رازؔ بھارتی، اپنے ’آغاز‘ کے آئنے میں

 شریف النفس، نیک، مذہبی، نرم گفتار، مہمان نواز،حسد،جلن، بغض کو قریب نہ پھٹکنے دینے والے کی شخصیت حاجی امتیاز علی صدیقی متخلص راز ؔبھارتی کی ہی ہو سکتی ہے۔ برٹش انڈیا میں ۲۳؍اگست۱۹۳۶؁ء کوپیدا ہونے والے بڑھاپے کے اثرات لیے ہوئے آج بھی اﷲ کے فضل سے فعال ہیں۔

آنجہانی کرشن بہاری نورؔ لکھنوی کی پیدائش ۸؍نومبر ۱۹۲۵؁ء ، کو غوث نگر،لکھنؤ میں ہوئی تھی۔ان کے تلمیذ کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں سبھی نام قابلِ ذکر ہیں اور حسب ذیل ہیں:
گلشنؔ بریلوی، ڈاکٹر کنور بیچینؔ، ڈاکٹرمدھورِما سنگھ، دیوکی نندن شانتؔ، جیوتی کرن سنہا، ڈاکٹر کرشن کمار نازؔ، گووند گلشن،ؔ دیپک جین دیپؔ، اردند اثرؔ، حامد اﷲ قمرؔ، رویندر کمار نرملؔ، اشوک کمار اثرؔ ، طفیل چترویدی۔انہیں شاگردوں میں حاجی امتیاز علی صدیقی رازؔ بھارتی کا نام نامی بھی رہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ نور ؔ صاحب کی نظروں میں رازؔ بھارتی کا کوئی خاص مقام ضرور رہا ہے۔ غوث نگر میں ہی تھوڑے سے فاصلے پر ہی دونوں کے مکان تھے۔رازؔ بھارتی کا مکان اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن نورؔ لکھنوی کا مکان فروخت ہو چکا ہے۔

رازؔ بھارتی کی عقیدت جو نورؔلکھنوی کے لیے تھی وہ اب بھی باقی ہے جب کہ نورؔ صاحب کے انتقال کے بیس سال(۲۰۰۳؁ء) گزر چکے ہیں۔ رازؔ بھارتی ہر ماہ کی ۸؍تاریخ (جو نورؔ صاحب کی تاریخِ پیدائش ہے )کو اپنے دولت خانہ، مدینہ منزل ، غورث نگر میں’بزمِ نور‘ کے بینر تلے ایک شعری نشست کراتے ہیں جس میں لکھنؤ کے نامور شعرا حضرات جیسے ملک زادہ منظورؔ احمد، انورؔ ندیم،انورؔ علی انواروی وغیرہ بزم نور میں شامل رہتے تھے اور واصفؔ فاروقی، بیخودؔ لکھنوی، منظور پروناؔ،سنجے مصرا شوقؔوغیرہ شرکت کرتے رہتے ہیں۔بزم نور میں نئے شعرا کوبھی، ان کی حوصلہ افزائی کے لیے سنجیدگی سے سنا جاتا ہے اور داد دی جاتی ہے۔

رازؔ بھارتی کے ایک صاحب زادے رضوان احمد میرے گھر (پرکاش لوک وستار، اندرا نگر،لکھنو)کے قریب میں ہی رہتے ہیں اور ہر سال عید کے بعد پڑنے والی پہلی آٹھ تاریخ کو’بزم نور‘ کے سلسلہ میں ہونے والی نشست غوث نگر کے بجائے اندرا نگر میں ہوتی ہے۔ ان نشستوں میں پر لکلف عشائیہ بھی رہتا ہے۔رضوان احمد کے علاوی دو بیٹے اور ہیں جن کے نام غفران احمد جو حافظ قرآن ہیں، اندرا نگر میں ہی تھوڑے فاصلہ پر اپنے مکان میں رہتے ہیں۔تیسرا اور سب سے چھوٹا بھائی نورالہدیٰ مولوی گنج میں رہتے ہیں۔تینوں بھائی اپنے اپنے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔راز ؔ بھارتی کے ماشاء اﷲ نو۹ بیٹیاں تھیں جس میں ایک کا انتقال ہو چکا ہے۔ناتی،نتنیوں، پوتے ،پوتیوں سے بھرا پُرا رازؔ بھارتی کا پریوار ہے۔بڑی جدوجہد کی زندگی گزاری،تعلیم بھی حاصل کرتے رہے اور کار وبار میں بھی بڑھتے رہے اور شعر و سخن کی محفلیں بھی سجاتے رہے۔اسکول میں ہونے والے تمثیلی مشاعرے، بیت بازی میں حصہ لینے والے بچوں میں رازؔبھارتی آگے آگے رہتے تھے۔

رازؔ بھارتی صاحب ’رازؔ کی بات‘ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’نورؔ صاحب اپنے شاگردوں کے کلام کی اصلاح اس طرح کرتے کہ ان کا مقصد فوت نہ ہو اور زبان و بیان بھی برقرار رہے۔ اُسی کے خیال کو اُسی کے انداز میں باندھنے کا فن اُنہیں خوب آتا تھا۔ شاگردوں کے اچھے اشعار کی اس طرح تعریف کرتے کہ ہفتوں ذہن و دماغ پر اس کے خوشگوار اثرات رہتے اور مزید اچھے اشعار کہنے کے لیے ذہن آمادہ ہو جاتا ۔ میرا ایک شعر انہیں اس حد تک پسند آیا کہ ایک روز امین آباد میں سرِ راہ مجھے روک کر کہا ’بھئی رازؔ تمہارا وہ شعر بہت اچھا ہے اور انعام کے طور پر پانچ روپئے مجھے عطا کیے۔شعر یہ ہے‘‘:
طلب میں کس کی ہے صدیوں سے سورج
پلک تک اس نے جھپکائی نہیں ہے

کہتے ہیں کہ ’’شاعری، شاعر کے مزاج، شعور اور احساسات کی آئینہ دار ہوتی ہے، شاعر ماضی و حال اور مستقبل پر گہری نظر رکھتا ہے۔‘‘شاعری کی علامت مفکرانہ ہوتی ہے وہ ماضی میں ہونے والے حالات کو سمجھتا ہے،پرکھتا ہے اور حال میں ان کو بیان کرتا ہے اور مستقبل میں ہونے والے امکانات اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اسی طرح کی فکر رازؔ بھارتی کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
ظلمت کی سمت ہم کو نہ لے جائے روشنی
رہ رہ کے یہ خیال ستاتا ہے آج کل
----------
محبت کیا ہے یہ جانے نہ جانے
عداوت بچہ بچہ جانتا ہے
----------
یہ کیسے عہد سے ہم سب گزرے ہیں رازؔ
ترس رہا ہے ہر اک شخص اک ہنسی کے لیے
----------
تھی عدالت بھی یہاں، دفتر بھی تھے، اسکول بھی
یہ سفارش اور رشوت کی وبا پہلے نہ تھی
----------
رازؔ بھارت ایک حقیقت پسند انسان ہیں،جب وہ دیکھتے ہیں کہ بچّوں کی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے،وضعداری، فرمابرداری،سعادت مندی کی تربیت نہ ہو کر صرف بوجھ اُٹھانے کی تربیت ہو رہی تو وہ کہہ اُٹھتے ہیں:
تعلیم ہے یا بوجھ اُٹھانے کی تربیت
معصوم ننھے کاندھوں پہ یہ بار کس لیے؟
----------
لوگ عمر گزار دیتے ہیں دنیا کمانے میں،حرام و حلال کا بھی ہوش نہیں رہتا،کسی کی دلآزاری کا بھی ہوش نہیں رہتا، فلاں کے پاس فلاں فلاں چیز ہے میرے پاس بھی ہو۔ اسی کشمکش میں انسان گناہوں کے دلدل میں پھنستاہوا دنیا سے خالی ہاتھ چلا جاتا ہے، وہ اپنی کمائی ہوئی دنیا میں ایک پَل بھی اپنی مرضی سے نہیں رہ سکتا ؂ :
گناہ کتنے کیے ہم نے زندگی کے لیے
نہ رُوک پائے مگر عمر دو گھڑی کے لیے
----------
ایک زمانے سے بھارت میں اقلیتوں پراکثریتی فرقہ کے کچھ خراب لوگوں کے مظالم بڑھتے جا رہے ہیں،اقلیتوں کو بے گناہ جیلوں میں بند کیا جاتا ہے بھلے ہی ان کو بعد میں عدلیہ ان کی بے گناہی پر چھوڑ دے ؂
کیا جرم، کیا خطا ہے، مِرا کیا گناہ ہے؟
لایا گیا ہے مجھ کو سرِ دار کِس لیے
----------
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک کو ئی بچھڑ جاتا ہے تو دوسرا بھی جیتے جی مر ہی جاتا ہے۔رازؔ بھارتی کی شریک حیات ان سے جدا ہو گئیں اور وہ ادھورے بھٹکنے والے انسان ہو کر رہ گئے۔حالانکہ ماشا اﷲ ان کا بھرا پُرا پریوار ہے، لائق بچے ہیں لیکن ’ جب تم نہیں تو کچھ بھی نہیں‘ والی بات ؂
تم تو دامن جھٹک کر الگ ہو گئے
کس طرح اب گزاریں گے ہم زندگی؟
----------
مقدّر سے کون بھاگ سکتا ہے،قسمت کا لکھا ٹالانہیں جا سکتا ، لہذاجو زندگی ملی ہے اُسے کس طرح گزارا جائے اس طرح کا مشورہ رازؔبھارتی دیتے ہوئے کہتے ہیں ؂
صبر اور شکر میں رازؔ کر لے بسر
جو ملی ہے تجھے بیش و کم زندگی
----------
ایک موقعہ پر رازؔ بھارتی فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے اخلاق و کردار کے جوہر کھو دیے ہیں،ہماری رگوں میں جرأت کا ، صداقت کا لہو جو دوڑتا تھا وہ منجمد ہو گیا ہے،ہم اپنے اسلاف کی روِش سے ہٹ گئے ہیں اسی لیے ہم ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ، حق گوئی ،عہد کی پابندی،ظلم کے خلاف اٹھنے والی آواز جیسی علامتیں ہمیں اپنے میں پھرپیدا کرنی چاہیے۔

حُسنِ اخلاق کے کردار کے جوہر لاؤ
ہم نشینوں ذرا اسلاف کے تیور لاؤ
----------
رازؔبھارتی روایتی شاعر نہیں ہیں اور نہ ہی جدیدشاعری کا لب و لہجہ ہے،وہ ایک سچے انسان ہے اس لیے حقیقت پسندی ان کی شاعری میں دور سے جھلکتی ہے۔ ان کے اشعار کی زبان سلیس اور سادہ ہوتی ہے،عموماً اشعارمذہبی خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ان کے اشعار میں یہ بھی جھلکتا ہے کہ میکشی کا صحیح وقت کون سا ہوتا ہے ؂
اس نے شانوں پر تو بکھرا دی ہیں زلفیں میکشو!
فرق کیا پڑتا ہے جو کالی گھٹا چھائی نہیں
----------
میں نے ایمان کی یوں راز حفاظت کی ہے
جیسے آندھی میں کوئی جلتا دیا لے جائے
----------
راز ؔ بھارتی کا پہلا شعری مجموعہ’آغاز‘ کے نام سے ۲۰۰۵؁ء شائع ہوا، اور دو۲ شعری مجموعے زیر ترتیب ہیں۔’آغاز‘ میں ایک نعت شریف کے علاوہ ۶۶؍ غزلیں ہیں جن کے کچھ اشعار آپ کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہیں:
محفل میں تو سبھی تھے مگر رازؔ ایک شخص
نظریں بھی ساتھ ساتھ گئیں ویہ جدھر گیا
----------
ہر ظلم و جبر پر یہاں خاموش کیوں ہیں لوگ
کیا کوئی آکے سب کی زبانیں کتر گیا
----------
خفا ہے رازؔ تم سے یہ غلط فہمی تمہاری ہے
وہ اپنے آپ سے بیزار ہو یہ بھی تو ممکن ہے
----------
میری دعا ہے کہ راز ؔبھارتی صاحب کے شعری مجموعہ ’آغاز‘ کے بعد دونوں غیر مطبوعہ مجموعے جلد ہی منزلِ طباعت طے کریں کامیابی تک پہنچیں۔
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 74345 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.