كنزالایمان اور قادیانی تراجم كے مصادر كا تقابلی مطالعہ،( مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ كے تناظر میں) قادیانی تراجم و تفاسیرکے تعارف اورمحاکمے کی مختصر مگر جامع کوشش

كنزالایمان اور قادیانی تراجم كے مصادر كا تقابلی مطالعہ،( مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ كے تناظر میں)
قادیانی تراجم و تفاسیرکے تعارف اورمحاکمے کی مختصر مگر جامع کوشش

كنزالایمان اور قادیانی تراجم كے مصادر كا تقابلی مطالعہ،( مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ كے تناظر میں)

كنزالایمان اور قادیانی تراجم كے مصادر كا تقابلی مطالعہ،( مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ كے تناظر میں)
قادیانی تراجم و تفاسیرکے تعارف اورمحاکمے کی مختصر مگر جامع کوشش
محمداحمد ترازی
برصغیر پاک و ہند ایک کثیر المذاہب خطہ ہے۔مذہبی تکثیریت کا نمائندہ یہ خطہ بہت وقیع علمی و مذہبی ادب کا حامل ہے جس کے تذکرہ کے بغیر عالمی ادب کی تاریخ اُدھوری رہ جاتی ہے ۔اِس حوالے سے اِن مذاہب کا مقدس مذہبی ادب خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہے جن کے سوتے برصغیرسے پھوٹے تھے۔ اِس میں ہندو مت ، بدھ مت ، جین مت اور سکھ مت شامل ہیں ۔اِن کے علاوہ اسلام یہاں اپنی غرابت وطنی کے باوجود بہت متنوع اور وسیع اسلامی علمی تراث رکھتا ہے ۔اِس کی ایک مثال برصغیر کا تفسیری ادب ہے۔دیار عرب کے بعد تراجم و تفاسیر قرآنی کا سب سے زیادہ کام برصغیر پاک و ہند میں کیا گیا ہے۔جبکہ علاقائی زبانوں میں قرآنیات کا سرمایہ اِس سے سوا ہے۔
اس ضمن میں ایک قابل ذکر بات یہاں کے غیر مسلم اہل قلم کے تراجم و تفاسیر قرآنی ہیں ۔اِن غیر مسلم اقلیتوں کو دو گروہوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا گروہ وہ اقلیتیں ہیں جن کا قرآنیات پر کام زیادہ معروف نہیں۔ اِن میں یہودی ، پارسی ، بدھ مت، سکھ مت ، جین مت اور وادی کافرستان سے تعلق رکھنے والے کیلاش شامل ہیں۔قرآنیات پر قلم اٹھانے والے دوسرے گروہ میں مسیحی ، ہندو اور قادیانی شامل ہیں ۔اِن میں سے مسیحی اور ہندو قرآن کو غیر الہامی تصور کرتے ہیں اور اُن کا تفسیری اسلوب جارحانہ انداز میں نقد و تنقیص پر مبنی ہے۔اِس گروہ کے تیسرے فریق قادیانیوں کی تفاسیرمیں قرآن کو الہامی تسلیم کرتے ہوئے مسلم علم الکلام کی روشنی میں اپنےمخصوص مذہبی عقائد و نظریات کی تاویل پرارتکاز ہے ۔
برصغیر میں مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمہ و تفیسر کا کام برابر جاری رہا۔انگریزی زبان میں بھی بہت سے تراجم ہوئے۔یہ کام 17 صدی عیسوی سے شروع ہوا اورجاری ہے۔ انگریزی ترجمہ کی یہ کوششیں یہودی اور عیسائی مستشرقین نے بھی کیں اور قادیانیوں نے بھی۔مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر نے بھی اِس کام میں اپنا حصہ ڈالا۔اِن تراجم کا اگر جائزہ کیا جائے ،مترجمین کا تعارف کرایا جائے اور اُن کے ذہنی رجحان اور جھکاؤ کو پرکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِن تراجم میں منحرفین نے ایسے افکار ونظریات شامل کردئیے جو کلام ربانی کا ہرگز منشاء و مقصد نہیں۔چنانچہ ایسے عقائد وافکار جس کی وجہ سے عام قاری غلط فہمی کا شکار ہوجائے،کا پردہ فاش کرکےکفر و گمراہی سے بچانا بہت ضروری ہے۔
یہاں یہ تاریخی حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ مرزا کی نبوت کے حوالے سے (مرزائی اور لاہوری )دونوں گروہوں میں کچھ اختلاف ہے۔لیکن مرزا کے مجدد ہونے پر اِن دونوں کے درمیان کامل اتفاق پایا جاتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لڑائی صرف اور صرف اقتدار کی لڑائی تھی۔ عقائد کا اختلاف نہ تھا۔ اِس لئے کہ لاہوری گروپ مرزا قادیانی اورحکیم نورالدین بھیروی کے زمانہ تک عقائد میں نہ صرف قادیانی گروپ کا ہمنوا تھا۔ بلکہ اب بھی یہ لاہوری گروپ مرزا قادیانی کو اُس کے تمام دعاوی میں سچا اورمرزا کے تمام کفریہ دعاوی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا اور مرزا کے عقائد کی ترویج اور توسیع اوراُس کی کتب کی اشاعت کرتا ہے ۔جب کہ مرزائیوں نے لاہوریوں کے متعلق یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ اقتدار نہ ملنے کے باعث علیحدہ ہوئے تو لاہوریوں نے اپنے دفاع کے لئے اقتدار کی لڑائی کو عقائد کے اختلاف کا چولا پہنادیا۔بہرحال لاہوری ہوں یا قادیانی دونوں ایک ہی تھلے کے چٹے بٹے ہیں۔
پھر یہ اَمر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مرزا کے تمام متبعین خواہ مرزابشیرالدین ہوں یا محمد علی لاہوری، 1929ء تک مرزا کو ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ کہتے اور مانتے رہے۔مولوی محمد علی لاہوری عرصۂ دراز تک مشہور قادیانی رسالے ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے ایڈیٹر رہے اور اِس عرصہ میں اُنہوں نے بے شمار مضامین میں نہ صرف مرزاصاحب کے لیے ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ کا لفظ استعمال کیا، بلکہ اُس کے لیے نبوت ورسالت کے تمام لوازم کے قائل بھی رہے۔
اپنے قادیانی ہم مذہبوں کی طرح لاہوری بھی متن قرآن مجید میں کسی نسخ کے قائل نہیں ہیں۔لاہوری تراجم و تفاسیر قرآن کے ضمن میں مولوی محمد علی لاہوری،ڈاکٹر خادم رحمانی نوری،خواجہ کمال الدین،ناصرالدین ابن آفتاب الدین احمد،خان صاحب چوہدری محمد منظور الٰہی،ڈاکٹر بشارت احمدوغیرہ کاکام اس بات کا گواہ ہے ۔جس کا حاصل یہ ہے کہ لاہوری جماعت کے مترجمین قرآن نے راسخ العقیدہ مسلمانوں سے ترجمہ و تفسیر میں انحرافی راستہ اختیار کیا اور ماہرین علوم القرآن کے بتائے ہوئے اُصول تفسیر کو نظر انداز کرکے اپنے مخصوص احمدی عقائد کو ثابت کرنے کے لیے من مانی تاویلات کا سہارا لیاہے۔جس کی وجہ سے احمد یوں کی جانب سے کیے جانے والے تراجم اور تفاسیر پر صرف راسخ العقیدہ مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ مغربی ناقدین نے بھی تنقید کی ہے۔
اُنیسویں صدی کے آخر میں جب مسلمانان برصغیر اپنی فکری اور ثقافتی بقاء کی جنگ میں مصروف تھے، تومرزا غلام احمد قادیانی نامی ایک شخص نے "نبوت" کے میدان میں قدم رکھنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں، جس کی بنیادی وجہ مسلمانوں میں مذہبی خلفشار پیدا کرنا مقصو د تھا۔ ظاہر بات ہے جب اُس پر "وحی" کاسلسلہ بھی جاری ہوگیا تو اس کے لیے ضروری تھا کہ پہلے مسلمانوں کے عقائدپرغیر محسوس طریقے سے حملہ کیا جائے اور اُن پر اثرا نداز ہونے کے لیے مختلف طریقے وضع کیے جائیں، اس کے لیے فکری لٹریچر کی تیاری بہت ضروری تھی، چنانچہ قرآن مجید کے انگریز ی و دیگر زبانوں میں ترجمے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا تاکہ اس نام نہاد "دعوت" کو دور دور تک پہنچایا جائے۔ قادیانی مذہب نےاپنی تعلیمات کو قرآن مجید سے جوڑتے ہوئے ترجمے اور تفسیرمیں تحریف کی۔
"كنزالایمان اور قادیانی تراجم كے مصادر كا تقابلی مطالعہ" قرآن مجید کی آیت "اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ"(آل عمران:۵۵) کے ضمن میں" مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ" كے تناظر میں قادیانی تراجم و تفاسیرکے ایک ایسے ہی تعارف اورمحاکمے کی مختصر مگر بہت عمدہ اور جامع کوشش ہے۔جس کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان صاحب(مؤسس و مدیر،ششماہی "شاہد" انٹرنیشنل) ہیں۔ پروفیسر صاحب کا یہ جامع مقالہ اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد معلومات اور اہم خصوصیات کا حامل ہے۔ جس میں قادیانیوں اور لاہوری گروپ کے تراجم کی تحریفات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ بانی جماعت احمدیہ نے اپنے باطل عقائد و نظریات کو پھیلانے کے لیےترجمہ قرآن و تفسیر قر آن میں تحریف کا بھی سہارا لیا اور ااُس نے سلف ِ صالحین سے ہٹ کر ایک نیا ترجمہ و تفسیری منہج پیش کیا۔وہ خود لکھتا ہےکہ:"تفسیر بالقرآن، تفسیر القرآن بالحدیث، تفسیر القرآن باقوال الصحابہ، خود اپنا نفس مطہر لے کر قرآن میں غور کرنا، لغت ِعربیہ، روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لیے سلسلۂ جسمانی ہے، کیوں کہ خدا تعالیٰ کے دونوں سلسلوں میں بکلّی تطابق ہے اور وحی ولایت اور مکاشفات محدثین ہیں اور یہ معیار گویا تمام معیاروں پر حاوی ہے۔ کیوں کہ صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہم رنگ ہوتا ہے اور بغیر نبوت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتیں ہیں اور اس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اس پر اس قدر، بلکہ اس پر وہ سب امور بطور انعام و اکرام کے وارد ہو تے ہیں۔ سو اس کا بیان محض اٹکلی نہیں ہوتا، بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے اور سن کر بولتا ہے اور یہ راہ اس امت کے لیے کھلی "۔(قادیانی غلام احمد، مرزا، برکات الدعاء (نظارت اشاعت، ربوہ) ص ۱۶۔۱۸)
چنانچہ اِن اُصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خود مرزا اور اُس کی جماعت احمدیہ کے مفسرین نے قرآن کو سلفِ صالحین سے ہٹ کر ایک نئے انداز میں پیش کیااوراُن کی جانب سے ترجمہ وتفسیر قرآن پر جو کام ہوا ہےاُس میں اِن اصولوں کو اوّلیت حاصل رہی۔پھر یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ احمدی مترجمین اور مفسرین قرآن کریم میں کسی نسخ کے قائل نہیں ہیں۔زیادہ تر احمدی مفسرین تسمیہ کو (سورہ التوبہ کے علاوہ) تمام سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر لیتے ہیں۔تمام احمدی مترجمین نے قرآن کریم کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں اِس طرح ترجمہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے مخصوص عقائد کو اُس کے متن سے ثابت کر سکیں۔اگر وہ ترجمے میں ایسا نہ کرسکے تو وہ اپنی نیت کا اظہار حواشی میں کر گئے۔ اُنہوں نے صحیفہ اسلامی کے لغوی معانی سے انحراف کیا۔خاص طور سے عیسیٰ علیہ السلام یا ختم نبوت سے متعلق آیات کے ترجمے اور تفسیر میں اُن کا انحراف واضح ونمایاں ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان صاحب کے زیر نظر مقالے کی نمایاں خصوصیت ہی ہے کہ اِس میں " مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ"کے ضمن میں مرزا قادیانی،مرزا بشیر الدین محمود ابن قادیانی،پیر صلاح الدین،مولوی شیر علی،ملک غلام فرید،ظفراللہ خان اور حکیم نور الدین بھیروی کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے جو غلط ترجمہ کرکے اپنے مخصوص عقائد کی توجیہہ و تشریح پیش کرتے ہیں اور سلف صالحین وراسخ العقیدہ مسلمانوں کے عقائد سے انحراف کرتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان صاحب دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ "تمام قادیانی مترجمین نے"رافعك" كا ترجمہ"تجھے اپنی جناب میں عزت بخشوں گا"كیا ہے ۔اِس كے برعكس مفكر اسلام مولانا شاہ احمد رضا محدث بریلوی اور جمہور نے اِس كا ترجمہ آسمان كی طرف جسم وروح كے ساتھ زندہ اُٹھانے سے كیا ہے۔ اگر"رفع الی السماء" مان لیاجائے تو وفات حضرت عیسیٰ پر اپنے"موعود مسیح" ہونےکی جو خودساختہ بنیاد ركھی ہے وہ خود بہ خود زمین بوس ہوجائے گی ۔ ہوائے نفسی كا اسیر ہوكر دنیا ئے قادیان نے جمہور سے ہٹ كر ترجمہ"تجھے اپنی جناب میں عزت بخشوں گا"كیا ہے جو قول راجح كے خلاف ہے ، اگر كسی انفرادی مفسر كا كوئی تائیدی ترجمہ مل بھی جائے تو مرزا كو جائے پناہ نہیں مل سكتی كیوں كہ النادر كا لمعدوم،الشاذكا لمعدوماورالقلیل كا لمعدوم۔یعنی قول راجح كے مقابلے میں قول مرجوع كی كوئی حیثیت ہی نہیں ۔ كہ اس پر مسیح موعود جیسا عقیدہ گھڑ كر اُمت كو گمراہ كرنے كی ناكام كوشش كی جائے۔
آپ لکھتے ہیں: مرزا قادیانی نے پہلے مصلح پھر مجدد ،اُس كے بعد مہدی و مسیح موعود اور آخر میں نبی ہونے كا دعویٰ كیا۔ خود ساختہ مسیح موعود پر فائز ہونے لیے اُس نے مسلمانوں كے مسلمہ عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام كا انكار كیا اور وفات عیسیٰ علیہ السلام كی من مانی تعبیر كی۔اِس كے برعكس حضرت موسیٰ علیہ السلام كے دائمی حیات كا تصور پیش كیا اُس كے یہ دونوں عقیدےقرآن و حدیث،صحابہ،تابعین،سلف صالحین اور جمہور مفسرین كے خلاف ہیں۔ اُس نے خود كو مسیح موعود ثابت كرنے كے لیے قرآن میں معنوی تحریف كی ،حدیث كا انكار كیا ، جمہور صحابہ سے انحراف كیا ۔خوساختہ نحو كا قاعدہ وضع كیا ،قرآن كے اسلوب تقدیم و تاخیر كا منكر ہوا۔جمہور كے مقابلے قول شاذ اور راجح كے مقابلے مرجوع كو ترجیح دے ڈالی۔ توفی كے حقیقی معنی كی بجائے بغیر قرینہ كے مجازی معنی مراد لیے ۔ حضرت ابن عباس كےقول تقدیم و تاخیر سے صرف نظر كیا۔ معجزات حضرت مسیح علیہ السلام كا انكار كیا گیا اور خود ساختہ الہام جیسے مصادر و مراجع كی بنیا دپر"و إِذْ قَالَ ٱللَّهُ يٰعِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ "(آل عمران:۵۵) كا مخدوش و مرجوع ترجمہ كركے خود بھی گمراہ ہوا اور دوسروں كو بھی گمراہ كرنے كی ناپاك كوشش كی۔
یہ بات بھی اہم اورتوجہ طلب ہے کہ دور حاضر کے باطل فرقوں میں قرآنیات پر زیادہ کام قادیانی جماعت نے کیا ہے۔جس کا مقصد اپنے باطل عقائد و نظریات کو قرآن مجید سے ثابت کر کے کم زورایمان والوں کو گم راہ کرنا ہے۔چنانچہ اہل علم کو چاہیے کہ جہاں فتنۂ قادیانیت کے خلاف وہ علمی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہیں اِس جماعت کی طرف سے قرآنیات پر جس انداز میں کام ہو ا ہے یا ہو رہا ہے، اُس کا بھی تنقیدی جائزہ لیں، تاکہ کم زور ایمان والوں کو اس فتنے سے محفوظ رکھا جا سکے۔
اِس تناظر میں پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان صاحب کے مقالے"كنزالایمان اور قادیانی تراجم كے مصادر كا تقابلی مطالعہ،( مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ كے تناظر میں)"کی اہمیت وانفرادیت اور بھی نکھر کر سامنے آتی ہے۔ جس میں مرزا قادیانی اور اُس کے حواریوں نےجو قرآنی آیات کی تحریف اور غلط تفاسیر کیں ہیں اُن کودلائل و براہین کے ساتھ عیاں کیا ہے ۔ مزید برآں اس مقالے میں مرزا غلام احمد قادیانی، مرزا بشیر الدین محمود ابن قادیانی،پیر صلاح الدین،مولوی شیر علی،ملک غلام فرید،ظفراللہ خان اور حکیم نور الدین بھیروی اور دیگر قادیانی تراجم کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ تا کہ سادہ لوح مسلمان قادیانی دھوکہ اور گمراہی سے بچ سکیں ۔ صاحب مقالہ پروفیسر ڈاکٹر دلاور خان صاحب اور ناشر"رشد الایمان فاؤنڈیشن، سمندری پاکستان "ستائش و مبارکباد کے مستحق ہیں۔اللہ کریم آپ دونوں کی اِس کوشش و کاوش کو حضور ختمی مرتبت ﷺکے صدقے اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرماکر توشہ آخرت بنائے ۔آمین

M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 361752 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More