکستان کے معاشی اشاریوں کو دیکھیں تو 131 ارب ڈالر کا بیرونی قرض ہے، 35
سے 36 کھرب کے اندرونی قرضے ہیں، ایسے حالات میں بیرونی سرمایہ کار پیسہ
لگانے سے گریز کرتے ہیں۔
ہم نے پہلے بھی حکومت کو معاشی مسائل کے بھنور سے نکلنے کی کچھ تجاویز پیش
کی تھیں ، دوبارہ بتاتے چلیں کہ اگر حکومت معاشی مسائل پر قابو پانے کیلئے
فوری چند اقدامات اٹھالے تو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے مسائل کے سامنے بندھ
باندھ سکتی ہے:
1۔بیرون ممالک میں اپنے سفارتخانوں میں تجارتی نمائشوں کا انعقاد کیا جائے
اور وہاں سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ فوری پاکستان ارسال کیا جائے۔
2۔ سمندر پار پاکستانیوں کا اعتماد بحال کریں اور ان کیلئے قانون سازی کرکے
پاکستان میں زمینیں دی جائیں اور ان اقساط کی صورت میں ادائیگی پر مائل
کریں تو زرمبادلہ میں تیزی آسکتی ہے۔
3۔ خلیجی ممالک میں موجود پاکستانیوں کو پاکستان میں قرضے دیئے جائیں تاکہ
وہ بیرون ممالک سے یہ رقوم واپس کریں۔
4۔ اخراجات کم کریں، جی ایس پی پلس اور دیگرپلیٹ فارمز سے تجارت کو فروغ
دیں، پیدا وار کو بڑھایا جائے تاکہ ایکسپورٹ میں اضافہ ہوسکے۔
ہم میں ہنر اور جذبہ موجود ہے لیکن درست رہنمائی کی ضرورت ہے، حالات آج اس
نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سانس مدہم ہوتی جارہی ہے کہ ایسے میں ہم زیادہ
فاصلہ طے کرنے کی ہمیت نہیں رکھتے۔ اب ہمیں اپنی زندگی کی اس ڈور کو برقرا
ررکھنے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہوگا اور اپنے نوجوانوں کو میں یہی کہنا
چاہوں گا کہ:
میرے دیس کے جوانو ہمت نہ ہارنا
قدرت کا امتحان ہے ہمت نہ ہارنا
نئی نسلوں کے چراغو امید رکھو باقی
یہ ملک ہے تمہارا ہمت نہ ہارنا
خوشحال تم رہو گے سرشار تم رہو گے
دشوار اس گھڑی میں ہمت نہ ہارنا
میرے دیس کے جوانوں ہمت نہ ہارنا
ہمیں اپنے نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ وہ
بد دل ہوجائیں۔
جہاں تک پاکستان کی عالمی قوتوں سے تعلقات کی بات ہے تو ہم اس بات کو چاہے
تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ حقیقت ہے کہ ہم جانے انجانے میں امریکا کے ہم
نواؤں سے نکل کر چین کے ہم پیالہ و ہم نوالہ بن چکے ہیں۔ اس کا بین ثبوت
یہ ہے کہ ماضی میں امریکا ہمیں دامے درمے سخنے ہر طرح مدد و امداد دیتا رہا
لیکن اس وقت نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ ہماری وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے
قرض کیلئے امریکی سفیر کی منتیں کررہے ہیں لیکن امریکا ہماری بات پر کان
دھرنے کا بھی روادار نہیں۔
چین 2010ء سے اپنی تجارت کا دائرہ وسیع کررہا ہے اور اس وقت چین دنیا کا سب
سے بڑا پیداواری ملک بن چکا ہے ، چین کا بی آر آئی 4 کھرب ڈالر کا منصوبہ
ہے جس میں چین دنیا کے 160 سے زائد ممالک کو اپنے ساتھ ملا چکا ہے اس لئے
جیسے ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں ویسے امریکا چین کا بڑھتا اثر
و رسوخ کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
ہم بار بار اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ امریکا کی خارجہ پالیسی کا
مرکز و محور چین کی بڑھتی قوت کو روکنا ہے اور اپنے اس مذموم مقصد کی تکمیل
کیلئے امریکا نے خطے میں بھارت پر اپنے کرم کی نظریں جمارکھی ہیں اور چین
پر نظر رکھنے اور دباؤ بڑھانے کیلئے بھارت کی پشت پناہی بھی کی جارہی ہے۔
یہاں دلچسپ بات تو یہ ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم 87 ارب
ڈالر کے قریب ہے یعنی اختلافات کے باوجود یہ قومیں اپنے مفادات کو بھی کبھی
فراموش نہیں کرتیں اور پاکستان کو بھی اپنے مفادات کو مقدم رکھنے کی ضرورت
ہے۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر غیر اعلانیہ دلوالیہ کی سطحوں
کو چھو چکا ہے لیکن ہمیں قوی امید ہے کہ چین پاکستان سے وابستہ مفادات کے
تحفظ، پاکستانی کی جغرافیائی اہمیت اور عسکری سفارتکاری کے تناظر میں ہماری
مدد کیلئے ضرور آئے گا کیونکہ چین کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں ہمیشہ
ہر فورم اور ہر مشکل میں پاکستان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا رہا ہے۔
چین اور پاکستان کا مستقبل اور مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور پاکستان
میں کتنی بھی حکومتیں بدل جائیں پاک چین دوستی اور تعلقات ہمیشہ مستحکم اور
مضبوط رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اسی طرح یا اس سے بھی زیادہ مضبوط رہیں
گے۔
اب اگر ہم ایک بار پھر اپنے اندرونی مسائل کا احاطہ کریں تو افسوس سے کہنا
پڑتا ہے کہ سیاسی قیادت مسائل کے طوفان کو روکنے میں ناکام نظر آتی ہے اور
ڈوبتی کشتی کو بچانے کیلئے آرمی چیف کا نام لیا جائے تو فوج کا کردار
آئین میں متعین ہے کیونکہ دگرگوں حالات میں قوم کو جو بھی کندھا سہارا دے
گا، قوم اسی کندھے پر سر رکھنے کو ترجیح دے گی۔
|
|