تلخ سیاسی حقائق اور پاک فوج کا عمدہ کردار

پاکستانی افواج کی خوش نصیبی ہے کہ اس کو ہمیشہ سے دلیر ،امن پسند اور پیشہ ور سپاہی کی قیادت دستیاب رہی ہے۔ موجودہ سپہ سالار جنرل عاصم منیر بھی اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کر رہے ہیں وہ ہر لمحہ اور ہر جگہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے میدان عمل میں مصروف نظر آتے ہیں۔کبھی وہ جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے پہاڑوں پر تشریف لے جاتے ہیں تو کبھی کپکپا دینے والی سردی میں اپنے جوانوں کے ساتھ سرد مقامات پرنظر آتے ہیں ۔اس مرد حق نے اپنے آرام و سکون کواس ارض پاک کی سا لمیت اور سلامتی کی خاطر قربان کر رکھا ہے۔جنرل عاصم منیر اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ عمدہ سفارت کاری کرتے ہوئے پاکستان کے ہمسائیہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے میں بھی اہم کردار اداکر رہے ہیں ۔وہ دنیا بھرمیں عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے سپہ سالار ہیں جن کو خصوصاًمسلم ممالک کی سیاسی قیادت عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔اُن کی قیادت میں پاکستانی فوج ہر مشکل گھڑی میں پوری قوم کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔سیلاب ہو، طوفان ہو یا کوئی بھی ایمرجنسی کی ڈیوٹی،پاک فوج ہر جگہ،ہر وقت ہم قدم و ہم نوا۔ پچھلے چندسالوں سے پاکستانی فوج ملک میں پھیلی دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ضرب عضب اور آپریشن ردالفسادء جیسے بڑے معرکے کر چکی ہے۔پاکستان میں قیام امن کے لیے پاکستانی فوج کی لازوال قربانیاں ہیں۔ یہ فوج اپنے خُوبرو جوانوں کی قربانیوں کو اپنے سینے سے لگائے،ہمارے سکون کے لیے دن رات صرف کر رہی ہے۔ان قربانیوں کو ساری قوم نہ صرف جانتی ہے بلکہ مانتی بھی ہے۔پاکستانی قوم کو اپنی افواج پر فخر ہے کہ وہ ہمارے آرام کے لیے خود بے آرام ہوتے ہیں ،ہماری نیند کے لیے وہ جاگتے ہیں اوراپنی جانوں کے نذرانے دے کرملکی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔بد قسمتی سے آج ملکی سلامتی اداروں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جن میں سرفہرست پاک فوج ہے اگرچہ پاکستانی افواج قربانیوں کی ایک لمبی داستان کی امین ہے مگر اب عوام کی باری ہے کہ وہ اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کھولیں اور وطن دشمن کو پہچانیں۔ اپنے فرائض کو جانیں اور مُلک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔اگر آج ہم اپنے اندر اسلاف کی صفات پیدا کر لیں تو چشم زدن میں ہماری تقدیر بدل سکتی ہے اور ایک خوددار قوم کی حیثیت سے ہمیں اقوام عالم میں ایک معزز مقام بھی مل سکتا ہے۔یاد رکھیں کہ فوج ہماری شان ہے اور ہمارا مان ہے اگر ہماری مضبوط افواج موجود نہ ہوتی تو پاکستان کب کا افغانستان بن چکا ہوتا،عراق بن چکا ہوتا،شام بن چکا ہوتا۔ہمارا دشمن ہماری افواج اور عوام کے درمیان مضبوط تعلق سے خائف ہے اور اس پیار کے تعلق کو ختم کرنا چاہتا ہے۔آؤ آج وعدہ کریں کہ پاکستانی قوم اپنی محسن پاکستانی افواج کے ساتھ کھڑی رہے گی اور دشمن ایجنڈے پر کام کرنے والے شرپسند عناصر کی بیخ کنی کے لیے تیار ہے۔

ہٹلر کہتا ہے کہ کسی بھی قوم پر کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اُُس ملک کی فوج کو اپنی قوم کے سامنے اس قدر مشکوک بنا دو کہ وہ قوم اپنے دشمنوں کو محافظ سمجھنے لگے ۔بد قسمتی سے پاکستان میں ان دنوں یہ کھیل خوب کھیلا جا رہا ہے ہمارے بعض سیاست دانوں کا خیال ہے کہ وہ پاک فوج کے افسران پر الزامات لگاسکتے ہیں اور عوامی جلسوں میں پاک فوج کی تذلیل کرسکتے ہیں کیونکہ وہ عوام میں مقبول ہیں اور اُن کو عالمی طاقتوں کی آشیرباد حاصل ہے ۔بعض کو یہ خام خیالی ہے کہ وہ مودی سے اعلانیہ یا چھپ کر ملاقاتیں کریں اوربغیر ویزوں کے ہندوستانی دوستوں کو پاکستان میں داخل کروائیں تو سلامتی کاکوئی بھی ریاستی ادارہ سوال نہ کرے،کوئی وضاحت نہ مانگے اور نہ تفتیش کی جائے۔بس سیاست دانوں کا یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ’’ہمیں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔اگر یہ بات مان لی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سلامتی کے ادارے جو شبانہ روز اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی ادائیگی کے دوران بے شمار جوان اور آفیسرز اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ ارض پاک پر بھی نثار کر چکے ہیں ’’کیا اُن اداروں کو ُدوغلے ،منافق اور غداران وطن سے کسی سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت ہے؟‘‘۔ ساری قوم کاجواب یقیناً نفی میں آئے گا۔ہندوستان کے سابق وزیر اعظم گجرال کا ایک مضمون بھارتی اخبارات کے ساتھ ساتھ پاکستانی اخبارات میں بھی چھپا تھا جس میں وہ خوفناک انکشاف کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں جب مجاہدین نے ہندوستانی ہیلی کاپٹرپر فائر کیا تو ہندوستانی سلامتی کے اداروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی جس پر ہندوستانی وزیر اعظم نے رات گئے ہاٹ لائن پر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے رابطہ کیا اور پھر نواز شریف کی مدد سے دہشت گردوں یعنی کشمیری مجاہدین پر قابو پایا جا سکا ۔سوال یہ ہے کہ کیا ایک محب وطن وزیر اعظم کا رویہ ایسا ہوتا ہے؟۔’’ممبئی حملوں میں پاکستان ملوث تھا اوران حملوں کی ساری منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی‘‘ یہ بیان ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد اور سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کا تھا جو انہوں نے حُب اقتدار اور بغض پاکستانی فوج میں دیا تھا۔ایک اور موقع پرسابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہیدنے ایک انٹرویو میں راجیو گاندھی کو جتلایا تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو شہید ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی مشرقی پنجاب میں مدد نہ کرتیں تو ہندوستان کا نقشہ بدل جاتا‘‘۔ایک دشمن ملک جو آپ کو پہلے ہی دو ٹکڑوں میں تقسیم کر چکا ہو اُس دشمن کی کون سامحب وطن لیڈرمدد کرتا ہے؟۔اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو کسی طرح اطلاع ملی کہ کچھ ملکی سیاست دان باقاعدگی سے اسلام آباد میں واقع ہندوستانی سفارت خانے میں شراب و شباب کی محفلوں میں شرکت کرتے ہیں اور بعض اوقات شب بسری بھی کرتے ہیں۔محترمہ نے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل(ر)کلو اور آئی بی کے سربراہ کو دو ہفتے میں اس خبر کی تصدیق اورتمام سیاست دانوں کی نشان دہی کا حکم دیا۔دو ہفتے بعد جب رپورٹ آئی تو اُس میں پیپلز پارٹی کے وزیر دفاع،وزیر خزانہ اور چند دیگر وزراء کے نام سرفہرست تھے۔اس فہرست کو دیکھ کر محترمہ آگ بگولہ ہو گئیں اور کہا کہ ’’آپ لوگ سیاست دانوں کو بدنام کر نے پر تُلے ہوئے ہیں‘‘۔کیا ایک منتخب اسلامی جمہوری ملک کی وزیر اعظم کا جواب ایسا ہوتا ہے؟۔بد قسمتی سے پچھلے ایک سال سے ایک سیاسی پارٹی کے قائد کی جانب سے مسلسل پاک فوج کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اور اپنے دور اقتدار کی ناکام پالیسیوں کو جواز بنانے کے لیے ہر غلط فیصلہ فوج کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاسی جدوجہد میں سیاسی رہنماؤن کا گرفتار ہونا ایک معمول کا کام ہے مگر ماضی میں عمران خان کی جانب سے اپنی گرفتاری کو ہر ممکن طریقے سے ناکام بنانے کے لیے سادہ عوام کو استعمال کیا گیا بلکہ ماضی قریب میں بچوں اور عورتوں کی ڈھال کو بھی استعمال کیا گیا اور جب موصوف گرفتار ہوئے تو اُن کے کارکنوں نے سرکاری کے ساتھ ساتھ عوام کی املاک کا بھی نقصان پہنچایا جو انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔کسی بھی سیاسی رہنما پر اگر غلط کیسز ہیں تو عدالتیں موجود ہیں وہاں اپنا دفاع کیا جا سکتا ہے جیسے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہر سیاسی مخالف کو مختلف کیسز میں پھنسایا گیا تھا اور جب کچھ ثابت نہ ہوا تو پھر انہیں عدالتوں سے ریلیف مل گیا اور اب عمران کان کو بھی سپریم کورٹ سے خلاف معمول ریلیف مل گیا۔اُوپر بیان کیے گئے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں ہمارے نام نہاد جمہوری سیاست دانوں کا اصلی چہرہ بے نقاب ہوتا ہے اور اقتدار کے حصول کی خاطر ان سیاست دانوں کے نزدیک دشمن قوتوں کا آلہ کار بننا بھی ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔حالیہ دنوں میں ایک ملکی سیاسی جماعت اور اُن کے رفقاء کے اعمال اور بیانات کیا ثابت نہیں کرتے کہ ہمیں بیرونی دشمنوں سے شاید اتنا خطرہ نہیں جتنا اندرونی منافقوں اور اقتدار کی خواہش والے لوگوں سے ہے۔مادرملّت فاطمہ جناح نے آج سے ساٹھ سال پہلے لاہور میں تقریرکرتے ہوئے بڑی حقیقت پسندانہ باتیں ارشاد فرمائی تھیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اُن باتوں کا اطلاق آج کے حالات میں بھی ہوتا ہے ۔اُنہوں نے فرمایا’’ آج ہمیں اتحاد و استحکام کی انتہائی ضرورت ہے ہمارا مُلک نہ صرف بیرونی دشمنوں سے گھرا ہوا ہے بلکہ اندرونی دشمن بھی اُسے جونک کی طرح کھا رہے ہیں۔میں مسلسل کئی سال سے قوم کو آنے و ا لے خطر ات سے آگاہ کر رہی ہوں اور اگر اب بھی وہ متحد ہو کر نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے تیار نہ ہوئی تو تاریخ اُسے کبھی معاف نہیں کرے گی‘‘۔

اب ہم افواج پاکستان کی تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں کہ ہماری سلامتی کے اداروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اعتراف ساری دنیا کرتی ہے ۔اقو ام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ایک بار کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں ایک سو سے زائد ممالک کی افواج حصہ لے چکی ہیں مگر پاکستانی فوج کی کارکردگی سب سے نمایاں ہے۔ہندوستانی خفیہ ایجنسی RAWکے سابق چیف جنرل دولتDAULAT نے ایک بار کہا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دنیا کی خطرناک اور طاقت ور ترین ایجنسی ہے ۔فوجی اُمور کے امریکی ماہر کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کم اخراجات کے ساتھ دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی ہے۔دنیا بھر میں اس کے دس ہزار سے زائد کارندے کام کرتے ہیں اور کبھی بھی کوئی پکڑا نہیں گیا۔دنیا بھر کے لیے پُرامن بقائے باہمی کے اُصولوں پر کاربندہماری مسلح افواج اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے مختلف ممالک میں امن کے لیے گراں قدر خدمات بھی سرانجام دے رہی ہیں۔اس وقت نو ہزار سے زائد پاکستانی فوجی دنیا کے مختلف ممالک میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔1960ء سے لے کر اب تک پاکستانی افواج دنیا کے 23سے زائد ممالک میں قیام امن کے لیے کام کر چکی ہیں۔پاکستانی فوج نہ صرف بیرون ملک بلکہ اندرون ملک بھی اپنے عوام کے دلوں میں بستی ہے۔شہریوں کی حفاظت،ادویات کی فراہمی،زلزلوں میں متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں،الیکشن کو پُرامن بنانا، شاہراؤں کی تعمیر،سیلاب کے دنوں میں امدادی سرگرمیاں وغیرہ وغیرہ۔قارئین! حالت جنگ ہو یا امن،پاک افواج جس مستعدی اور جان فشانی سے وطن عزیز کے دفاع کے لیے سربکف ہے وہ پوری قوم کے لیے باعث اطمینان اور سرمایہ افتخار ہے۔آج فوج کے خلاف بولنے والے عناصر کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے یہ سب طاغوتی قوتیں ناکام ہو جائیں گی کیونکہ عوم کی اکثریت اپنی فوج سے عشق کرتی ہے پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ پاکستان کا قیام اﷲ کی منشاء سے عمل میں آیا تھا اورپاکستا نی فوج دراصل ’’فوج الہی‘‘ ہے ۔

 

Imran Amin
About the Author: Imran Amin Read More Articles by Imran Amin: 53 Articles with 39245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.