شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (20ویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال۔ اسلم لودھی صاحب جیسے جیسے ہم آپ کی کہانی پڑھ رہے ہیں ،حیرتوں کے نئے در وا ہورہے ہیں ۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ جب آپ گلبرگ ہائی سکول میں داخل ہوئے تو وہاں پڑھتے ہوئے آپ نے کیسا محسوس کیا ۔ اگر دوران تعلیم کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہو تو ہمارے قارئین سننے او رجاننے کا اشتیاق رکھے ؟
اسلم لودھی ۔شہزا د صاحب بچپن تو سب کا انمول ہوتا ہے ، جس میں بیشمار واقعات ایسے بھی پیش آتے ہیں، جن کی کبھی توقع نہیں کی جاتی ۔بہرکیف آپ اس قسط میں اس کی بعد والی قسطوں میں میرے سکول کے واقعات کا عمومی نظر سے مشاہدہ کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ان واقعات کو پڑھ کے قارئین بھی محظوظ ہونگے ۔
.......................
اس زمانے میں شاہدرہ سے لاہور چھاؤنی تک صبح چھ ساڑھے بجے ایک ٹرین چلا کرتی تھی جس کا نام باؤ ٹرین تھا ۔اس میں سی ایم اے ( کنڑول ملٹری اکاؤنٹ) کے دفتر میں ملازمت کرنے والے سینکڑوں کلرک اور چھوٹے ملازمین سفر کرکے صبح ساڑھے سات بجے یا آٹھ بجے لاہور چھاؤنی پہنچا کرتے تھے جبکہ یہی باؤ ٹرین دو اڑھائی بجے لاہور چھاؤنی سے شاہدرہ تک جایا کرتی تھی۔گلبر گ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر اشرف خان صاحب بھی اسی ٹرین پر سفرکیا کرتے تھے ۔ لاہور چھاؤنی اسٹیشن پر اتر کر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ پیدل ہی سکول چلتے ہوئے سکول پہنچا کرتے تھے ۔چونکہ میرے والد صاحب کی ڈیوٹی جب بی کیبن پر ہوا کرتی تھی تو والد صاحب انہیں دیکھ کر کیبن پر بیٹھے ہی سلام کردیا کرتے تھے ۔اس لیے والد صاحب کے حوالے سے ہیڈ ماسٹر صاحب کے دل میں خاصا احترام پایا جاتا تھا ۔ ان کا رعب اور دبدبہ اتنا تھا کہ ہر طالب علم ان کے دفتر کے سامنے سے گزرتا ہوا بھی ڈرتا تھا ،چونکہ سکول کا بڑا گیٹ ان کے دفتر سے متصل تھا اس لئے آدھی چھٹی اور پوری چھٹی کے وقت بھی ہمیں پہلو بچا کر وہیں سے گزرنا پڑتا ۔اس وقت گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ کی عمارت تین مختلف بلاکوں میں تقسیم تھی ۔ ایک بلاک جس میں پانچ چھ کشادہ کلاس روم موجود تھے ،وہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر سے منسلک شمال کی جانب تھے ۔ اس وقت ان کلاس روموں میں 9ویں اور دسویں کی اے بی سی گروپوں کے لڑکے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔اس کے بالکل سامنے یعنی جنوب کی جانب ایک اور بلاک بھی تھا جس میں چھٹی ، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے لڑکے پڑھا کرتے تھے ۔ سکول کے بڑے گیٹ کی دیوار کے ساتھ ہی ایک راستہ پچھلے بلاک کی جانب جاتا تھا، جہاں چار پانچ پرانے اونچی چھتوں والے کمرے موجود تھے۔ ان کمروں میں چھٹی کلاس میں نئے داخل ہونے والے طالب علم پڑھا کرتے تھے ۔ ان کمروں کے پیچھے بچوں اور بچیوں کا پرائمری سیکشن تھا جس کا مین دروازہ بھی الگ تھا ۔پرائمری سیکشن کے ایک بلاک کی کھڑکیاں گراؤنڈ کی جانب کھولتی تھیں۔ اس کشادہ گراؤنڈ میں سکول کی بڑی کلاسز کے لڑکے کرکٹ ، فٹ بال اور ہاکی کھیلا کرتے تھے ۔ اسی گراؤنڈ کے انتہائی جنوب میں ایک سائنس لیبارٹریز ہوا کرتی تھی ۔جو شایداب بھی ہے ۔اس لیبارٹریز میں سائنس ٹیچر کی نگرانی میں نویں اور دسویں کلاس کے لڑکے سائنسی تجربات کیا کرتے تھے ۔اس گراؤنڈ کے مشرقی جانب سکول کی مشترکہ لیٹرینیں تھیں ۔ جہاں چھٹی سے دسویں کلاس کے لڑکے حاجت روائی کے جایا کرتے تھے۔سکول کے پرائمری سیکشن کے دروازے کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی دوکان ہوا کرتی تھی جس پر ایک موٹا سا بابا بیٹھا ہوتا ۔جس کی دوکان میں کاپیاں کتابوں کے لیے ہماری دلچسپی کی تمام چیزیں موجود ہوا کرتی تھی لیکن یہ سب کچھ پیسوں سے ملا کرتا تھا اور پیسے ہمارے پاس ہوتے نہیں تھے ۔اس لیے ہم بابے کو حسرت بھری نظر سے دیکھ وہاں سے ہٹ جایا کرتے تھے ۔نہ دیکھیں گے اور نہ دل للچائے گا۔
جب مجھے گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ میں داخلہ مل گیا تو ہمیں بیٹھنے کے لیے پرائمری اور ہائی کلاسز کے درمیانی بلاک میں ایک پرانا اور اونچی چھت والا کمرہ ملا ۔ہمارے پہلے ٹیچر کا نام لال دین صاحب تھا ۔لمبا قد م گندمی رنگ ، خوبصورت چہرہ کے حامل لال دین صاحب مجھے اس لیے بھی پسند تھے کہ ان کے ہاتھوں پر میں نے کبھی میل جمی ہوئی نہیں دیکھی جبکہ میرے ہاتھوں کے الٹی جانب جمی ہوئی میل دور سے بھی دیکھی جاسکتی تھی ۔گھرکے کام کاج والدہ کو اتنی فرصت نہیں دیتے تھے کہ وہ ہمارے ہاتھوں اور پاؤں سے میل کر کرچ کر صاف کرسکیں ۔لال دین صاحب نہ صرف ہمارے ٹیچر تھے بلکہ ہمیں سارے پریڈ وہی پڑھایا کرتے تھے۔میرا بینچ کلاس روم کے درمیان میں تھا۔ میرے ساتھ ایک دراز قد کا لڑکا بیٹھا کرتاتھا جس کانام محمد مجاہد تھا ۔وہ پڑھتا تو چھٹی کلاس میں تھا لیکن اس کا قد کاٹھ آٹھویں جماعت کے لڑکے کے برابر تھا ۔ ابھی گرمیوں کے موسم کا آغاز ہوا ہی تھا اور اکلوتا پنکھا جو کلاس روم کے درمیان میں چھت پر نصب تھا ۔شکل و صورت سے بھی وہ پنکھا دوسری جنگ عظیم کا لگتا تھا ۔جب لڑکوں سے کلاس روم بھرجاتا تو گرمی کا احساس شدت سے ہونے لگتا ۔ٹیچر کے حکم پر وہ سیلنگ فین چلا دیا گیا ۔جس کے چلنے سے کچھ راحت تو محسوس ہوئی لیکن ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ پنکھا میرے ساتھ بیٹھے ہوئے محمد مجاہد کے کندھوں پر آگرا ۔ اور گرتے ہی بجلی کی تار ٹوٹ گئی اگر تار نہ ٹوٹتی تو یقینا پنکھے کے پروں کی زد میں ضرور آتا ۔ کیونکہ محمد مجاہد کے ساتھ میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔ پنکھا گرنے سے سب لڑکے سہم گئے اور ٹیچر لال دین صاحب بھی پریشان ہوگئے ۔اس کے بعد نہ نیا پنکھا آیا اور نہ کسی نے خریدنے کی زحمت کی ۔ چنانچہ لڑکوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کلاس روم میں گرم کا شدت سے احساس ہونے لگا ۔
ایک دن جب ہانپتاکانپتا گرمی کی شدت سے نڈھال ہوکرجب میں گھر پہنچا تو والدصاحب نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا بالٹی میں ٹھنڈا پانی رکھا ہے اس سے نہا لو ۔اور ایک بڑا سی ٹوپی مجھے تھمادی (جو شاید ٹرین کے کسی گارڈ نے ا نہیں تحفے کے طور پر دی تھی )اور فرمایا بیٹا کل صبح جب سکو ل جاؤ گے تو یہ ٹوپی سر پر پہن لینا ۔یہ تمہیں گرمی سے بچائے گی ۔میں نے سعادت مند بیٹے کی طرح وہ سفید ٹوپی لے کر اپنے بستے کے اوپر رکھ لی۔ اگلی صبح جب میں سکول جانے لگا تو وہ ٹوپی میں نے سر پر پہن لی ۔ ریلوے کوارٹروں کے کتنے ہی لڑکے میرے ساتھ سکول جاتے اور واپس بھی آتے تھے ۔ جیسے ہی میرے سر پر انہوں سے بڑی سی ٹوپی دیکھی تو لڑکوں کو شرارت سوجھی ۔ساتھ چلنے والوں نے بھی اس ٹوپی پر مذاق کے طور پر تھپیڑ مارنے شروع کردیئے ۔جب ان سے بچ کر سکول پہنچا تو کلاس کے سبھی لڑکوں نے وہ ٹوپی دیکھ کر میرا جینا حرام کردیا ۔کوئی پیچھے سے ٹھاپ مارتا تو کوئی آگے سے ۔ کوئی دائیں جانب سے تو کوئی بائیں جانب سے پریشان کرتا ۔ حسن اتفاق سے اس دن ٹیچر بھی کلاس میں کافی دیر بعد آئے تھے ۔ان کے آنے تک ٹوپی کی وجہ سے میری اچھی خاصی درگت بن چکی تھی ۔ جب سکول سے چھٹی ہوئی تو مجھے اسی ٹوپی نے گھر تک کڑی دھوپ سے بچائے رکھا ۔گھر پہنچا تو والد صاحب مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فخریہ انداز میں کہا کہ آج میرے بیٹے کو دھوپ نے پریشان نہیں کیا ہوگا ۔ میں نے رونے والا منہ بنا کر کہا ابا جان ۔اس ٹوپی کو اپنے پاس ہی رکھ لیں ،میں جہاں یہ ٹوپی پہن کے جاتا ہوں میری کلاس کے لڑکے مجھے تنگ کرتے ہیں ۔میں اپنے بستے کی حفاظت کروں یا اس ٹوپی کی ۔
.................
ابھی مجھے سکول میں داخل ہوئے پانچ مہینے ہی گزرے تھے کہ پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ اس وقت میری عمر تقریبا دس سال تھی ۔6ستمبر 1965ء کی صبح جب ریلوے کوارٹروں کے سبھی لوگ اپنے اپنے گھر کے باہر چارپائیاں بچھا کر سورہے تھے تو بڑے باؤ ( ان کا نام مجھے نہیں پتہ ۔ سب بڑا باؤ کہہ کر انہیں پکارتے تھے)انہوں نے شور مچانا شروع کردیا ۔ اٹھو بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ۔ اٹھو ..........اٹھو ۔ میں بھی باقی لوگوں کی طرح اپنے کوارٹرکے باہر سو یاہوا تھا جب بڑے باؤ کی آواز میرے کانوں میں پڑی تو میں یکدم پریشان ہوکر اٹھ کھڑا ہوا ۔ میں نے اپنی دس سالہ زندگی میں کبھی جنگ کے بارے میں نہ تو سنا تھا اور نہ کبھی سوچا تھا اور نہ ہی مجھے پتہ تھا کہ ملکوں کے مابین جنگ ہوتی کیسے ہے ؟
گبھراہٹ کے عالم میں نیند سے بیدار ہوا تومیرے کانوں میں یکے دیگرے دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔یہ دھماکے اتنے زور دار تھے کہ ان سے ہمارے کوارٹروں کے دروازے اور کھڑکیاں پوری شدت سے ہلنے لگیں ۔جبکہ لکڑی کی کھڑکی میں کئی سوراخ ہو گئے ۔ اس لمحے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب ہم نے کرنا کیا ہے ۔مجھ سمیت سب لوگ پناہ حاصل کرنے کے لیے اپنے اپنے گھر وں کے اند ر بھاگ رہے تھے ۔ آہستہ آہستہ اندھیرا چھٹ رہا تھا اور دن کا اجالا ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا ۔اب ہمیں آگ کے گولے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے تھے ۔مشکل کے اس وقت سب کو خدا یاد آگیا کچھ لوگ مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے جا پہنچے ۔ 1965ء میں ہماری مسجد بھی بہت چھوٹی سی تھی جس میں کوئی باقاعدہ امام نہیں ہوا کرتا تھا ، چند ایک لوگ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آتے اور اپنی اپنی نماز پڑھ کے گھروں کولوٹ جاتے ۔ مسجد میں بجلی کا تو تصور بھی نہیں تھا اور نہ ہی ہمارے کوارٹروں میں بجلی تھی۔سب جگہ شام کے وقت لالٹین یا برنل روشن ہوا کرتے تھے ۔لالٹین کی روشنی ہی میں گھر کے سارے افراد ایک دوسرے پہنچانا کرتے تھے۔ ایک چراغ امام کے مصلے کے قریب رکھا ہوا تھا جس کے پاس ہی ایک بڑا ساٹین پڑا ہوتھا جس میں لوگ سرسوں کا تیل ڈال دیا کرتے تھے ۔
سورج طلوع ہوا تو خطرے کے سائرن مسلسل بج رہے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ کوئی کھلی جگہ پر آگ نہ جلائے ۔ اسٹیشن ماسٹر کی ہدایت پر چند گینگ مینوں نے کوارٹروں کے درمیان ڈبلیو شکل کی چار پانچ فٹ گہری خندق کھود دی ۔ تاکہ ہوائی حملے کے وقت اس میں پناہ لی جا سکے ۔جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا ، سبھی لوگوں کے دلوں سے جنگ کا خوف ختم ہوتاجا رہا تھا ۔میری عمر کے سارے لڑکے اور بڑی عمرکے مرد بھی کوارٹروں کے پیچھے ریلوے لائنوں کے ساتھ ساتھ قطار کی شکل میں کھڑے ہوکر نعرہ تکبیر اﷲ اکبر لگا رہے تھے ۔ جونہی فوجیوں سے بھری ہوئی ٹرینیں لاہور چھاؤنی کے اسٹیشن کے گزرتیں تو ریلوے لائن کے اردگرد جمع ہونے والے تمام لوگ بلند آواز سے نعرے لگانے لگتے ۔ پاک فوج کے افسر اور جوان جن کا چہرہ شیروں کی طرح چمک دمک رہا ہوتا وہ عوام کے نعروں کا بھرپور جواب دے رہے تھے ۔ وہاں کھڑے ہوئے کسی نے بتایا بھارت نے لاہورکے محاذ پر ناکامی کے بعد حسینی والا اور گنڈا سنگھ بارڈر پر حملہ کردیا ہے اور فوجیوں سے بھری ہوئی ٹرینیں قصور جا رہی تھیں تاکہ بھارتی فوج کو جارحیت کا سبق سکھایا جائے۔ساڑھے دس گیارہ بجے پر ریڈیو پراعلان ہوا کہ ابھی چند لمحوں بعد صدر پاکستان محمد ایوب خان قوم سے خطاب فرمائیں گے ۔یہ سنتے ہی تمام لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔ ہر کسی نے اپنے کان ریڈیو کی آواز پر لگا رکھے تھے اور نعرہ تکبیر سے ماحول کو گرما رہے تھے ۔

( جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 786279 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.