ملک کی قومی ہم آہنگی اور بھائی چارے ختم کرنے کی سازش

 مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ دیویندر فڈنویس نے آو دیکھا نہ تاؤ مبینہ واقعے کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کا بھی اعلان کردیا،اور تب پورا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا جب بعد میں، یہ بات سامنے آئی کہ یہ مسلمان درحقیقت کئی صدی پرانی روایت پر عمل پیرا تھے، یہاں کے ایک صوفی بزرگ حضرت سید غلام شاہولی بابا کے عقیدت مند مندر کے باہر کھڑے ہو کر لوبان (لوبان) کا دھواں اڑاتے ہیں۔ جوکہ احترام اور تعظیم کی علامت ہے، تاہم وہ مندر میں داخل نہیں ہوتے ہیں،ذرائع ابلاغ اور فرقہ پرستوں نے ایسا ماحول بنایا کہ بڑے پیمانے پر کشیدگی پھیل سکتی تھی، واضح رہے کہ مہاراشٹرہی نہیں بلکہ ہندوستان میں ایسے بہت سے مزارات کی طویل فہرست ہے جو ہمارے معاشرے کی ہم آہنگی کی گواہی کے طور پر تمام عقائد کے عقیدت مندوں کے ذریعہ قابل احترام ہیں۔ ممبئ کے قریب کلیان کی ایک پہاڑی پرحاجی ملنگ بابا کی درگاہ کے مجاور یا خدام ہندو ہیں۔

خود ممبئی شہر کے ماہم میں 14اور15ویں صدی کے صوفی بزرگ قطب کوکن حضرت مخدوم علی شاہ ماہمی کا آستانہ بھی ایک منفرد اور ہم آہنگ روایت سے جڑا ہے۔ حضرت مخدوم کو ممبئی پولیس کے سرپرست کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو دسمبر اور جنوری میں درگاہ پر منعقد ہونے والے سالانہ عرس اور میلے کے دوران تقاریب کی قیادت کرتے ہیں۔میں بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ کرشن جنم اشٹمی اور گنیش اتسوکے موقعہ پر شرکاء درگاہ کے قریب واقع شاہراہ ہر پہنچ کر ڈھول تاشے بجاتے ہیں اور اشلوک پڑھ کر با با کو سلامی پیش کرتے ہیں۔سلامی کا سلسلہ کئی صدی سے جاری ہے اور کسی کواعتراض بھی نہیں ہے۔راقم نے چند سال قبل عرس کے موقع پر اس اینٹی چیمبرس کاعرس کے موقع پر دورہ کیا یے۔جہاں حضرت مخدوم بابا کاچلہ واقع ہے۔ماہم پولیس اسٹیشن میں سینئر انسپکٹر کے چیمبر میں ایک اینٹی چیمبر ہے۔ اس اینٹی چیمبر میں، بدلے میں، ایک سبز الماری ہے جس میں چاندی کے زیورات اور دیگر قیمتی سامان ہوتے ہیں جو دسمبر میں شروع ہونے والے عرس کے دوران قریب میں واقع درگاہ پر رسمی طور پر لے جایا جاتا ہے۔پولیس کے اعلیٰ افسران اور اہلکار کی طرف سے پہلا صندل اورچادر پیش کی جاتے ہیں۔

ب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدیوں پرانی روایت اور طریقے کیوں نشانے بنائے جارہے ہیں ،جس پر سبھی کو اتفاق ہے تو یہ سوچیں سمجھی حکمت عملی کانتیجہ ہے۔

ماہم ممبئی کا قرون وسطی کا دارالحکومت رہاہے۔ ممبئی شہر جو اس وقت جزیروں کا گڑھ تھا،گجرات کے مسلم حکمرانوں کے زیر اثر آیا، جس کے بعد اس پر پرتگالیوں اور پھر انگریزوں کا قبضہ رہا۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں، مخدوم علی ماہمی، ایک صوفی بزرگ، ممبئی کے لوگوں کی طرف سے قابل احترام تھے اور وہ ماہم میں مقیم تھے۔ ماہمی، جو ایک عالم اور کاتب قرآن بھی تھے اور ماہ رمضان میں ان کی کتابت والے قرآن کی ساتویں شب شب قدر پر نمائش کی جاتی ہے ، ان کاچلہ ماہم پولیس اسٹیشن کے احاطے میں واقع ہے جو 1923 میں بنایا گیا تھا۔

بلکہ ماہم پولیس ا سٹیشن کے سینئر انسپکٹر درگاہ پر چادر چڑھاتے ہیں۔ جلوس کے دوران ممبئی پولیس کا بینڈ بھی پرفارم کرتا ہے۔اس قسم کی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو قدموں تلے روندا جارہا ہے،
یہ حقیقت ہےکہ اقتدار کے لیے ملک میں موجودہ مودی حکومت نے جس انداز میں من مانی کی ہے،وہ اظہر من الشمس ہے ،لیکن حزب اختلاف بھی اُتنی ہی قصور وار ہے۔فی الحال کانگریس لیڈر راہل گاندھی امریکہ میں انسانی حقوق اور اقلیتی فرقے کو درپیش مسائل پر بھی باتیں کررہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کی نیت میں کھوٹ نہ ہو ،لیکن کانگریس میں ایک طبقہ پہلے سے سنگھ کی ذہنیت رکھتا ہے اور وہ سرگرم بھی ہے۔

راہل نے واشنگٹن میں نیشنل پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کی اور ہندوستان میں پولیس اور مذہبی آزادی، اقلیتوں کو درپیش مسائل اور معیشت کی حالت سمیت متعدد سوالات کے جواب دیئے۔ راہل گاندھی نے کہاہے کہ کانگریس اگر اقتدار میں آتی ہے تو ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنائے گی اور ہندوستان میں پہلے سے ہی ایک بہت مضبوط نظام موجود ہے،یہاں جمہوریت کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔ کانگریس پارٹی نے سب سے پہلے ان اداروں کا خاکہ تیار کیا تھا اور ہم انہیں اپنے اداروں کے طور پر نہیں بلکہ ریاست کے اداروں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ اداروں کی آزادی اور غیر جانبداری کو بحال کیا جائے گا، لیکن وہ نظام کمزور ہو چکا ہے۔ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں لیکن راہل جی کو مشورہ ہے کہ وہ کانگریس کی برسراقتدار ریاستوں میں مذکورہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں ،اس کی وجہ سے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ ملک کے تمام طبقات یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ عیسائی ہوں، دلت ہوں، قبائی ہوں یاغریب لوگ بھی پریشان ہیں اور چند لوگ ہی خوش نظر آ رہے ہیں۔ راہل گاندھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا گروپ ہے جس نے نظام پر قبضہ کر لیا ہے اور اسے میڈیا کی بھی حمایت حاصل ہے۔ ملک میں جو حال آج مسلمانوں کا ہے ، وہ سکھ برادری اور دلتوں کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ ہمیں اس کو چیلنج کرنے، اس کے خلاف جنگ لڑنےاور نفرت کے ساتھ نہیں بلکہ محبت کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہے،کیونکہ مسلمانوں کے خلاف جونفرت کی بیج بوئے گئے ہیں ،اس کا ناظرہ صاف نظر آرہا ہے۔ملک کی قومی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو ختم کرنے کی سازش کو ہمیں ناکام بنانا ہے۔


 

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 39964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.