جگو نے جیسے ہی گرم گرم چائے کی
چسکی لی اسے اپنے پرانے سوالات یاد آگئے جنھیں وہ منگو سے پوچھنا چاہتا
تھا ۔ جگو نے کہا منگو بھیا اگر آپ برا نہ مانیں منگو بھیا تو مجھے آپ سے
کچھ پو چھنا ہے
نسنکوچ(بلاتکلف) پوچھو اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے؟
دراصل آپ نے ٹیلی پیتھی کا گیا ن سیکھا ہے کیا؟
ہومیوپیتھی اورایلو پیتھی تو سنا ہے یہ لیکن ٹیلی پیتھی کیا ہوتا ہے ؟ کہیں
بیمارٹیلی ویژن کو صحت یاب کرنے کا کو ئی نسخہ تو نہیں ہے؟
نہیں بھائی اس سے لوگ مخاطب کا ذہن پڑھ لیتے ہیں
ارے نہیں یہ تم سے کس نے کہہ دیا۔ایسا کوئی گیان میں نہیں جانتا۔منگو نے
کہا
اچھا اگر ایسا ہے تو تمہیں کیسے پتہ چل گیا کہ میں ریلوے پلیٹ فارم پر
پریشان تھا؟
اوہو میں سمجھ گیا۔ دیکھو بات دراصل یہ ہے کہ پلیٹ فارم پر ویسے تو ہر کوئی
پریشان ہی ہوتا ہے ۔
کیوں اسکی وجہ؟
وجہ صاف ہے ؟پلیٹ فارم ہر انسان سفر میں ہوتا ہے اسے اپنی منزل پر بحفاظت
جلد از جلد پہنچ جانے کی فکر لاحق ہوتی ہے اس لئے وہ پریشان ہوتا ہے۔
لیکن بھیا ّیہ جیون بھی تو ایک یاترا کے سمان ہے یہاں تو ہر کوئی چنتت (پریشان
)نہیں ہوتا بلکہ بہت سارے لوگ نشچنت جیون ویتیت(اطمینان کی زندگی گزارتے )کرتےہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
بھائی جگو تم نے بہت ہی گمبھیر پرشن کرلیا۔دیکھو اس دنیا میں تین پرکار(قسم)
کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک تو وہ لوگ جو اس جیون کو پرواس(سفر) نہیں بلکہ
منزل سمجھ لیتے ہیں وہ دو انتہاؤں پر زندگی گزارتے ہیں ۔جب انہیں کچھ مل
جاتا ہے تو وہ غفلت کا شکار ہو کر بے فکر ہو جاتے ہیں اور جب کچھ چھن جاتا
ہے تو مایوسی کی اتھاہ سمندر میں غوطہ لگانے لگتے ہیں ۔
جی ہاں ایسے بہت سارے لوگ میں نے بھی دیکھے ہیں شاید اکثریت ایسے ہی لوگوں
کی ہے؟
تم نے صحیح کہا اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اس جیون کو پرواس تو
سمجھتے ہیں لیکن انہیں نہ ہی ایشور پر پورن وشواس (ایمانِ کامل) ہوتا ہے
اور نہ اس کے مارگ کا گیان ہوتا ہے ایسے لوگ بہت زیادہ سنکوچ اور چنتا کا
شکار ہوتے ہیں
یہ تو لازمی ہے ایسے لوگوں کی کوئی اور دشا(حالت) ہو ہی نہیں سکتی لیکن پھر
تیسری قسم کون سی ہے ؟ جگو نے پوچھا
تیسرے پرکار کے لوگ دوسرے کے ویپریت(ضد)ہوتے ہیں ان کو نہ صرف ایش گیا ن
پراہت ہوتا ہے بلکہ ان کا ایشورپر پورن وشواس بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے وہ
مطمئن تو ہوتے ہیں اور چونکہ وہ جیون کے اس سفر میں ہر سمے ایشور کو اپنے
آس پاس محسوس کرتے ہیں اس لئے کبھی بھی خوف ومایوسی ان کے قریب نہیں
پھٹکتی۔
بھئی آپ تو بڑے گیانی نکلے میں تو آپ کو حلوائی سمجھ بیٹھا تھا جگو نے
مسکرا کر کہا
تم ٹھیک سمجھے تھے جگو میں پیشے سے حلوائی ہی ہوں لیکن یہ سب بابا جی کا کی
سنگت کا وردان ہے منگو نے ونمرتا(انکساری) سے کہا
اچھا ہاں اب یہ بھی بتا دو کہ جو پوڑیاں تم نے مجھے کھلائیں وہ تم کس کے
لئے بنا کر لائے تھے
تمہارے لئے اور کس کیلئے؟منگو قہقہہ لگا کر بولا
میرے لئے ؟ تمہیں کیسے پتہ تھا کہ میں وہاں آنے والا ہوں اورتم سے میرا
پریچئے(تعارف) بھی تو نہیں تھا
اس سے کیا فرق پڑتا ہے ویسے بھی میں نے اسے اپنے کسی پریچت کیلئے بنایا کب
تھا
تب پھر کس کیلئے بنایا تھا ؟یہی تو میرا پرشن ہے
بھئی دیکھو ہم حلوائی لوگ کھانے کا نام تو جانتے ہیں لیکن کھانے والے کا
نام نہیں جانتے اور ہمیں اسکی ضرورت بھی نہیں ہوتی
اچھا آپ نہیں جانتے تو کون جانتا ہے ؟
وہی جانتا ہے جو ہر دانے پر اس کے کھانے والے کا نام لکھ دیتا ہے اس کے سوا
کوئی نہیں جانتانہ بنانے والا اور نہ کھلانے والا
منگو بھائی اپ نے میری بات کو گھما دیا اور یہ نہیں بتلایا کہ وہ پوڑی سبزی
کس کیلئے تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر اس روز دہرہ دون ایکسپریس وقت پر آجاتی
تو میں نکل چکا ہوتا۔خیر اچھا ہی ہوا وراس ست سنگت سے محروم رہ جاتا۔
منگو بولا اس سے تو یہی سدھّ (ثابت) ہواکہ بھائی جیسے دانے دانے ہر لکھا
ہوتا ہے اس کے بنانے اور کھانے والے کا نام اسی طرح ہر شبد(لفظ ) پر اسکے
بولنے اور سننے والے کا نام بھی لکھا ہوتا ہے۔
وہ کیسے؟
بابا جی کے سب زیادہ بھکت شمالی ہند میں پائے جاتے ہیں ہم لوگ وہاں سے آنے
والے یاتریوں کا سواگت کرنے کیلئے اسٹیشن پہنچے تھے تو معلوم ہوا کہ سرکار
نے اس اندولن کو ناکام کرنے کیلئے اس سمت سے آنے والی ساری گاڑیوں کو
قصداً لیٹ کردیا۔ پہلے تو ہمیں بہت غصہ آیا سوچا پردرشن(احتجاج) کیا جائے
لیکن پھر ہمارے ایک مِتر نے سجھاؤ دیا یہ بد معاش سرکار ہے اس کے غنڈے
ہمارے پردرشن میں شامل ہوکر لوٹ مار مچا دیں گے اور ذرائع ابلاغ ہمیں بدنام
کرنے کی مہم میں جٹ جائے گا
یہ تو بڑی عقلمندی کا نرنیہ (فیصلہ) تھا
جی ہاں لیکن اس کے بعد جب میں نے یہ پوچھا کہ اب اس کھان پان کا کیا کیا
جائے اسے سرکار کے منہ پر پھینک دیا جائے ؟تو ایک اور مِتر(دوست) بولا نہیں
ہم ان موانع کو مواقع میں بدل دیں گے
سب نے ایک زبان ہو کر پوچھا وہ کیسے؟
جواب ملا سرکار لاکھ رکاوٹ ڈالے جو لوگ اس عظیم کام کیلئے اپنے گھر سے نکل
کھڑے ہوئے ہیں وہ تو یہاں کسی نہ کسی طرح ضرور پہنچیں گے ۔کوئی بس سے تو
کوئی پیدل لیکن ان گاڑیوں کے نہ آنے کی وجہ سے جو لوگ اسٹیشن پر پھنس گئے
ہیں اور آگے نہیں جا پارہے ہیں کیوں نہ یہ پکوان انہیں کھلا دیا جائے اور
یہاں آنے کی دعوت دی جائے۔ بس پھر کیا تھا ہم سب اس کام میں جٹ گئے اور
اسی کوشش میں تم میرے ہتھے چڑھ گئے
جگو بولا بھئی واہ تمہارے سہیوگی تو بڑے سمجھدار لوگ ہیں لیکن تم بھی تو
انتریامی ہو
نہیں بھائی میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے
اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بتاؤ تمہیں کیوں کر پتہ چل گیا کہ میرا پیشہ مٹی
کے برتن بنانا ہے ؟
منگو مسکرایا اور بولا وہ تو میرا اندازہ تھا جوخوش قسمتی سے درست نکل گیا
لیکن تم نے اندازہ لگایا کیسے؟اسکی بھی تو کوئی وجہ ہوگی؟
دراصل جب میں نے جب تمہیں پوڑی سبزی پیش کی تو دیکھا تمہارا دھیان کھان پان
کے بجائے کلہڑ کی طرف ہے میں سمجھ گیا ہو نہ ہو تم کمہار ہو
اور اگر میں کمہار نہ ہوتا تو؟
تو کیا لوہار ہوتے یا کچھ اور۔میں تم سےمعذرت طلب کر لیتا ۔ میرا مقصدتمہیں
متاثر کرنا توتھا نہیں تم سے گپ شپ کرنا تھا اوروہ حاصل ہو گیا ۔
جی نہیں تمہارا مقصد مجھ سے بات چیت کرنا نہیں تھا بلکہ یہاں روانہ کرنا
تھا اور تم اس میں کامیاب ہوگئے۔
منگو بولا بھائی ہمارا کام تو کوشش کرنا ہے کامیابی یا ناکامی ایشور کے
ہاتھ میں ہے اس لئے ہم اپنے کام کی فکر کرتے ہیں باقی اس پر چھوڑ دیتے ہیں
جو جس کا کام ہوتا ہے ۔وہ دیکھو بابا جی کی آمد آمد ہے چلو اب ان کا
پروچن سنتے ہیں
(باقی آئندہ انشا اللہ) |