جب تک ہم اپنے حکمرانوں کی
پالیسی واضح نہیں کریں گے تب تک ہم دہشت گردی کے اسباب سمجھنے سے قاصر رہیں
گے۔ اس لیے ہم سب سے پہلے اپنے دلچسپ حکمرانوں کے حوالے سے بات کرنا چاہیں
گے ،تاکہ ہم ،پاکستانی عوام،امریکہ کی من مانی اور کامیاب دہشت گردی کے
محرکات کو بہ آسانی سمجھ سکیں۔دہشت گردی کی شروعات روس کے خلاف پاکستان اور
امریکہ کے مابین بنائی جانے والی عوامی فورس یا (سول قربانی کے بکروں) کی
شاندار کامیابی کے بعد ان کا رُخ درست سمت پر گامزن نہیں کرنے کی وجہ سے یا
ان سے اتنی بڑی قربانی لینے کے بعد انہیں نظر انداز کرنا اس کے علاوہ دیگر
کئی عوامل کارفرما ہیں اور موجودہ دہشت گردی ماضی کی اُس پالیسی کا منہ
بولتا ثبوت ہے۔چونکہ ان محرکات سے اب ہر خاص و عام واقف ہے دہشت گردی کی
شروعات کی اصل وجہ ہی یہی ہے ۔ممکن ہے بہت سے اذہان راقم کی اس رائے سے
اتفاق نہیں کریں گے مگر ہم اظہار کئے بناء رہ بھی تو نہیں سکتے ہیں۔میرے
خیال میں پاکستان میں دہشت گردی کی ابتداءاُس وقت سے شروع ہوئی ہے جب
امریکن خیرات کی پہلی قسط جب پاکستان کو،ملی اُس وقت سے ہی ہوئی ہے ۔وہ اس
طرح کی امریکن تھنک ٹینک بہت دور کی سوچ بچار کے بعد تب کہیںجاکرکسی کے منہ
میں نوالہ ڈالتا ہے۔جب پاکستان بننے کی تحریک چل رہی تھی اُس وقت بھی
امریکہ و یورپ کو روس کھٹک رہا تھا۔اُس وقت کی گریٹ گیم میں پاکستان کی
آزادی اور گلگت بلتستان کی آزادی کے ساتھ کشمیر کو بھی الجھا کے رکھنا شامل
ہے۔ملک عزیز اسلامی جمہوریہ کے نام سے جب معرض وجود میں آنے کے بعد نو
زائیدہ پاکستان ابھی ابھی گھٹنو بل چل ہی رہا تھا کہ بانی پاکستان قائد
اعظم محمد علی جناح کوچ کر گئے ۔اس کے فوراً بعد ہی ملک کا نظام جاگیر
داروں، وڈیروں،سرمایہ داروں اور بیوروکریسی کے ہاتھوں میں چلا گیا۔اور عنان
اقتدار اس بالادست طبقہ کے گرد گھومتا رہا جو اب تک چکر کاٹ رہا ہے۔ملک
عزیز میں دو طبقے شروع سے ہی چلے آرہے ہیں ایک (برہمن) دوسرا (اچھوت) برہمن
بالادست سرمایہ دار ہوا اور اچھوت زیر دست غریب طبقہ۔آج تک ہمارے ملکی نظام
میں عام آدمی کوزندگی کی ضروریات نہ میئسر ہوئیں اور نہ حکمرانوں نے ایسی
کوئی جامعہ حکمت عملی بنائی ہے۔1951 میں روس اور امریکہ دونوں کا ایک ساتھ
دعوت نامے پاکستان کو موصول ہوئے تو پڑوسی کو چھوڑ کر امریکہ یاترا کرنے کو
ترجیح دیا حالانکہ امریکہ پاکستان سے ہزاروں میل دور کا فاصلہ پرہے۔اور
ہمارے حکمرانوں کو خیرات ملتی رہی اور حکمرانوں نے اُس خیرات کی رقم سے ملک
میں کوئی تعمیری منصوبہ بندی کی نہ اس خیرات سے غریب عوام کو براہ راست
کوئی فائدہ حاصل ہوا۔بہت جلدہی یہ خیرات پاکستان کو (مشروط) طور پر ملنے
لگی۔ روس کے ساتھ ایوب دور میں کچھ تعلقات استوار ہوئے تھے تو روس نے
پاکستان کو اسٹیل مل بنا کر دیا مگر امریکہ نے پاکستان میں کونسی فکٹری یا
مل یا کوئی اور ٹیکنیکل ادارہ بنایا سوائے قرضے کا نشئی بنانے کے ۔ بس
امداد یا قرض لینا اور امریکہ کا حکم ماننا ہمارا وطیرہ بن گیا اور یہ ریت
کچھ اس طرح عام ہوئی کہ جیسے پاکستان کے دستور میں شامل ہوا ہو۔اسی طرح ملک
کا پانچ فیصد بالادست طبقہ نے 95فیصد غریب طبقہ کے ساتھ ہاریوں جیسا سلوک
شروع کیا۔حالانکہ امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک نے بھی غیر مشروط طور پر
پاکستان کی بڑی مدد کی ۔جس میں تعلیم، صحت،اور غربت کے خاتمے کے لیے بیشتر
ممالک شروع سے ہی پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔مگر ہمارے حکمرانوں نے اس
امدادی رقم سے عوام کی میعار زندگی بلند کرنے کے بجائے بیرون ممالک میں
رقوم جمع کروانا اور جائیدادیں بنانے میں لگے رہے۔حکمرانوں کی اس رویے کی
وجہ سے عوام اور حکومت میں اعتماد کا فقدان پیدا ہوا۔غرض آج جو کچھ ہم بھگت
رہے ہیں وہ ہمارے حکمرانوں کی کارستانیاں ہیں۔عوام کا اس میں کوئی قصور
نہیں۔ظاہر ہے جب غربت میں اضافہ ہوگااور غریب عوام کے لیے روٹی،کپڑا اور
مکان کا مسلئہ در پیش ہوگا تو کوئی چور بنے گا،کوئی نشئی بنے گا ،کوئی ڈاکو
بنے گا تو کوئی دہشت گرد بنے گا۔حالانکہ پاکستان کی ریڑھ کی ہدی حقیقت میں
غریب عوام ہیں مگر ہمارے حکمرانوں نے یوں سمجھا ہوا ہے جیسے پاکستان ان ہی
کے لیے بنا ہو ا ہے کہ وہ جو چاہئے سلوک کریں۔جب تک اس ملک میں نظام کی
تبدیلی کے لیے جدوجہد نہ ہو ہمارا ہر آنے والا دن بد سے بدترین ہوگا۔ملک
عزیز میں اب تک حکمران تبدیل ہوتے گئے مگر نظام وہی کا وہی رہا اب حکمرانوں
کی تبدیلی سے کچھ بھی ہونے ولا نہیں ہے پاکستان کو مظبوط اور خوش حال بنانے
کے لیے موجودہ نظام کا تبدیل ہونا ضروری ہے۔چونکہ اس ملک میں رشوت،چور
بازاری، کرپشن، ناانصافی،یہ سارے امراض بالادست طبقے کی پھیلائی ہوئی
ہیں۔اب تو صاف نظر آتا ہے کہ ہمارا کوئی بھی ادارہ ہمارا کوئی بھی فرد ملک
کے لیے صحیح ڈٰیوٹی انجام نہیں دے رہا ہے ہم پیچھے ہی اس لیے ہیں کہ ہم
اپنی ڈیوٹی باقائدگی سے نہیں دے رہے ہیں اگر کوئی دے رہا ہے تو اپنی ذاتی
مفادات کی خاطر یا کوئی لاکھوں میں ایک مخلص ہے تو وہ مفلس اور نالائق ترین
کہلاتا ہے ہمارا نظام کچھ اس طرح کا پنپا ہے کہ سیدھے کام کرنے والا احمق
اور کرپٹ آدمی عقل مند اور باعزت کہلاتا ہے۔اس ملک میں جب تک نچلے طبقے سے
کوئی ایوان تک نہیں پہنچے گا جو بھوک،غربت، اور مسائل سے گزرا ہو وہی عوام
کا دکھ درد جان سکتا ہے۔
عوام۔ اب حکمرانوں کی حرکات و سکنات عوام کے اندر بھی سرایت کرچکی ہے ۔کسی
بھی مسئلے کے حل کے لیے جلاﺅ گھیراﺅ کو لازمی سمجھا ہوا ہے اور عوام کے
درمیان بھی وہ ساری برائیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جو حکمرانوں میں ہوتی
ہیں۔اب اس ملک میں عام آدمی بھی اپنی ڈیوٹی پوری نہیں دیتا ہے ۔سرکاری مال
کو ہضم کرنا شیر مادر کی طرح سمجھتے ہیں۔
دہشت گردی۔ اب دہشت گردی میں بھی ہم لوگ بین بین شامل ہیں وہ اس طرح کہ اگر
کوئی دہشت گرد کہیں کاروائی کررہا ہے تو وہ اسے ضرور کہیں نہ کہیں پناہ مل
جاتی ہے جیسا پہلے ڈاکوﺅں کے پتھیدار ہوا کرتے ہیں اب دہشتگردوں کے بھی
پتھیدار موجود ہیں بغیر نرم گوشہ کے بغیر اندر کی مدد کے کوئی دہشت گرد
اپنے مکرو عزائم میں کامیاب نہیں سکتا ہے۔اب اُسامہ جو دہشت گردی کا بے تاج
بادشاہ تھا اُس کی موت کے بعد بھی فاتحہ خوانی اور افسوس کرنا اُس کے مارے
جانے پر عوام کی ایک بڑی تعداد کا غم و غصے کا اظہار کرنا یہ کچھ کر کے ہم
دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ جب کہ القائدہ اور طالبان، تحریک طالبان
و دیگر دہشت گرد تنظیموں کے سرغنوں کا پاکستان میں پکڑے جاناچہ معنی
دارد۔اس کے علاوہ غیر ملکی دہشت گرد بھی پاکستان میں ہی پکڑے جاچکے ہیں اور
زیادہ تر ہمارے پاکستانی دہشت گرد اور پاکستانی مسلمان ہی ہیں نہ معلوم یہ
کونسا اسلام پھیلانا چاہتے ہیں جبکہ حضور پر نورﷺ کی اسلام میں تو ان
حرکتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔دہشت گردی کے حوالے سے بعض دانشوروں کا کہنا
ہے کہ ضیاءدور کے باقیات سرکاری اداروں میں اب تک موجود ہیں جو کسی بھی
طریقے سے طالبان کی حمایت کرنا اپنا دینی فرض سمجھتے ہیں۔اس سے بڑھکر اور
کیا ثبوت ہوگا کہ ملک میں دہشت گردی کی پشت پناہی بڑی تیزی سے کی جارہی
کراچی این اے ڈی یونیورسٹی جیسے ادارے میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک موجود
ہونا ایک سوالیہ نشان بنا ہے۔ کبھی ایف سی کے اہلکار ملوث ہوتے ہیں تو کبھی
یونیورسٹی کے طلباءتو کبھی کسی اور ادارے میں۔ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہمارے
اندر ہمارے اپنے پاکستانی ہمارے اپنے مسلمان خود دہشت گردی میں ملوث ہیں جس
میں پنجابی طالبان، پختوں طالبان اس کے علاوہ ملک میں اچھی خاصی تعداد ان
کی حمایت اور مدد بھی کررہی ہوگی۔بغیر کسی کی مدد کے کہیں پر بھی دہشت گردی
میں کامیابی نہیں ہوسکتی ہے۔ایک طرف ہم یہ کہہ رہے ہیں یہ ہماری جنگ نہیں
ہے جبکہ ہمارے ہی عوام گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں یا تو یہ کہا جائے کہ
جو دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں وہ بھی ہمارے نہیں پھر تو بات درست ہوگی۔جب
تک ہم جوتے اُتار کر زمین پر نہیں بیٹھیں گے کہ یہ سب ہمارا اپنا ہی کیا
دھرا ہے تب تک ہم نہ دہشت گردی کو روک پائیں گے اور نہ کسی کے دھمکیوں کا
جواب دینے کے اہل ہونگے۔مسلمانوں کے ہر مکتب فکر کے عبادت خانوں کو دہشت
گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اولیاءکرام کے مزارات کو بھی نہیں بخشا
گیا۔سرکاری حساس اداروں سے لے کر سیاسی شخصیات کو بھی اُڑادیا گیا۔ایک
اندازے کے مطابق ملک میں34ہزار کے قریب عوام مارے جاچکے ہیں پھر یہ کہنا کہ
یہ جنگ ہماری نہیں ہے تو پھر کس کی ہے؟یہ جنگ جس طرح بھی ہم پر مسلط کیوں
نہ ہوئی ہو اب اس کا خاتمہ ضروری ہوگیا ہے۔اگر یہ ناممکن ہے توپھر طالبان
سے بات چیت کے ذریعے اُن کے تحفظات اور مطالبات پر بھی غور فکر کیا جائے
اور اپنا نقطہ نظر بھی منوانے کی کوشش کی جائے تاکہ مذید قیمتی جانوں کا
نقصان نہ ہونے پائے۔
امریکہ؛امریکہ کو واقعی یہ حق بنتا ہے کہ وہ دنیا پر تھانیداری کا روپ
جمائے وہ اس لیے کہ امریکن بہت دور کی سوچ سمجھ کر حکمت عملی تیار کرتے ہیں
اور خود اتنی محنت اور عقلمندی سے کام کرتے ہیں کہ انہیں کسی سے بھیک
مانگنے کی نوبت نہیں آتی بلکہ سب کو وہ بھیک دے دیا کرتے ہیں ہم اور امریکن
میں فرق ہی یہ ہے کہ ہم بھیک مانگنے والے اور وہ بھیک دینے والے۔البتہ بھیک
لینے والے کو بھیک دینے والے کی جائز و ناجائز مطالبات پر بھی عمل کرنا
پڑتا ہے۔اب کراچی میں نیوی مہران پر حملے کے بعد امریکہ کو پاکستان کے
ایٹمی اثاثے پر بھی شک ہورہا ہے کہ اب پاکستان ان اثاثوں کی حفاظت نہیں
کرسکتا ہے ۔اندر کی کہانی کچھ بھی ہو ظاہری بات درست نظر آرہی ہے۔ پاکستان
کے ہر اہم اور حساس اداوں پر دہشت گرد وں نے کاروائی کی ہے۔ جبکہ امریکہ نے
چین جیسے ملک کو بھی دہشت گردی کے خلاف اتحادی بنانے میں کامیاب ہوا ہے اب
پوری دنیا میں سب سے کرپٹ اور دہشت گرد ہم ٹھہرے ہیں۔جبکہ پاکستان سے باہر
کی پوری دنیا ہماری ان باتوں پر ہنستی ہے کہ پاکستانی اپنی ہر غلطی کو
امریکہ کے گلے میں ڈال کر خود کو بے قصورٹھراتے ہیں۔اب تو اوباما نے کھلے
عام کہا ہے کہ اگر پھر کسی دہشت کی پاکستان میں موجودگی کی اطلاع ملی تو
یکطرفہ کارروائی کا حکم دیں گے۔ دنیا ورطہ حیرت میں ہے کہ آیا سارے دہشت
گردوں کو پاکستان میں ہی پناہ کیوں ملتی ہے ۔اب وکی لیکس کے حوالے سے یہ
خبر بھی امریکہ بہاد رسے ملی کہ پاکستان کو تنبیہ دی ہے کہ ایران سے تیل کی
خریداری کرنے سے پرہیز کریں۔یعنی امریکہ نے اپنے مقروض کو اس حد تک پابند
بنا رکھا ہے کہ وہ کسی اور سے تجارت یا لین دین ہی نہ کرے۔امریکہ ہر بار
کسی نہ کسی زاویئے سے پاکستان کو دھوکہ دیتا رہا مگر ڈالر کی حوس نے ہمیں
اتنا اندھا بنا رکھا ہے کہ ہم ہر دفعہ دھوکے کا شکار ہوجاتے ہیں۔امریکہ
دنیا کو ہمارے متعلق اس طرح بریفنگ دیتا ہے کہ آج تک جتنے بھی دہشت گردپکڑے
گئے پاکستان سے، دہشت گردوں کی زیادہ تعداد پاکستان میں، جبکہ پاکستان کو
خطرہ سب سے زیادہ ان کے اندرونی ایلیمنٹ سے ہے ہم نے تو پاکستان کی مدد کی
ان کو سہارا دیا ،انہیں قرضے اور امداد فراہم کررہے ہیں مگر اس کے باوجود
بھی ہمارا پرچم نظر آتش اور ہمیں ہی مردہ باد کہنے میں وہ اپنا فرض سمجھتے
ہیں۔جبکہ پاکستان65سال بعد بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکا ہے بلکہ یہ
خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہا ہے ۔ کیا ایسے ملک پر کوئی ہوشمند بھروسہ
کرسکتا ہے امریکن کی یہ منطق ہماری نظر میں کچھ بھی ہو مگر اہل دنیا امریکہ
کی اس دلیل کو بلا چوں و چرا مانتی ہے۔معذرت کے ساتھ اب ہماری مثال اُس شخص
کی مانندہے جس کو یہ کہا گیا ہو کہ تم نے جو جرم کیا ہے اُس کی سزا میں
تمہارے سر میں ایک سو مرتبہ جوتی ماریں گے یا تمہیں بڑے بڑے ایک 100پیاز
کھانی ہوگی دونوں سزا میں سے ایک کو پسند کرلو۔اس کے بعد وہ شخص ایک سو
جوتی سر پہ کھانے پر راضی ہوا جب دس مرتبہ سر پہ جوتی لگی تو چکرا گیا اور
کہنے لگا کہ نہیں میں پیاز کھاﺅں گا اور دس پیاز کھانے کے بعد پھر دوبارہ
جوتی کھانے پر راضی ہوا ۔اسی طرح ایکسو جوتی بھی کھائی اور ایک سو عدد پیاز
بھی کھائے تو اب وہی حشر ہمارا بھی نظر آتا ہے ۔جو قوم اپنی
کوتاہیوں،غلطیوں،اور اپنے اندر موجود برائیوں کا اعتراف کرنا اپنی شان کے
خلاف سمجھتی ہو تو کبھی وہ قوم شاندار قوم نہیں بن سکتی ہے۔خدا را اپنی
غلطیوں پر نظر ثانی کریں اور ایک نئے جذبے ،ولولے اور خلوص نیت سے اس ملک
کو بحران سے نکالنے کی جدوجہد کریں۔خدانخواستہ اگر ہمارا رویہ یہی رہا
تو2012ءہمارے لیے بہت مشکل ترین سال ہوگا۔ آئیں صدق دل سے دعا کریں کہ
پروردگار عالم ہمیں عقل ،شعور اور غیرت عطا فرمائے تاکہ ہم بھی اہل دنیا کے
سامنے ایک با وقار قوم بن کر جی سکیں (آمین) |