|
|
پاکستان میں اس وقت ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 262 روپے ہے جبکہ ایک لیٹر
ڈیزل 253 روپے کا ہے۔ گذشتہ ایک سال میں تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں بے
پناہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس سے لوگ پریشانی میں مبتلا ہیں۔
گذشتہ سال مئی میں ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 150 روپے اور ایک لیٹر ڈیزل 144
روپے پر دستیاب تھا۔ اگرچہ موجودہ حکومت کی جانب سے ایک مہینے میں پیٹرول
اور ڈیزل کی قیمت میں کمی کی گئی ہے تاہم ابھی بھی ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت
گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں سو روپے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں
مہنگائی 38 فیصد کی بلند شرح تک پہنچ گئی۔
ملک میں ڈیزل و پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل
کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیا جاتا ہے تو دوسری جانب پاکستانی روپے کی
قدر میں ڈالر کے مقابلے میں سو روپے سے زائد کمی ہوئی ہے۔
پاکستان ڈیزل و پیٹرول کی مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسی فیصد سے
زائد خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر انحصار کرتا ہے، جو کہ
امپورٹ بل کا بڑا حصہ بنتا ہے۔
گذشتہ سال کے آغاز میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں روس سے خام تیل کی
درآمد کا اعلان ہوا اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے روس سے سستے خام
تیل کی درآمد کے منصوبے کا اعلان کیا تاہم اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی
حکومت کے خاتمے کے بعد موجودہ اتحادی حکومت کے ابتدائی دنوں میں اس پر
خاموشی طاری رہی۔ تاہم 2022 کی آخری سہ ماہی میں اس پر دوبارہ سے کام شروع
ہوا۔
پاکستان نے چند ہفتے پہلے روس سے خام تیل کی درآمد کا پہلا آرڈر دیا اور
اب یہ خام تیل کچھ دنوں میں پاکستان پہنچنے والا ہے۔ مگر روسی تیل کی
درآمد سے کیا عام صارف کے لیے ڈیزل و پیٹرول کی قیمت بھی کم ہو گی؟
اس کے بارے میں ماہرین اور روسی خام تیل درآمد کرنے والی ریفائنری کے حکام
کے مطابق فوری طور پر ایسا ممکن نہیں کہ پاکستان میں صارفین کے لیے قیمتیں
کم ہو سکیں۔ تو اس کی وجہ کیا ہے؟
|
|
|
پاکستان روس سے کتنا خام
تیل درآمد کر رہا ہے؟
پاکستان نے اپریل کے مہینے کے آخر میں روس سے خام تیل کی درآمد کا آرڈر
دیا جو ابھی تک پہنچا نہیں ہے۔ روس کے خام تیل کی پہلی شپمنٹ ملک میں کام
کرنے والی پاکستان ریفائنری لمیٹڈ میں پہنچے گی جو اس خام تیل کو ریفائن
کرے گی۔
پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر زاہد میر نے بتایا کہ پہلا
کارگو ایک لاکھ ٹن خام تیل کا ہے جو سات لاکھ 35 ہزار بیرل بنتا ہے۔ زاہد
میر نے بتایا کہ اس وقت روسی تیل لے کر جہاز عمان پہنچ چکا ہے جو جلد
پاکستان پہنچ جائے گا۔ زاہد میر نے روسی خام تیل کی قیمت بتانے سے گریز
کرتے ہوئے کہا فی الحال وہ یہ نہیں بتا سکتے۔
واضح رہے پاکستان کے وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے بھی گذشتہ دنوں کراچی
میں اس نمائندے کے سوال کے جواب میں روسی خام تیل کی قیمت کو بتانے سے گریز
کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ روسی خام تیل کی کمرشل ڈیل پر فی الحال
کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔
|
|
روسی خام تیل سے کیا عام صارف کے لیے ڈیزل
و پیٹرول کی قیمت کم ہو پائے گی؟
زاہد میر کے مطابق پہلا کارگو پاکستان ریفائنری آئے گا جو سات لاکھ بیرل سے
کچھ زائد کا ہے مگر ملک میں روزانہ کی بنیاد پر خام تیل کی کھپت تین لاکھ
بیرل ہے۔
اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو فوری طور پر اس روسی تیل کی درآمد سے ایک
عام صارف کے لیے پیٹرول و ڈیزل کی قیمت کم نہیں ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ یہ پہلا کارگو ’ٹرائل کارگو‘ ہے۔ ’اس خام تیل کو ریفائن کر
کے پہلے یہ معلوم کیا جائے گا کہ اس سے پیٹرولیم مصنوعات یعنی ڈیزل، پیٹرول
اور فرنس آئل کی کتنی پیداوار ہو گی۔‘
زاہد میر نے کہا کہ پہلا کارگو فقط ایک ریفائنری کا ہے اور اس سے یہ اس بات
کی توقع کرنا کہ قیمت میں کمی ہو جائے گی صحیح نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں کمی اس وقت ہو گی جب
روس سے خام تیل کی درآمد مستقل بنیادوں پر طویل مدت کے لیے ہو گی اور ساری
ریفائنریوں میں یہ خام تیل آرہا ہو۔
پاکستان انسٹیٹوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں معاشی امور کی ماہر ڈاکٹر عافیہ
ملک نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان میں قیمتوں میں کمی اس وقت آسکتی ہے
جب ہم روس سے ڈیزل و پیٹرول کی درآمد شروع کریں گے۔
انھوں نے کہا اس وقت روسی تیل کا جو پہلا کارگو پاکستان کی جانب گامزن ہے
اس سے تو ویسے بھی فرنس آئل زیادہ بننا ہے اور ڈیزل اور پیٹرول کم بنے گا۔
زاہد میر نے بھی عافیہ ملک کی اس بات کی تصدیق کی کہ فرنس آئل کی مقدار اس
روسی تیل سے زیادہ نکلے گی۔ انھوں نے کہا کہ روس سے آنے والے خام تیل کو
مشرق وسطیٰ سے آنے والے خام تیل کے ساتھ ملا کے اس سے پیٹرولیم مصنوعات
تیار کی جائیں گی۔
پاکستان کے وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے بھی گذشتہ دنوں اس امکان کو
مسترد کیا کہ فوری طور پر روس سے تیل کی درآمد سے مقامی طور پر ڈیزل و
پیٹرول کی قیمتوں میں کوئی کمی واقع ہو گی۔
معاشی امور کے سینیئر صحافی خرم حسین نے اس سلسلے میں کہا کہ ابھی پہلے
کنسائمنٹ سے صارفین کے لیے پیٹرولیم قیمتیں کم نہیں ہونے والی ہیں۔ اگر یہ
سلسلہ جاری رہتا ہے اور مستقبل میں بہت بڑی مقدار میں اگر یہ خام تیل
درآمد کیا جا سکتا ہے تو پھر شاید یہ ممکن ہو پائے۔
جب خرم حسین سے پوچھا گیا کہ کیا یہ صرف موجودہ حکومت کی جانب سے تحریک
انصاف کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کی ایک کوشش ہے تو انھوں نے اس سے اختلاف
کیا اور کہا یہ موجودہ حکومت کے وزیر پیٹرولیم کی کوشش ہے تاہم اس کی قیمت
کے معلوم ہونے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ یہ کتنا معاشی طور پر فائدہ مند ہے۔
|
|
پاکستان کی ریفائنریاں روسی خام تیل کے
معاملے میں کتنی مؤثر ہیں؟
روس سے آنے والے خام تیل کے بارے میں ڈاکٹر عافیہ ملک نے کہا کہ پاکستانی
ریفائنریاں روس سے آنے والے خام تیل کو پراسس کرنے کی صلاحیت کی تو حامل
ہیں۔ تاہم ان کی معلومات کے مطابق روسی خام تیل سے زیادہ فرنس آئل بنے گا
کیونکہ اس تیل کی تکنیکی فزیبلیٹی کے مطابق اس سے فرنس آئل زیادہ اور ڈیزل
اور پیٹرول کم بنتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس خام تیل کو پیٹرولیم مصنوعات میں بدلنے کے لیے لاگت بھی
زیادہ آئے گی۔ اس کے مقابلے میں انڈیا میں کام کرنے والی ریفائنریاں اس سے
زیادہ ڈیزل پیدا کر کے اسے مقامی ضرورت کے علاوہ برآمد بھی کر رہی ہیں۔
زاہد میر نے اس سلسلے میں بتایا کہ آنے والے خام تیل سے فرنس آئل کی
زیادہ پیداوار کی بات ٹھیک ہے، اس کی وجہ پاکستانی ریفائنریوں کی ساخت اور
ان کی ٹیکنالوجی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ انڈیا بھی یہ خام تیل خرید رہا ہے تاہم اس کی ریفائنریاں
زیادہ جدید ٹیکنالوجی کی حامل ہیں اور وہاں کی ریفائنریاں ’ڈیپ کنورژن‘
ریفائنریاں ہیں جو خام تیل سے ڈیزل اور پیٹرول زیادہ نکالتی ہیں اور فرنس
آئل کم۔
انھوں نے کہا اس کے مقابلے میں پاکستان کی ریفائنریاں پُرانی ٹیکنالوجی کی
حامل ہیں، جو خام تیل سے فرنس آئل زیادہ پیدا کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں بھی ریفائنریوں کو اپ گریڈ کیا جائے تو وہ
اس سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ان کے مطابق ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کے
لیے پالیسی تیار ہو چکی ہے تاہم بدقسمتی سے اس کی منظوری ابھی تک نہیں ہو
سکی ہے۔
واضح رہے کہ روس کی جانب سے انڈیا کو اپریل کے مہینے میں روزانہ سولہ لاکھ
بیرل سے زائد کی سپلائی کی گئی اور روس سے خریدے گئے تیل کا انڈیا کی تیل
مصنوعات کی درآمدات میں حصہ چالیس فیصد تک ہے۔
|
|
خام تیل کا امپورٹ بل چار ارب ڈالر سے
زیادہ
پاکستان میں اس وقت پانچ ریفائنریاں پیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار کر کے
مارکیٹ میں سپلائی کر رہی ہیں۔ تاہم ان مقامی ریفائنریوں کی پیداوار ملک
میں پیٹرولیم مصنوعات کی مقامی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے
پاکستان پیٹرولیم مصنوعات بھی درآمد کرتا ہے۔
پاکستان میں تیل کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں اور ریفائنریوں کی
نمائندہ تنظیم آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ناظر
زیدی نے بتایا کہ پاکستان میں خام تیل کی سالانہ کھپت دس سے گیارہ ملیں ٹن
ہے، جس میں تین ملین ٹن خام تیل مقامی طور پر پیدا ہوتا ہے جبکہ باقی سعودی
عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت سے درآمد کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مشرق وسطی سے آنے والا خام تیل تین چار قسم کا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے اس سال چار ارب ڈالر سے زائد کا
خام تیل درآمد کیا۔ اس کے ساتھ پاکستان نے چھ ارب ڈالر سے زائد کی
پیٹرولیم مصنوعات درآمد کیں جن میں ڈیزل اور پیٹرول شامل ہیں۔
|
|
Partner Content: BBC Urdu |