حرفِ گویائی ۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان میں تقریباً سالانہ 35 سے 40 ہزار افراد ٹریفک حادثات کیوجہ سے قیمتی جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں ۔لاکھوں کی تعداد میں لوگ معذور ہو جاتے ہیں ۔اور ملک کو اربوں روپے کا معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک سروے رپورٹ کیمطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تقریباً روازنہ 9افراد ٹریفک حادثات کیوجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اور اس سے دوگنا لوگوں کو معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کئی خاندان اپنے پیاروں کو کھو دینے کیساتھ ساتھ ذریعہ معاش بھی کھو دیتے ہیں۔اس رپورٹ کیمطابق صرف پنجاب میں سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 750 ٹریفک حادثات دیکھنے کو ملتے ہیں۔پاکستان میں موٹروے کے سفر کو حادثات سے محفوظ سفر تصور کیا جاتا تھا ۔لیکن اب موٹروے پر بھی لگاتار حادثات ہونے لگے ہیں ۔

17 جون کو ایک بد قسمت بس جو کہ اسلام آباد سے جھنگ جارہی تھی, موٹروے پرکلر کہار کے قریب حادثہ کا شکار ہو گئی ۔جس میں تقریباً 12 افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے ۔یہ حادثہ ایک محفوظ سفری شاہراہ پر پیش آیا جہاں پر ہر ممکن سہولیات بروکار لاکر ابتدائی طبعی امداد دے کر ذیادہ سے ذیادہ جانوں کو بچانے کی کوشش کی گئی ہو گی۔اگر عام شاہراہوں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں پر کیا صورتحال ہوتی ہوگی۔
آبادی میں بے تحاشہ اضافے کیوجہ سے اس طرح کے حادثات روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔اور ان حادثات سے بچاؤ کے لیے پنجاب ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122 جیسے ادارے کو غیر معمولی طور پر پہلے سے زیادہ فعال بنانے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔اس ادارے نے ہمیشہ کسی تفریق کے بغیر بہت ساری زندگیوں کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ معاشی نقصانات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ابتدائی طور پر یہ سروس 2006 کے پنجاب ایمرجنسی سروس ایکٹ کے تحت ڈاکٹر رضوان نصیر کی کا انتھک کاوشوں کے تحت قائم کی گئی تھی تاکہ ہنگامی حالات جیسے کہ،ٹریفک حادثات ،اگ اور دیگر قدرتی آفات میں ریسکیو , ہنگامی طبعی امداد بروقت دی جا سکیں ۔ہنگامی صورتحال میں، عوامی تحفظ کو یقینی بنانا اس ادارے کا بنیادی مقصد رکھا گیا۔پاکستان میں دیگر ادارے بھی اپنی زمہ داریاں احسن انداز میں نبھاتے آ رہے ہیں۔لیکن اس ادارے نے ایک بہترین فاؤنڈر اور قیادت ڈاکٹر رضوان نصیر کی رہنمائی میں بہت جلدی معاشرے میں اپنا مقام بنایا اور لوگوں کے دلوں میں اپنا گھر کر لیا۔

اس ادارے کی پہچان بلا تفریق جانی اور مالی نقصان کو کم کرنے میں سروس فراہم کرنا اسکی انفرادیت کی عکاسی کرتا ہے۔پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں اس طرح کی فری سروس کا قیام ایک دیوانے کا خواب لگتا تھا۔شاہد اس طرح کی پرپوزل دینے والے کے بارے میں کوئی اچھا گمان تصور نہ کیا گیا ہو گا۔مگر مقصد نیک تھا تو پایہ تکمیل کو پہنچ ہی گیا۔

ایک وقت تھا اس ادارے کے قیام سے پہلے لوگ مختلف حادثات کا شکار ہو کر جائے حادثات پر تڑپ تڑپ کر لقمہ اجل بن جاتے تھے کوئی انکی مدد کو ڈر کے مارے آگے نہیں آتا تھا۔اگر کوئی مدد فراہم کرتا بھی تھا تو ابتدائی طبعی معلومات نہ ہونے کیوجہ سے ان نقصانات کو کم کرنے میں مثبت کردار ادا نہیں کر سکتا تھا۔جو کہ اس ادراے کے تربیت یافتہ افراد کی وجہ سے ممکن ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر رضوان نصیر نےبہت سارے وسائل کے فقدان کے باجود پنجاب میں اس سروس کا آغاز ڈویژن سطح سے شروع کر کے یونین کونسل سطح تک پہنچا دیا ہے ۔لوگوں کو اس ادارے کے تربیت یافتہ افراد نے حادثات کی روک تھام کے لیے بنیادی تربیت دی۔دیگر دنیا اور سارک ممالک میں بلا تفریق سروسز کیوجہ سے، اس ادارے اور اس ادارے کے سربراہ کا ذکر فخریہ انداز میں کیا جاتا ہے ۔اور یہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔

پاکستان میں روز بروز ان حادثات میں اضافہ اور دیگر قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کےلئے وقت کی شدید ضرورت ہے۔کہ اس ادارے کے دائرہ کار کو ڈاکٹر رضوان نصیر کی سربراہی میں وفاقی سطح تک پھیلایا جائے ۔تاکہ مستقبل میں زیادہ سے زیادہ جانی اور مالی نقصان سے بچا جاسکے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Adv zulqurnain Haider Naqvi
About the Author: Adv zulqurnain Haider Naqvi Read More Articles by Adv zulqurnain Haider Naqvi: 10 Articles with 5259 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.