اس سے پہلے کہ میں عنوان کے
متعلق کچھ عرض کروں مناسب ہو گا کہ میں آپ کو مجاہد جمہوریت،سد آمریت،فرزند
مظفر گڑھ کے بارے میں کچھ عرض کر دوں۔ دید بھی ہے اور شنید بھی کہ حضرت
اپنے علاقے میں ون فائیو کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ایسا نہیں کہ وہ کبھی ون
فائیو میں ملازمت کیا کرتے تھے بلکہ یہ اعزاز انہیں اس رسپانس کی وجہ سے
ملا ہے جو وہ اپنے علاقے کے عوام کو دیتے ہیں۔انہوں نے اپنا نمبر سارے
علاقے میں بانٹ رکھا ہے۔جو کوئی بھی انہیں کسی بھی مسئلے کے لئے فون کر دے
وہ آندھی اور طوفان کی طرح وہاں پہنچتے ہیں اور ادھر ہی عدالت لگا کے مظلوم
کا حق مظلوم کے حوالے کر دیتے ہیں۔انصاف کے اس طریق میں کوئی وکیل نہیں
ہوتا ۔یہ طالبان سٹائل کا انصاف ہے اور اگر مجھے پکڑے جانے کا ڈر نہ ہو تو
کہوں مجھے پسند بھی بہت ہے۔اس لئے کہ انصاف مدعی ہی کو ملتا ہے اس کے پوتے
کو نہیں ۔پاکستان میں چوہدری پہلے تو انصاف کرتے ہی نہیں ۔عدالت کی میز
کرسی سج بھی جائے تو بندہ دیکھ کے فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ماٹھا ہو تو دستی اور
ڈاھڈا ہو تو محفوظ۔اب ایسے انصاف کو آپ انصاف کہہ لیں۔دستی صاحب کے مدعی
چونکہ عوام اور مدعا الیہ عموماََ تگڑے لوگ ہوتے ہیں اور فیصلہ بھی چونکہ
دستی صاحب کا نام نہاداشرافیہ کے خلاف ہوتا ہے۔اس لئے بھیڑیوں کے منہ میں
ہاتھ ڈالنے والا یہ سیاستدان مظفر گڑھ کے عوام کی آنکھ کا تارا ہے۔
دستی صاحب نے کیریر کا آغاز کہاں سے کیا اسے گولی مارئیے۔سائیکل کے کیرئر
سے کیا ہو گا۔دستی صاحب ان پڑھ آدمی ہیں۔مشرف نے جب الیکشن کے لئے بی اے کی
ڈگری کی شرط رکھی اور اپنے چہیتے مولاناحضرات کو مدرسوں کی ڈگریوں پہ
الیکشن لڑنے کی اجازت دی تو دستی نے بھی ایک مولوی کو کچھ ٹکے نظر کئے اور
مولنٰا کی خلعت خرید لی ۔اسی ڈگری پہ انہوں نے ا لیکشن لڑااور بھاری اکثریت
سے کا میاب ہو گئے۔دستی کا فرنٹ گراﺅنڈ توتھا لیکن غریب کا بیک گراﺅنڈ کوئی
نہ تھا۔اسی جرم کی بنا پہ دستی کی اہلیت کو چیلنج کر دیا گیا۔دستی نے سپریم
کورٹ میں اپنا جرم تسلیم کیا اور اپنی جیتی ہوئی سیٹ سے استعفیٰ دے کے
دوبارہ الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔اس سے پہلے سپریم کورٹ نے ڈگری کی علت
ختم کر دی تھی اس لئے اب دستی کی جیت میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔دستی نے ان
دنوں اپنے دل کی کہی ۔انہوں نے فرمایا کہ چوری پہ حق اس ملک میں صرف امیر
کا ہے غریب کا کیوں نہیں۔انہوں نے عدالت کے بھی وہ لتے لئے کہ مزا
آگیا۔انہوں نے فرمایا کہ میرے علاقے کے عوام سپریم ہیں وہی میرے بارے میں
فیصلہ کریں گے۔ان کے ان بیانات میں چونکہ نچلے اور پسے ہوئے طبقے کے خیالات
کی سڑاند موجود تھی۔اس لئے پاکستان کی ساری اشرافیہ سارا میڈیا اورر میرے
جیسے بہت سے ٹٹ پونجئیے کالم نویس پنجے جھاڑ کے دستی کے پیچھے پڑ گئے۔پورا
میڈیا مظفر گڑھ شفٹ ہو گیا۔جس دن دستی جیتا اسی دن سارے میڈیا والے اپنے
چہروں کی کالک صاف کرتے اپنے اپنے چینلوں میں لوٹ آئے۔میں نے بھی دستی کی
جیت کے دکھ میں چار دن کچھ نہیں لکھا۔
دستی ان پڑھ ہے اس لئے مصلحت اس کے آڑے نہیں آتی۔دستی معروف معنوں میں کن
ٹٹا بھی ہے اور ہتھ چھٹ بھی۔دستی پہ بہت سارے مقدمے بھی ہیں۔پاکستان کی
سپریم کورٹ،اشرافیہ ،سارا میڈیا سب اس کے مخالف ہیں۔حتی کہ اس کی اپنی
پارٹی میں بھی اسے لوگ زیادہ پسند نہیں کرتے۔وہ ان کے لئے دوسرا ذوالفقار
مرزا بن سکتا ہے۔اس سب کے باوجود وہ مظفر گڑھ کے عوام کی ڈارلنگ ہے۔ایسا
صرف اس لئے ہے کہ وہ ایک اچھا نباض ہے۔اس کا ہاتھ عوام کی نبض پہ ہے۔مظفر
گڑھ کے لوگ نوابوں وڈیروں اور کھروں سے تنگ تھے۔اس لئے انہوں نے دستی کو
اپنے سر کاتاج بنا لیا۔اب دستی مظفر گڑھ کا سڑک چھاپ دستی نہیں۔ایک معروف
سیاسی آدمی ہے اور اس کا گھرانہ ایک معروف سیاسی گھرانہ جو ایک طرف نوابوں
کی حویلیوں کی اینٹیں آہستہ آہستہ نکال رہا ہے تودوسری طرف اس کا ہاتھ ہر
جابر اور ظالم کے گریبان پہ ہے۔رہی اس کی کرپشن تو بھائی پاکستان میں اب
کون کرپٹ نہیں۔مسجد کے مولوی سے لے کے جو لوگوں کو جعلی ڈگریاں دیتا ہے
،ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے دار تک سبھی اسی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔پھر سارا
نزلہ دستی ہی پہ کیوں؟صرف اس لئے کہ اس کا بیک گراونڈ کوئی نہیں۔بیک گراﺅنڈ
کو دفع کریں آپ اس کا فرنٹ گراﺅنڈ دیکھیں جس میں پاکستان کے سارے پڑھے لکھے
انصاف پسند نابغے سما گئے ہیں۔
میرے ممدوح عمران خان نے پشاور میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران جہاںحسب عادت
و حسب معمول " نون غنوں" کی چھترول کی ہے وہیں یہ بھی فرمایا ہے کہ "اگلے
چھ ماہ میں آپ دیکھیں گے کہ کیسے بڑے بڑے سیاسی خانوادے تحریک انصاف میں
شامل ہوں گے"۔ہمارا خیال تھا کہ عمران ان تسمہ پا سیاسی خانوادوں سے ہماری
جان چھڑا دے گا لیکن اب عمران بھی انہی خانوادوں کے آنے کی امید باندھے
ہوئے ہے۔میں چونکہ عمران کا" فین "ہو چکا ہوں اور فین کا کام صرف چلنا ہوتا
ہے اس لئے میں سیاسی خانوادوں کے انتظار کے اس فیصلے کی بھرپور تائید کرتا
ہوں اور اس فیصلے کو تحریک انصاف کے لئے ایک بڑی سیاسی کامیابی تصور کرتا
ہوں۔تحریک انصاف کے ایک ادنیٰ سے ہمدرد کی حیثیت سے میری اپنے قائد سے ایک
بنتی ہے کہ جب وہ پرانے سیاسی خانوادوں کو تحریک کی لٹیا ڈبونے کے لئے اپنے
ساتھ شامل کریں تو میرے یار دستی کا بھی خیال کریں۔پاکستان کا ایک بھی نام
نہاد سیاسی گھرانہ ایسا نہیں جو عوام کا ہمدرد ہو ۔ہم نے اگر نئی بوتل میں
وہی پرانا ٹھرا ڈالنا ہے تو پھر دستی میں کیا برائی ہے۔یہی ناں کہ اس کا
بیک گراونڈ نہیں ۔گولی مارئیے بیک گراونڈ کو۔ویسے بھی آجکل لوگ بیک گراونڈ
نہیں فرنٹ گراونڈ دیکھتے ہیں اور فرنٹ گراونڈ دستی اور ذوالفقار مرزے کا
ایک جیسا ہے بس اسے کسی اچھے اور زردار دستگیر کی تلاش ہے۔پھر دیکھئیے گا
ہمارا دستی شہرت کی کن بلندیوں کو اپنے دام میں لاتا ہے۔ |