پاکستان دنیا کے اُن 6 ممالک میں شامل ہے جن پر
ماحولیاتی تبدیلی سب سے زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے۔ جس موسم میں بارشوں کی
ضرورت ہوتی ہے تب بارش نہیں ہوتی اور جس موسم میں ضرورت نہیں ہوتی ہے اس
میں بارشیں ہوتی ہیں یوں ماحولیاتی تبدیلی کا اثر واضح نظر آنے لگا ہے۔ اس
کی وجوہات کیا ہیں؟ ان میں ایک سب سے بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی میں تیزی سے
اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کی رفتار دنیا کے بیشتر ممالک
سے زیادہ ہے۔ یہاں چونکہ موسم اب زیادہ تر خُشک رہنے لگا ہے اور آبی ذخائر
میں بھی کمی واقع ہورہی ہے، یوں اب جنگلات وقت کی اہم ترین ضرورت بنتے
جارہے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شجر کاری سے انسان اور حیوان، دونوں کے فائدے
کے لیے ایک ایکوسسٹم جنم لیتا ہے۔ شجر کاری سے کاربن فوٹ پرنٹ میں بھی کمی
واقع ہوتی ہے، روزگار کے مواقع بھی جنم لیتے ہیں اور وائلڈ لائف بھی مستفید
ہوتی ہے۔ لیکن شجر کاری کا مکمل فائدہ تب تک نہیں اٹھایا جا سکتا جب تک
موجودہ ڈی فاریسٹیشن کے ریٹ میں کمی نہیں لائی جاتی۔ ایک پودے کو تنآور
درخت بننے میں بہت عرصہ لگتا ہے اور اس ضمن میں اُس کا کافی خیال رکھنا
پڑتا ہے تاہم موجودہ جنگلات کی کٹائی سے وہ درخت جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کا
تدارک کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں، فوراً سے صاف کردیئے جاتے ہیں۔
اس کا ایک اہم سبب پاکستان میں آبادی کا تیزی سے بڑھنا ہے جس کے لیے رہائش
و خوراک کا بندوبست کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان دنیا کی
پانچویں بڑی آبادی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایندھن، گندم اور کاٹن کی
پیداوار کے لیے یہاں درختوں کی بےتحاشا کٹائی کی جاتی ہے۔ آنے والے وقتوں
میں ماحولیاتی تبدیلی کی حفاظت کرنا اور اس ضمن میں ایسے چیلنجوں سے نمٹنا
کلیدی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس سلسلے میں بھرپور تشہیری اور آگہی مہم چلانا
ہوگی اور قومی نصاب کے ذریعے بچوں کے اذہان میں یہ بات بٹھانا ہوگی کہ اگر
اس ارضِ پاک پر صحت سے بھرپور زندگی یقینی بنانی ہے تو ماحولیاتی تحفظ کو
یقینی بنانے کے لیے شجر کاری جیسے اقدامات کرنے ضروری ہونگے۔ یہ بات سمجھنا
ہوگی کہ جنگلات سے آکسیجن پیدا ہوتی ہے جو کہ زمین پر زندگی کے پنپنے کے
لیے انتہائی ضروری ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک درخت سے یومیہ تقریباً
10 لوگوں کے آکسیجن کا بندوبست ہوتا ہے۔ اس امر سے بھی خود کو روشناس کرانا
ہوگا کہ درختوں سے زمینی درجہ حرارت کی کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ کاربن ڈائی
آکسائیڈ کی کمی کا باعث بنتے ہیں تاہم کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ایک مخصوص حد
تک لیول برقرار رکھنا بھی ضروری ہے چونکہ اس سے پودوں کے اندر خوراک بننے
کا ایک پراسس بھی ہوتا ہے۔ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ایک خاص حد تک زمین کے
درجہ حرارت کو بھی گرم رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے تاہم جنگلات انسانوں
حیوانوں اور نباتات کو ہر طرح کی تباہی و بربادی سے بچانے کا اہم ذریعہ بھی
ہیں اور آکسیجن کی فراوانی انہیں سے ممکن ہوتی ہے۔ اس بات کا ادراک کرنا
ہوگا کہ درختوں سے آب و ہوا کی صفائی ممکن ہوتی ہے۔ ان سے زمین پر سائے کا
بندوبست ہوتا ہے، درجہ حرارت ایک بیلنس کے تحت رہتا ہے اور یوں موسم کو
کنٹرول میں رکھنے کے مصنوعی اور ماحول دشمن طریقوں کا سہارا لینے کی ضرورت
نہیں پڑتی۔ یہ بات بھی ذہن میں بٹھانی ہوگی کہ درختوں کے جڑوں سے بارش کا
پانی جذب ہونے میں مدد ملتی ہے جس سے اربن فلڈنگ یعنی سیلابی صورتحال سے
بچاؤ میں مدد ملتی ہے۔ یہ بھی کہ درختوں سے بہت سی دوائیوں کا جنم ہوتا ہے
اور درخت زمینی خوبصورتی کے لیے اہم ہیں، ہمیں آج ہی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ
ہم جنگلات کی کٹائی سے مکمل انکار کریں اور شجرکاری کی بھرپور ترویج کریں |